QR CodeQR Code

کیا پاکستان کمزور ریاست ہے؟؟

18 Sep 2021 12:29

اسلام ٹائمز: ایسے گروہ بھی اسلام آباد جیسے شہر میں موجود ہیں، جو آئین کو غیر اسلامی کہہ کر تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ریاست نے آج تک ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ریاست مدینہ کے والی کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی ضرورت ہے کہ جناب، پہلے ان دہشتگردوں کے سہولتکاروں سے نمٹ لیں، پھر ٹی ٹی پی کو بھی دیکھ لیں گے۔ اصل میں ٹی ٹی پی سے زیادہ خطرناک یہ سہولتکار ہیں، جو اسلام آباد جیسے شہر میں بیٹھ کر اسلام آباد کے آئین و قانون کو نہ صرف تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسکو للکارتے بھی ہیں اور ریاست خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

برطانوی اخبار ’’انڈیپنڈینٹ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ریاستی رٹ کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے بیان سے یہ اشارہ گیا ہے کہ ریاست دہشتگردوں کے سامنے بے بس ہے اور مشروط معافی دینے کیلئے اتاولی ہوئی جا رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے انٹرویو میں کہا کہ ’’اگر تحریک طالبان پاکستان شدت پسندی کی کارروائیاں چھوڑ دے اور ہتھیار ڈالے دے تو حکومت انہیں معاف کرسکتی ہے۔ اس کے جواب میں طالبان نے شاہ محمود قریشی کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔‘‘ طالبان نے ایک بار پھر پاکستان کو اپنا ’’دشمن‘‘ قرار دے کر اپنی اصلیت واضح کر دی ہے۔

طالبان نے اپنے بیان میں پاکستان کے سیکولر رہنماوں اور فوجی قیادت کو براہ راست مخاطب کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ٹی ٹی پی کا ہدف پاک فوج اور پاکستان کا سیکولر طبقہ ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان کی معافی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے الٹا پاکستان کو معافی دینے کی پیشکش کر دی ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ اگر حکومت پاکستان میں شرعی نظام نافذ کرنے کا وعدہ کرے تو ہم اپنے دشمن کیلئے معافی کا اعلان کرسکتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے بیان میں پاکستان کے آئین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کالعدم جماعت نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کے سیکولر جمہوری رہنماء اور فوجی اسلام دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا رہیں گے تو ان کیخلاف جہاد جاری رہے گا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کو آخر کیا جلدی ہے کہ وہ ایک دہشت گرد اور کالعدم جماعت کو معافی کی پیشکش کرتے پھریں۔ کیا شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے ریاست کے دیگر اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیا ہے؟ کیا دہشتگردوں کا براہ راست نشانہ پاک فوج سے مشاورت کی گئی ہے۔؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کی سُبکی کروانے کی اجازت شاہ محمود قریشی کو کس نے دی ہے۔ شاہ محمود قریشی کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے سے ٹی ٹی پی کے گرفتار دہشتگردوں کو رہا کر دیا گیا ہے، جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ اس حوالے سے دو امور اہم ہیں، ایک افغان طالبان کی قیادت سے بات کی جائے، دوسرا اپنی سلامتی کو یقینی بنایا جائے، سرحدوں پر سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر کیا جائے اور افغانستان سے مہاجرین کی شکل میں آنے والوں کو مخصوص ایریا تک ہی محدود رکھا جائے۔

حکومت کرنے کے کام تو کرتی نہیں اور ایسی بے پر کی اُڑا دیتی ہے، جس سے ملکی وقار پر زد پڑتی ہو۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست اتنی کمزور ہے، جو محض ایک دہشتگرد گروہ سے ’’صلح کی بھیک‘‘ مانگ رہی ہے۔؟ شاہ محمود قریشی صاحب شائد بھول گئے ہیں کہ افغان طالبان نے خود بیان دیا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، راقم کے خیال میں شاہ محمود قریشی نے یہ بیان دینے میں بہت جلدی کی ہے۔ ابھی افغان طالبان کے رویئے کو دیکھا جاتا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، اگر ٹی ٹی پی افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کرتی تو افغان طالبان سے اس کی شکایت جائز تھی، مگر پہلے ہی دہشتگردوں کے ایک گروہ سے خوفزدہ ہو کر انہیں صلح کی پیشکش کرنا، اس طرف اشارہ ہے کہ پاکستان کا دفاع خدانخواستہ کمزور ہاتھوں میں ہے۔

شاہ محمود قریشی نے یہ بیان قبل از وقت دیدیا ہے۔ انہیں پہلے حالات کا جائزہ لینا چاہیئے تھا، ملک میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کی ایک لہر اٹھائی جا رہی ہے، اس حوالے سے حکومت اگر تمام مکاتب فکر کے علماء سے بات کرتی اور فرقہ واریت کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرتی، لیکن ریاست تو خود ایسا ماحول بنانے میں لگی ہوئی ہے کہ جس سے حالات خرابی کی طرف جائیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازشیں کی جا رہی ہیں، کیا اس کے تدارک کیلئے حکومت نے کوئی اقدام کیا۔؟ یقیناً نہیں، تو ریاست کیا کر رہی ہے۔؟ کیا حکومت اس انتظار میں ہے کہ لاشیں گریں، بم دھماکے ہوں، اے پی ایس جیسے واقعات جنم لیں، پھر شور مچایا جائے گا؟؟ اگر حکومت یہ سوچ رہی ہے تو ملکی تاریخی کی نااہل ترین حکومت یہی ہے۔ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ طوفان سے پہلے اس سے بچاو کی تدبیر کر لی جائے تو نقصان سے بچا جا سکتا ہے، مگر حکومت کی ترجیحات بھی اور ہیں، یہاں این جی او مافیا اتنا مضبوط ہے کہ ریاست انہی کی خوشنودی میں مصروف ہے۔

این جی او مافیا ملک کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہے، یکساں قومی نصاب کے نام پر نسل نوء کی فکر کو ’’برائلر‘‘ بنایا جا رہا ہے، مگر اس بے ہودہ ترین حماقت کو حکومت اپنا کارنامہ قرار دے رہی ہے۔ حکومت کی جہالت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ایک طرف یکساں قومی نصاب نافذ کر دیا گیا ہے، تو دوسری جانب پرائیویٹ سکولوں کو یہ اجازت بھی دیدی گئی ہے کہ وہ اس نصاب کیساتھ کوئی کتب پڑھانا چاہتے ہیں تو پڑھا سکتے ہیں۔ تو کیا حکمران یہ بتائیں گے کہ یہ کیسا یکساں قومی نصاب ہے؟؟ نصاب میں سے دینی اقدار خارج کر دی گئی ہیں، دو قومی نظریہ، اساسِ پاکستان اور اسلامی ڈیفنس سسٹم کو ’’دہشتگردی‘‘ قرار دے کر خارج کر دیا گیا ہے۔ جہاد جیسے فریضے کی غلط تشریح تو تفسیر کرکے اسے بھی دہشتگردی سے تعبیر کر دیا گیا ہے، اوپر سے ایسے جاہل ملاں بھی موجود ہیں، جو قرآن کو ’’دہشت گردی سکھانے والی کتاب‘‘ کہہ کر فخر سے آ بیل مجھے مار کا ماحول بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔

ایسے گروہ بھی اسلام آباد جیسے شہر میں موجود ہیں، جو آئین کو غیر اسلامی کہہ کر تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ریاست نے آج تک ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ریاست مدینہ کے والی کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی ضرورت ہے کہ جناب، پہلے ان دہشتگردوں کے سہولت کاروں سے نمٹ لیں، پھر ٹی ٹی پی کو بھی دیکھ لیں گے۔ اصل میں ٹی ٹی پی سے زیادہ خطرناک یہ سہولت کار ہیں، جو اسلام آباد جیسے شہر میں بیٹھ کر اسلام آباد کے آئین و قانون کو نہ صرف تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کو للکارتے بھی ہیں اور ریاست خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔ کیا شاہ محمود قریشی سمیت ریاست مدینہ کے عہدیدار یہ بنانا پسند فرمائیں گے کہ ریاست کو اتنا کمزور کیوں ظاہر کر رہے ہیں؟؟ پاکستان اتنا کمزور نہیں کہ دہشتگردوں سے امن کی بھیک مانگے، البتہ حکمران اپنی کمزوری کا خود علاج کروائیں۔


خبر کا کوڈ: 954463

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/954463/کیا-پاکستان-کمزور-ریاست-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org