0
Saturday 28 Aug 2021 12:07

طالبان کا نیا افغانستان اور شہید سلیمانی کی دور اندیشی

طالبان کا نیا افغانستان اور شہید سلیمانی کی دور اندیشی
تحریر: توقیر کھرل

طالبان کے افغانستان پر قبضہ سے قبل ایران میں افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کی میز پر نظر آئے۔ قبضہ کے بعد محرم الحرام میں مجالس عزاء میں طالبان رہنماوں کی شرکت اور کابل میں شیعہ علمائے کرام کی نشستوں کے بعد یہ سوال زبان زد عام ہے کہ ایران اور طالبان کے مابین تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور ان تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا۔؟ تہران یونیورسٹی میں "امریکن سٹڈیز" مضمون کے سربراہ سید محمد مرندی کا کہنا ہے کہ 20 سال پہلے، افغانستان میں طالبان کی شکست اور امریکی دباو کے تحت پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے حمایت مکمل طور پر واپس لینے کے بعد ایران کی سپاہ قدس نے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کی۔ اس وقت بہت سے لوگوں نے سوچا کہ یہ ایک بے معنی کوشش ہے، کیونکہ پورے خطے میں سیاسی منظر نامہ ڈرامائی طور پر بدل رہا تھا۔ اس تمام تر صورتحال کے ساتھ ساتھ طالبان کی جانب سے مزار شریف میں ایرانی قونصل خانے کے اندر 11 ایرانی سفارت کاروں اور ایک صحافی کا قتل بھی ایران نے فراموش نہیں کیا تھا۔

اگر یہ واقعہ لوگوں میں طالبانوں کی ایران دشمنی کے طور پر ظاہر کیا جاتا تو اس کے ثمرات و نتائج برے ہوتے، لیکن جب طالبان کو شکست ہوئی اور باقی قوتیں ملک سے بھاگ گئیں، ایرانی اتحادیوں نے افغانستان حکومت میں اہم عہدے سنبھال لیے۔ ایسا لگتا تھا کہ تقریباً ختم ہو جانے والی طاقت (طالبان) کے ساتھ بات چیت کی کوئی ضرورت یا جواز نہیں ہے۔ تاہم شہید جنرل قاسم سلیمانی کا خیال تھا کہ طالبان کو جنوبی افغانستان اور پاکستان کے کچھ حصوں میں پشتون قبائل اور آبادیوں کے ایک اہم طبقے کے درمیان مقبول حمایت حاصل ہے اور انہوں نے محسوس کیا کہ طویل مدتی علاقائی استحکام کیلئے تمام فریقوں کے درمیان افہام و تفہیم ضروری ہے۔ جنرل سلیمانی کا یہ بھی ماننا تھا کہ ایسے حالات میں واحد قوت جو امریکی قبضے کو نقصان پہنچا سکتی ہے، وہ طالبان ہے۔ ایران کا ایک اہم اسٹریٹجک مقصد طالبان تھا۔

وہ جانتا تھا کہ ایسے حالات میں عراق اور افغانستان دونوں پر قبضہ آہستہ آہستہ مغربی ممالک میں انتہائی پریشان کن اور غیر مقبول ہو جائے گا اور بالآخر اتنا بڑا بوجھ مغربی معیشتوں کو سخت متاثر کرے گا اور انہیں دونوں ممالک سے اپنی افواج واپس بلانے پر مجبور کرے گا۔ ایران کی سپاہ قدس کا مقصد باہمی افہام و تفہیم پیدا کرنا اور تقسیم شدہ طالبان کے اندر معتدل دھڑوں کو بالا دستی حاصل کرنے کی ترغیب دینا تھا۔ جنرل سلیمانی کا خیال تھا کہ یہ ناگزیر ہے کہ کسی وقت غیر ملکی افواج کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا اور یہ کہ ماضی کی طرح ضروری تھا کہ افغانستان پر غیر ملکی افواج کا قبضہ ختم ہونے کے بعد یہ ملک دوبارہ کسی خانہ جنگی کی طرف نہ جائے۔ 2011ء تعلقات میں ایک اہم موڑ تھا، جب طالبان کے اعلیٰ سطحی وفود نے تہران کا دورہ شروع کیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، تعلقات گہرے اور ذاتی ہوتے گئے۔

اس قدر مضبوط تعلقات کہ جب جنرل سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ٹرمپ حکومت کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا تو طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے تہران کا دورہ کیا اور تہران میں شہید سلیمانی کے گھر ان کے اہل خانہ سے تعزیت بھی کی۔ اگرچہ افغان حکومتی افواج کے خلاف طالبان کی ایرانی فوجی حمایت کے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔ ایرانی انٹیلی جنس اور طالبان دونوں جانتے تھے کہ تیزی سے ٹوٹنے والی داعش کے اندر امریکہ سے جڑے دھڑے شام سے نکالے گئے اور افغانستان میں داخل کیے گئے۔ طالبان نے سپاہ قدس فورس سے کہا کہ وہ اس کو شکست دینے میں کلیدی مدد کرے، کیونکہ ایران خود اسے اپنے لئے ایک جاندار خطرہ سجھتا ہے۔ ایران نے افغان حکومت کو مطلع کیا، جو اس طرح کے تعاون سے خاص طور پر خوش نہیں تھا، لیکن انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔

بالآخر طالبان نے القدس فورس سے 4 وعدے کیے۔
1۔ ایران کے ساتھ سرحد پر استحکام برقرار رکھے گا۔
2۔ غیر ملکی قوتوں کی موجودگی کی مخالفت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
3۔ نسلی گروہوں یا فرقوں کو نشانہ نہیں بنائے گا۔
4۔ بھائی بھائیوں کو قتل نہیں کریں گے۔
اگرچہ طالبان کے اندر مختلف نظریات رکھنے والے مختلف گروہ ہیں، مگر اس دوران ایرانیوں نے اندازہ لگایا لیا ہے کہ ان برسوں کے دوران موجودہ طالبان قیادت اپنے وعدوں پر کاربند رہی ہے۔ ان تعلقات نے اسلامی جمہوریہ ایران کو حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں ایک موثر ثالث بننے میں بھی مدد دی ہے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ قابض افواج کا انخلاء خانہ جنگی کا باعث نہ بن جائے اور نئی حکومت کو تمام افغانوں پر مشتمل ہونے کی ترغیب دے۔ ایران کے پاس یہ مان لینے کیلئے پختہ اور ٹھوس بنیادیں ہیں کہ مغربی افواج کا اچانک انخلاء افغانستان میں عدم استحکام اور انتشار پیدا کرنے کے لیے رچایا گیا۔

یہاں پر ایران طالبان تعلقات کے بارے میں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جب اپریل میں اردوگان نے افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کیلئے بلایا تو طالبان نے ترکی کی ثالثی کو مسترد کر دیا اور اس کی بجائے ایران کی ثالثی کو قبول کیا۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اگر اس کے پاس افغانستان نہیں ہے تو یہ ملک ایران، چین، روس اور یہاں تک کہ بھارت کیلئے مسلسل پریشانی کا ذریعہ بن جائے۔ دریں اثناء اس وقت سعودی عرب اور 2 دیگر علاقائی طاقتوں کی طرف سے طالبان کے اندر موجود انتہاء پسند تکفیری دھڑوں کی مدد کے لیے کافی رقم بھیجی جا رہی ہے۔ ایران مسلسل کام کر رہا ہے اور افغانستان کے اندر مختلف فریقوں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کے علاوہ چین اور روس کے ساتھ ان لوگوں کی کوششوں کو روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی اب ہم میں نہیں رہے، لیکن خطے کیلئے ان کی دی گئی پالیسیوں اور امریکی تسلط کے خلاف ان کی شہادت کے بعد بھی پورے زور و شور سے عملدرآمد جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 950820
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش