0
Tuesday 10 Aug 2021 23:09

سانحہ 13 اکتوبر گلگت کے اسیران کے لواحقین کا انصاف کیلئے 15 اگست سے دھرنا دینے کا اعلان

سانحہ 13 اکتوبر گلگت کے اسیران کے لواحقین کا انصاف کیلئے 15 اگست سے دھرنا دینے کا اعلان
اسلام ٹائمز۔ سانحہ 13 اکتوبر گلگت کے اسیران کے لواحقین/کمیٹی کا ایک اہم اجلاس گلگت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں لواحقین اور کمیٹی کے ممبران نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 13 اکتوبر 2005ء کو گلگت شہر میں آنے والے ناخوشگوار واقعے کی ایف آئی آر تھانہ سٹی میں نامعلوم افراد کیخلاف درج ہوئی، اس واقعے میں دو رینجرز اہلکار سمیت تقریباً 9 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس وقت مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی نااہلی کے باعث واقعہ پیش آیا جس میں گلگت شہر اور گرد و نواح سے تعلق رکھنے والے معصوم افراد اور بے گناہ رینجرز اہلکاروں کی قیمتی جانیں چلی گئیں۔ واقعے کی بابت ایک جوڈیشل کمیشن زیر سرپرستی چیف جسٹس چیف کورٹ راجہ جلال اور ممبر جج جسٹس مظفر علی قائم کیا گیا۔ جج صاحبان نے واقعے کی شفاف تحقیقات کروائیں اور اپنی رپورٹ دی لیکن اس وقت کی حکومت نے اپنی ناکامی اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے مذکورہ انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر آنے سے پہلے ہی غائب کر دیا۔

بعد ازاں مقامی پولیس نے تقریباً دو سال بعد اپنے روایتی طریقہ کار کو آزماتے ہوئے بے گناہ افراد کی پکڑ دھکڑ شروع کی اور گلگت شہر سے چودہ افراد کو گرفتار کرکے خانہ پوری کا سلسلہ شروع کیا۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد چودہ افراد کو واقعے کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے انہیں جوڈیشل کر دیا۔ انسداد دہشتگردی عدالت گلگت میں چالان پیش کیا گیا، عدالت میں کیس چلتا رہا، گواہان نے اپنی گواہیاں بھی عدالت میں ریکارڈ کروائیں جس کی بنیاد پر تمام ملزمان کو عدالت سے ضمانتیں مل گئیں اور کیس کمزور ہوتا چلا گیا۔ دس سال تک ملزمان انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشیاں بھگتے رہے۔ سال 2015ء میں آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشتگردوں کے حملے میں معصوم بچوں اور اساتذہ کی شہادتوں کے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کرکے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کی جس کے مطابق ہارڈ کور دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کے خطرناک دہشتگردوں کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں مزید کہا گیا کہ کچھ سیاسی وجوہات کی بناء پر مذکورہ آئینی ترمیم کو سرزمین بے آئین گلگت بلتستان تک توسیع دے دی گئی۔ سال 2015ء میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے قانون اور آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دس سال پرانے کیس کو زبردستی ملٹری کورٹ بھیجا جو کہ آئین کے آرٹیکل 12 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ سال 2016ء میں 14 بے گناہ اسیران کا ملٹری کورٹ میں یکطرفہ نام نہاد ٹرائل کیا گیا، انہیں بغیر وکیل کے ملٹری کورٹ میں پیش کیا گیا اور سادہ کاغذ پر زبردستی دستخط لیے گئے اور بغیر کسی گواہ اور ثبوت کے ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ فوجی عدالت کے فیصلے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں پٹیشن دائر کی گئی جو ایک سال زیر سماعت رہنے کے بعد سال 2017ء میں اختیار سماعت نہ ہونے کے باعث خارج ہوئی۔ لاہور لائیکورٹ کے اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی جو کہ پانچ سال سال زیر سماعت رہنے کے بعد 9 جون 2021ء کو خارج ہوئی۔

شرکاء کا مزید کہنا تھا کہ 14 بے گناہ اسیران کے لواحقین نے انصاف کیلئے تمام عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی، بے گناہ اسیران کے لواحقین نے گلگت بلتستان کے معزز شہری ہونے کے ناتے اپنے پیاروں کو انصاف دلانے کیلئے ریاستی بے حسی اور ظلم کیخلاف پرامن احتجاج کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں اسیران کے لواحقین 15 اگست سے چیف سیکرٹری سیکرٹریٹ کے باہر اپنے پیاروں کی رہائی تک دھرنے کا آغاز کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 947856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش