0
Saturday 7 Aug 2021 21:50

آج اسرائیل کسی بھی وقت سے بڑھکر اپنے "وجود" کیلئے پریشان ہے، سید حسن نصراللہ

آج اسرائیل کسی بھی وقت سے بڑھکر اپنے "وجود" کیلئے پریشان ہے، سید حسن نصراللہ
اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے آج شام، لبنانی مزاحمتی محاذ پر غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے مسلط کردہ 33 روزہ جنگ اور اس میں صیہونی فوج کی کھلی شکست کے حوالے سے قوم سے خطاب کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں حزب اللہ کے سینیئر اہلکار علی الشبلی کی شہادت پر تسلیت پیش کی اور ان کے جنازے میں موجود غیر فوجی افراد پر نامعلوم مسلح حملہ آوروں کے حملے کے بارے گفتگو کی۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے اپنی گفتگو کے دوران اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی مزاحمتی محاذ نے آزادیٔ فلسطین کے عوامی محاذ کے سربراہ ابو جہاد احمد جبرئیل کو کھو دیا ہے، 33 روزہ جنگ کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اس جنگ کے ذریعے متعدد کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جبکہ یہ ذمہ داری سب لوگوں کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس جنگ میں حاصل ہونے والی تمام کامیابیوں کی حفاظت کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس جنگ کے بدولت غاصب صیہونی رژیم کے خلاف وسیع معرکے انجام پائے جن کا ایک نمونہ حالیہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن ہے، کہا کہ اس جنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی ایک اہم ترین کامیابی لبنان کو میسر امن و امان ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ گذشتہ 15 سالوں کے دوران لبنان پر ہونے والے صیہونی حملوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے ہدف تک نہیں پہنچا، کہا کہ 33 روزہ جنگ کی ایک اور اہم کامیابی؛ دشمن کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کی جانب سے برقرار کیا جانے والا نیا دفاعی توازن ہے جس کا مقصد لبنان کی حفاظت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس جنگ سے قبل کئی عشروں کے دوران لبنان، صیہونی فضائیہ کی پروازوں کا گڑھ بنا ہوا تھا، کہا کہ کوئی چیز بھی غاصب صیہونیوں کے ان حملوں کو روکنے کا سبب نہیں بن سکتی تاہم وہ چیز جس نے انہیں لبنان پر مزید حملے کرنے سے روک رکھا ہے "(لبنانی) مزاحمتی محاذ کے ساتھ وسیع لڑائی کا صیہونی خوف" ہے۔ سید مقاومت نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی دشمن آج کسی بھی وقت سے بڑھ کر اپنی "بقاء" کے لئے پریشان ہے، کہا کہ اس دشمن کو عالمی سپر پاوروں کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک کی جانب سے بھی بھرپور حمایت حاصل ہے تاہم وہ لبنانی مزاحمتی محاذ کے ساتھ جنگ کے برے نتائج اور اپنے اندرونی محاذ پر اس کے برے اثرات سے خوفزدہ ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ صیہونی دشمن جنگ کے برے نتائج کے باعث آج لبنان پر حملہ کرنے سے گریزاں ہے، کہا کہ صیہونی دشمن سال 2006ء سے لے کر آج تک حزب اللہ کے اسلحے سے پریشان رہا ہے جبکہ اس دوران لبنان کے بعض فریقوں نے حزب اللہ کا اسلحہ رکھوانے کے لئے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس دشمن کی مدد کی ہے۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ غاصب صیہونی، شام پر اپنے مسلسل حملوں میں بھی کوئی ہدف حاصل کر سکے ہیں اور نہ ہی حزب اللہ کو مزید طاقتور ہونے سے روک سکے ہیں، کہا کہ آج اسلامی مزاحمتی محاذ کی میزائل پاور اور اپنے اہداف کو انتہائی درستگی کے ساتھ نشانہ بنانے کی اس کی صلاحیت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنان کے جنوبی علاقوں پر ہونے والا یہ حملہ گذشتہ 15 سالوں میں منفرد تھا، کہا کہ جمعرات کے روز نامعلوم راکٹ فائر ہوئے.. ہم نے اس موضوع پر توجہ نہ دی اور اسے فوج کے سپرد کر دیا.. تاہم آدھی رات کے وقت جنوبی علاقوں پر حملہ ہو گیا.. اسرائیلی دشمن نے اعلان کیا کہ اس نے کھلے علاقوں کو نشانہ بنایا ہے اور وہ سوچ رہا تھا کہ یہ مسئلہ یونہی ختم ہو جائے گا.. تاہم ہر جارحیت کے وقوع پذیر ہونے پر اس کا جواب دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جمعرات کے روز کا واقعہ وقت کے لحاظ سے انتہائی اہم تھا کیونکہ فوری جواب دیا جانا چاہئے تھا اور اگر جواب می دیر ہو جاتی تو اس کی اہمیت بھی گر جاتی، کہا کہ چونکہ دشمن کا حملہ کھلے علاقے میں ہوا تھا لہذا اس کا جواب بھی یونہی دیا گیا.. ہم نے شعبا فارمز میں ایک کھلے علاقے کا انتخاب کیا تاکہ ایک نپا تلا جواب دیا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو اس میں توسیع بھی کی جا سکے.. ہم نے جواب دینے کے وقت کا "دن" میں انتخاب کیا تاکہ یہ دشمن کے برعکس خوف و ہراس کا باعث نہ بنے جس نے عوام کو ڈرانے کے لئے آدھی رات کے وقت حملہ کیا تھا۔

انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اس حملے کے بعد حزب اللہ لبنان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی، کہا کہ ہمارا بیان اور حملہ، ہر دو ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے تھے جبکہ ہمارا جواب روشن دن میں وقوع پذیر ہوا اور اس کا پیغام بھی روشن تھا.. تم نے ایک کھلے علاقے کو نشانہ بنایا ہے لہذا ہم نے بھی ایک کھلے اور آبادی سے دور علاقے پر جواب دیا ہے.. بعض صیہونی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ حزب اللہ نیا دفاعی توازن برقرار کرنا چاہتی ہے، نہیں بالکل نہیں.. وہی دفاعی توازن ہے اور ہم نے اسے مزید مضبوط بنایا ہے.. ہم دشمن کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ تمہاری فضائیہ کے ہر حملے کا جواب انتہائی مناسب و متناسب انداز میں دیا جائے گا۔ سید حسن نصراللہ نے حملے کی صیہونی دھمکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جواب گولان ہائیٹس کی جانب سے بھی ہو سکتا ہے.. تاہم ہم اسرائیلی دشمن کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے.. اور اس کی جانب بڑھ بھی نہیں رہے لیکن اس کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں اور جانتے ہیں کہ اس میں فتح ہماری ہی ہو گی جبکہ دشمن جو بڑی حماقت کر سکتا ہے یہ ہے کہ وہ لبنان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کر لے!

حزب اللہ کے سربراہ نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ لبنانی مزاحمتی محاذ نے سال 2006ء میں غاصب صیہونی دشمن کو عقب نشینی کرنے پر مجبور کر دیا تھا، حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کو دیئے جانے والے جواب کے لبنانی مخالفین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں لبنانی حاکمیت کے دعویداروں کو جواب نہیں دینا چاہتا جنہوں نے مزاحمتی محاذ کے بھرپور جواب کے بعد مگر مچھ کے آنسو بہائے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ بحث مباحثہ بے فائدہ ہے۔ سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں حزب اللہ کے 2 اہلکاروں کی شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ ہمارے 2 شہیدوں کا انتقام ابھی باقی ہے.. جمعرات کے آپریشن میں ان دو شہداء کے ناموں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے تاکہ بتائیں کہ ان کا انتقام ابھی باقی ہے.. اس مرتبہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ شبعا فارمز کے کھلے علاقے کو نشانہ بنائیں جبکہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ ہم فیصلہ کریں کہ مثلا مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے شمالی علاقے، شاید الجلیل کے کسی کھلے علاقے کو نشانہ بنایا جائے!
خبر کا کوڈ : 947295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش