0
Thursday 2 Sep 2021 21:06

عبوری صوبے پر بار کونسل اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے، جی بی کے وکلاء رہنمائوں کا مطالبہ

عبوری صوبے پر بار کونسل اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے، جی بی کے وکلاء رہنمائوں کا مطالبہ
اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کی وکلاء تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ عبوری آئینی صوبے پر وکلاء کو اعتماد میں لیا جائے اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے مساوی اختیارات اور نمائندگی دی جائے۔ گلگت بلتستان بار کونسل، سپریم اپیلیٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن، ہائیکورٹ بار اور تمام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس کے بعد وائس چیئرمین جی بی بار کونسل ملک شفقت ولی ایڈووکیٹ، اسد اللہ ایڈووکیٹ و دیگر وکلاء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اجلاس کا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اور کہا کہ اجلاس میں متفقہ طور پر ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان سے پرزور مطالبہ کیا گیا ہے کہ ریاست پاکستان جی بی کو عبوری آئینی صوبہ بنانے جا رہی ہے جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے مساوی اختیارات اور نمائندگی دی جائے اور مسودہ کے مرتب کرنے میں جی بی بار کونسل، بار ایسوسی ایشنز اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ جی بی میں عرصہ پانچ سال سے جج کی ایک اسامی حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے پر نہیں کی جا سکی ہے، جسے فوری طور پر وکلاء میں سے پر کی جائے تاکہ عدالت عظمیٰ سے لوگوں کو جلد انصاف فراہم ہو سکے۔ دوسری طرف چیف کورٹ جی بی میں موجودہ وقت ایک جج تعینات ہے جبکہ چیف کورٹ میں ججز کی 6 مزید اسامیوں کی تعیناتی باقی ہے جوکہ حکومت کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد تمام خالی اسامیوں پر ججز کی تعیناتی مکمل طور پر عمل میں لائی جائے تاکہ عوام کو انصاف مل سکے۔ جی بی سروس ٹریبونل جو کہ عرصہ ایک سال سے عدم تعیناتی چیئرمین و ممبران کی وجہ سے بند ہے اور سرکاری ملازمین کے حقوق کا تحفظ اور داد رسی کے دروازے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں جوکہ ان کے بنیادی آئینی حقوق کے مفافی ہے، حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فی الفور سروس ٹریبونل میں چیئرمین اور دو ممبران کی تعیناتی عمل میں لائی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔

وکلا رہنماہوں کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ 13 سالوں سے انسداد دہشتگردی کورٹ نمبر 2 میں ججز کی عدم تعیناتی سے ملزمان کا فیئر ٹرائل کا حق تلف ہوا ہے، باﺅجود کورٹ سٹاف کی موجودگی کے حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکلاء میں سے جج کی تعیناتی عمل میں نہیں لا رہی ہے۔ اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ جلد از جلد وکلاء سے انسداد دہشتگردی عدالت نمبر دو میں جج کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔ گزشتہ دس سالوں سے ایک ہی جج کو بنکنگ جج، کسٹم جج، نیب جج کے اختیارات سونپے گئے ہیں جوکہ آئین و قانون سے متصادم ہے، جس سے عوام الناس کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں، اس لیے حکومت وقت سے پرزور مطالبہ ہے کہ بنکنگ جج، کسٹم جج اور نیب جج کی تعیناتی کرتے ہوئے الگ الگ کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے، اسی طرح ڈرگ کورٹ، عدالت انسداد منشیات میں الگ الگ ججز کی تعیناتی کرتے ہوئے کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ وکلاء رہنماﺅں نے مطالبہ کیا کہ چیف کورٹ جی بی کے متعین کردہ رولز کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کا کوٹہ وکلاء و ججز کا متعین کردہ ہے، جس کے مطابق 40 فیصد کوٹہ جو کہ وکلاء میں سے ہے کو جلد از جلد متعین کردہ کوٹے کے مطابق تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔

اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ موجودہ وقت میں سول ججز کی 6 اسامیاں گزشتہ کئی سالوں سے خالی پڑی ہیں جس کی تعیناتی تحت متعین کردہ فورم ایف پی ایس سی کے ذریعے جلد از جلد پر کی جائیں تاکہ عوام الناس کو انصاف جلد از جلد میسر ہو سکے۔ جوڈیشل مجسٹریٹس و سول ججز و فیملی ججز کے اختیارات موجودہ وقت میں ایک ہی سول جج انجام دے رہا ہے جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ملک کے دیگر صوبوں میں تمام مذکورہ بالا ججز اپنی اپنی خدمات الگ الگ متعین کردہ عہدوں کے مطابق سرانجام دے رہے ہیں، اس لئے حکومت وقت سے پرزور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد اختیارات کا تعین تحت قانون کرتے ہوئے سول ججز، جوڈیشل مجسٹریٹس اور فیملی ججز کی الگ الگ عدالتوں کا قیام عمل میں لاتے ہوئے ججز کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان فار جی بی کی اسامی عرصہ دراز سے خالی ہے جس سے عدالت عظمیٰ میں تمام کیسز تعطل کا شکار ہیں، اس لئے حکومت سے مطالبہ ہے کہ مذکورہ پوسٹ کو جلد از جلد اہلیت کی بنیاد پر وکلاء میں سے پر کیا جائے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل اور پراسکیوٹر جنرل کے عہدوں پر سرکاری ملازمین تعینات ہیں جو کہ آئین پاکستان اور دیگر ملکی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ حکومت وقت سے پرزور مطالبہ ہے کہ مذکورہ آئینی پوسٹوں پر وکلاء میں سے اہلیت کی بنیاد پر تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ کانفرنس کے دوران معروف وکیل اسد اللہ خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم عبوری صوبے کا خیر مقدم کرتے ہیں، اس سلسلے میں اسمبلی کی قراردادیں بھی موجود ہیں، اس سے پہلے پچھلے ادوار میں سیاسی و مذہبی جماعتوں اور بار کونسل کی مشاورت سے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ دیا گیا تھا جسے سرتاج عزیز کمیٹی اور سپریم کورٹ میں بھی جمع کرا دیا گیا۔ لیکن حال ہی میں ایک خبر سننے میں آئی جو انتہائی اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے دائرہ کار کو یہاں تک نہیں بڑھایا جا رہا اور اسی سپریم اپیلیٹ کورٹ کو برقرار رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جس پر بار کونسل نے متفقہ طور پر کہا کہ اس سے تو عبوری آئینی صوبے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کے برابر اختیارات اور نمائندگی دی جائے۔
خبر کا کوڈ : 951830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش