0
Friday 13 Aug 2021 21:58

امریکہ صیہونی رژیم کے جوہری اسلحے کے بارے اعدادوشمار نشر کرے، امریکی اخبار

امریکہ صیہونی رژیم کے جوہری اسلحے کے بارے اعدادوشمار نشر کرے، امریکی اخبار
اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی روزنامے نے غاصب صیہونی رژیم کے خفیہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق تجاہل عارفانہ پر مبنی امریکی پالیسی پر شدید تنقید کی ہے۔ پیٹر بینارٹ نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے اس مقالے کے آغاز میں امریکی حکام کی جانب سے دیئے جانے والے اس بے بنیاد انتباہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے خطے میں جوہری اسلحے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے، لکھا ہے کہ اکثر امریکی حکام خبردار کرتے ہیں کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کر لئے تو پورے مشرق وسطی میں جوہری المیہ وقوع پذیر ہو جائے گا جبکہ مارچ 2020ء میں امریکی پارلیمانی کمیٹی برائے تعلقات خارجہ کے سربراہ سینیٹر رابرٹ میننڈز کا کہنا تھا کہ جوہری بم کے حصول میں ایران کو آزاد چھوڑ دينا "ہتھیاروں کے اعتبار سے اس خطے کے انتہائی خطرناک بن جانے" کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی اخبار نے اس کے ساتھ ملتے جلتے گذشتہ دسمبر میں جاری ہونے والے موجودہ امریکی صدر کے بیانات کی جانب بھی اشارہ کیا جن میں جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیاروں تک دسترسی پیدا کر لی تو ممکن ہے کہ ترکی، سعودی عرب اور مصر بھی اس کی تقلید میں لگ جائیں۔ مذکورہ انٹرویو کے دوران بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ چیز جو ہم اس خطے میں نہیں چاہتے، جوہری صلاحیت کا حصول ہے۔

نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ اس جیسے بیانات و تنبیہات سے جو ظاہر ہوتا ہے یہ ہے کہ اس وقت یہ خطہ جوہری ہتھیاروں سے عاری ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ پیٹر بینارٹ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خطے میں اس وقت سب سے زیادہ جوہری ہتھیار اسرائیل کے پاس ہیں، لکھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کے بارے امریکی رہنماؤں سے کچھ بھی نہ سنیں گے کیونکہ اس حوالے سے انہوں نے نصف صدی سے خود کو تجاہل عارفانہ میں ڈال رکھا ہے۔ اس نے لکھا کہ اس فریبکاری کے باعث نہ صرف جوہری پھیلاؤ کے خلاف امریکی کوششوں پر سوال اٹھتا ہے بلکہ ایران کے خلاف تمام امریکی دلیلیں بھی کمزور پڑ جاتی ہیں لہذا اب اس بات کا وقت آن پہنچا ہے کہ امریکہ حقیقت کو بیان کر دے۔ امریکی اخبار نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی حکام نے اسرائیلی جوہری ہتھیاروں کے بارے خفیہ رویہ تب اپنایا جب انہیں پتہ چلا کہ اسرائیلی حکام نے اس مسئلے کو ان سے چھپا رکھا ہے جبکہ 1960ء کے عشرے کے اوائل میں اس وقت کے صیہونی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو کہا تھا کہ شہر ڈیمونا میں اسرائیل کی جانب سے بنایا جانے والا جوہری ری ایکٹر مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لئے ہے اور پھر جب امریکہ نے ڈیمونا سائٹ کا معائنہ کرنے کے لئے اپنے انسپکٹر وہاں بھیجے تو اسرائیلیوں نے انتہائی چالاکی سے کام لیتے ہوئے، جوہری بم بنانے کے زیرزمین کارخانے تک جانے والی راہرووں میں جعلی دیواریں کھڑی کر کے انہیں چھپا دیا درحالیکہ اسی دہائی کے آخر تک اسرائیلی قلعی کھل چکی تھی اور امریکی سی آئی اے جان چکی تھی کہ اسرائیلیوں نے جوہری وارہیڈ حاصل کر لئے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق پھر امریکی صدر رچرڈ نکسن اور صیہونی وزیراعظم گولڈامئیر کے درمیان یہ طے پا گیا کہ امریکہ یا اسرائیل، کوئی یہ اقرار نہیں کرے گا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں اور نہ ہی اسرائیلی جوہری تنصیبات کی بین الاقوامی نگرانی کے لئے امریکہ کی جانب سے صیہونی رژیم پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ امریکی لکھاری نے تحریر کیا کہ آج 50 سال گزر جانے کے بعد بھی امریکہ کے تمام صدر از معاہدے کے پابند ہیں درحالیکہ محققین کا ماننا ہے کہ سال 1979ء کے دوران صیہونی رژیم کی جانب سے اوقیانوس ہند میں ایک جوہری اسلحے کی آزمائش بھی کی گئی تھی جسے کارٹر کی امریکی حکومت کی جانب سے چھپا دیا گیا تھا۔ اس مقالے کے مطابق سال 2009ء میں جب ایک خبرنگار نے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما سے پوچھا کہ کیا وہ مشرق وسطی کے کسی ایسے ملک کو جانتے ہیں جس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں؟ تو باراک اوباما کا اس کے جواب میں کہنا تھا کہ میں اندازے نہیں لگانا چاہتا۔

امریکی اخبار نے لکھا کہ امریکہ نے جانتے بوجھتے ہوئے اسرائیلی جوہری ہتھیاروں پر آنکھیں بند کر کے "جوہری عدم پھیلاؤ" کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کا بری طرح مذاق بنایا ہے جبکہ جناب اوباما نے وعدہ دیا تھا کہ وہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے عاری بنا دیں گے درحالیکہ اسرائیلی جوہری ہتھیاروں پر بحث کو شروع ہونے سے قبل روکنے کے لئے اوباما نے ہی "جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی" کے عنوان سے اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس کے انعقاد کی بھی مخالفت کی تھی۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ جوبائیڈن کی حکومت اس کوشش میں ہے کہ ایران کے خلاف مفلوج کنندہ پابندیاں عائد کر کے اسے این پی ٹی (NPT) معاہدے میں مندرج مزید سخت تلاشیوں و نگرانیوں کے قبول کرنے پر مجبور کر دے لیکن اسی دوران اسرائیل، جس نے کسی معاہدے پر بھی دستخط نہیں کئے، ہر قسم کی نگرانی سے معاف ہے۔ پیٹر بینارٹ نے اپنے مقالے کے آخر میں تاکید کی کہ جب امریکی سفارتکار "قانونی نظم و نسق کے دفاع" کی بات کرتے ہیں تو امریکہ کی اسی منافقت کے باعث دنیا بھر میں ان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 948418
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش