QR CodeQR Code

عشقِ طالبانیت کی سرشاری اور فوج طالبان بھائی بھائی

17 Sep 2021 13:42

اسلام ٹائمز: فوجی جوانوں کے سر تن سے جدا کرکے ان سے فٹبال کھیلنے والوں کو معاف کیا جاسکتا ہے تو پھر ان قاتلوں کو جیلوں سے رہا بھی کر دینا چاہیئے، تاکہ وہ پھر پورے مُلک میں سوات جیسے مظالم ڈھا سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کالعدم تحریک طالبان نے سوات سے لیکر وزیرستان تک جو مظالم ڈھائے ہیں، کیا وہ کسی سے ڈھکے چھپے ہیں۔؟ تو بالآخر کیوں پاکستانیوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔؟ ستر ہزار سے زائد پیارے دہشتگردی میں کھو دینے والی قوم کیساتھ ساتھ حکومت بھی دہشتگردوں کی حامی نظر آتی ہے اور انہیں عام معافی دینے کیلئے استادہ ہے۔ لال مسجد کا خطیب تو آئین مخالف اور آئین پاکستان کو ماننے والے کو کفر تک کا فتویٰ دے چکا ہے، اپنی نفرت انگیز سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، بلاشبہ اسی معافی کا ہی تسلسل معلوم ہوتا ہے۔


تحریر: توقیر کھرل

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ افغانستان سے پاکستان کے اندر کسی گروپ کو دہشت گردی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے اور پاکستان بھی اس حوالے سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ان افراد کو "معافی" دینے کا سوچ سکتی ہے، جو ہتھیار ڈال کر پاکستانی آئین کو تسلیم کریں اور مستقبل میں جرائم میں ملوث نہ ہوں۔ وزیر خارجہ نے وہی الفاظ دہرائے ہیں، جو چند دن قبل پاکستان میں داعش اور طالبان کو خوش آمدید کہنے والے خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز نے کہا تھا کہ "ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو معافی کا آغاز کرنا ہی ہوگا، کیوں نہ ہم فوج اور طالبان کو بھائی بھائی بنا دیں۔" دہشت گرد تنظیموں اور داعشی نظریات کے حامل افراد اور ریاست پاکستان کے حکمرانوں میں عشقِ طالبانیت جاگ اٹھا ہے، وہ ہر صورت پاکستان دشمن طالبانوں کو "سپیس" دینا چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ کا حالیہ بیان طالبان کو معافی دینے کا عندیہ ہے۔ یہ عندیہ دراصل 70 ہزار شہید پاکستانیوں سے غداری کے مترادف ہے۔

گذشتہ دنوں سوات کے صحافی فضل ربی کی سوات میں طالبانی اور عسکری محاصرے کی رُوداد پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ کالعدم تحریک طالبان نے کس قدر مظالم ڈھائے تھے، ہاں شکر ہے کہ آپ کے اور میرے شہر ان مظالم کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ شاید اسی باعث ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ گذشتہ دنوں 6 ستمبر کو سرکاری ٹی وی پر آرمی کے مرکز سے یوم دفاع کی تقریبات دکھائی جا رہی تھیں تو اس موقع پر سوات میں ہونے کالعدم تحریک طالبان کے مظالم کو عوام کی زبانی بھی دکھایا گیا تھا، مگر شاید یہ ماضی کا قصہ ہوا اور اب ہمارے اندر پھر سے عشقِ طالبانیت جاگ چک ہے اور شاعر سے معذرت کے ساتھ کہ جاگ اٹھا ہے عشقِ طالبان، ساتھیو مجاہدو۔۔!

شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں طالبانوں کی کامیابی کے بعد پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت بھی 70 ہزار پاکستانیوں کا قتل عام اور اربوں کے معاشی نقصان کو فراموش کرکے طالبانوں کو "سپیس" دینا چاہتی ہے۔ فوجی جوانوں کے سر تن سے جدا کرکے ان سے فٹبال کھیلنے والوں کو معاف کیا جاسکتا ہے تو پھر ان قاتلوں کو جیلوں سے رہا بھی کر دینا چاہیئے، تاکہ وہ پھر پورے مُلک میں سوات جیسے مظالم ڈھا سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کالعدم تحریک طالبان نے سوات سے لیکر وزیرستان تک جو مظالم ڈھائے ہیں، کیا وہ کسی سے ڈھکے چھپے ہیں۔؟ تو بالآخر کیوں پاکستانیوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔؟ ستر ہزار سے زائد پیارے دہشت گردی میں کھو دینے والی قوم کے ساتھ ساتھ حکومت بھی دہشت گردوں کی حامی نظر آتی ہے اور انہیں عام معافی دینے کیلئے استادہ ہے۔ لال مسجد کا خطیب تو آئین مخالف اور آئین پاکستان کو ماننے والے کو کفر تک کا فتویٰ دے چکا ہے، اپنی نفرت انگیز سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، بلاشبہ اسی معافی کا ہی تسلسل معلوم ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کی جنم بھومی پاکستانی سرزمین ہے، مرحوم جنرل نصیر اللہ بابر انہیں اپنے بچے قرار دیتے تھے۔ پاکستان میں اس بیانئے کے حامی لوگ میڈیا میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً طالبان کی خوں آشام سرگرمیوں کیلئے جواز بھی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کابل پر قبضہ سے قبل طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے معروف کالم نگار اوریا مقبول جان سے جب میں نے یہ دریافت کیا  کہ 70 ہزار پاکستانی طالبان کی دہشت گردی کا نشانہ بنے، ساڑھے تین ارب روپے کا معاشی نقصان ہوا، پھر بھی طالبان کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟ تو ان کا جواب میں کہنا تھا کہ 70 ہزار پاکستانی ریاست نے خود شہید کروائے، آخر کیوں طالبانوں کے کام میں مداخلت کی گئی، پاکستان کی سرزمین سے امریکی جہاز اڑتے تھے، تین امریکین اڈے دیئے، 600 لوگ گرفتار کرکے گوانتا موبے کی جیل میں دیا، ان میں سے 99 فیصد بے گناہ تھے، ہماری ریاست کس بنیاد پہ یہ کر رہی تھی؟ یہ طالبانوں کی وسیع ظرفی تھی کہ وہ پاکستان کے عدم تعاون کے باوجود ساتھ کھڑے تھے۔" بظاہر تو یہ پاکستانی صحافی کے جذبات کم طالبان کی سفارت زیادہ نظر آتی ہے، مگر بدقسمتی یہ عشقِ طالبان پوری قوم میں جاگ چکا ہے اور اب یہ عشق حکومتی وزراء میں بھی سرایت کرچکا ہے۔

الباکستانی مومنین کے بے لاگ تبصرے اور اوریا مقبول جیسے صحافیوں کے دل میں  جوش مارتے عشقِ طالبان کے بعد اگر ہماری حکومت کے دل میں معافی کا خیال آگیا ہے تو یہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ عام عوام کا خون بہنا تو "اقتدار کی مجبوری" ہوسکتی ہے۔ فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلنے والوں کو لال مسجد کے خطیب کی تجویز "فوج طالبان بھائی بھائی" کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہم اگر کانپ بھی اٹھے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

آخر طالبانیت کے عشق میں سرشار وزیر خارجہ یہ کیوں بھول گئے کہ وہ جو شہید ہوئے تھے، وہ کس جنگ کا رزق ہوئے تھے۔؟ عقیدہ فروشوں کے ساتھ ساتھ طالبان کو عام معافی دینے والے پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہمیں اپنے ملکی مفادات اور سماجی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 954310

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/954310/عشق-طالبانیت-کی-سرشاری-اور-فوج-طالبان-بھائی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org