1
1
Monday 27 Sep 2021 14:45
ایک منفرد غازی اور کمانڈر

یہ کون تھا جو خاک میں روپوش ہوگیا؟

کمانڈر شہید سید سردار کی یاد میں
یہ کون تھا جو خاک میں روپوش ہوگیا؟
تحریر: لٹل سکالر دلاور عباس

ہر ذرہ جیسے آئینہ بر دوش ہوگیا
یہ کون تھا جو خاک میں روپوش ہوگیا؟

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ﳲ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ(الاحزاب ۲۳) "مومنین میں سے کچھ ایسے مرد ہیں، جنہوں نے اللہ جل کے ساتھ کیا ہوا اپنا عہد سچا کر دکھایا تو اُن میں سے کوئی تو اپنی منت پوری کرچکا اور کوئی اس انتظار میں ہے اور وہ ذرا بھی نہ بدلے۔" ہمارے علاقے (کنج علی زئی) میں سترہ (17) صفر کی شب سے چہلم کی مجالس خمسہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سے قبل جب بھی امام بارگاہ کے دروازے پہ پہنچتے، تو سید بزرگوار کو مین گیٹ کی دہلیز پر بائیں جانب کرسی پر اپنے خاص اور پروقار انداز میں بیٹھے پاتے۔ ایسا لگتا، جیسے سید بزرگوار سکیورٹی کی ذمہ داری نبھانے سے زیادہ ماتمداروں کے استقبال کا شرف حاصل کرنے کے لئے براجماں ہیں اور اکثر یوں ہوتا کہ سب سے پہلے انہی کو سلام کرنے کا شرف حاصل ہوتا۔ میں اس وقت خود تو گاؤں میں نہیں ہوں، تاہم سید کے بغیر ان کی اس نشستگاہ کی سنسانی کے اثرات کا احساس بندہ سمیت شاید ہر ماتمدار کو ہوگا۔ بہر صورت، یہ سید کی بے شمار نشانیوں اور یادگاروں میں سے فقط ایک جھلک ہے، جو اسے کبھی بھولنے نہیں دے گی۔ بقول شاعر:
عشق زادوں کو محبت کی نشانی دے گیا

سید شہید و مرحوم کی یادگار و نشانات ویسے تو بہت ہیں، تاہم یہاں صرف چند ایک کا تذکرہ کئے دیتا ہوں۔ دو تین دن قبل گاؤں میں ایک نوزائیدہ بچی کے لئے قبر تیار کر رہے تھے، اس دوران کسی نے آواز دی، قبر کے لئے پتھر کون تراشے گا، اب تو ماما (سید) بھی نہیں رہے۔ دوسرے نے کہا کہ اب ہمیں بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ (کیونکہ سید ہر فن مولا تھے۔) سید شہید و مرحوم ہر فوتگی پر اول وقت پر قبرستان پہنچنے والوں میں سے تھے۔ کچھ دن پہلے بندۂ حقیر کو افغان سرحد پر موجود علاقے کی دفاعی لائن (محاذ) پر دن گزارنے کا شرف حاصل ہوا، تو دیکھا کہ وہاں بھی ساتھیوں کا موضوع سحن سید ہی رہے۔ تمام ساتھی پہاڑ کی چوٹیوں کی طرف اشارے کرکے سید کی جراتوں کے قصے سنا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پہاڑ کے انچ انچ نے سید کے مضبوط قدموں کا بوسہ لیا ہے۔ اس دوران ایک گونگا چرواہا آیا، جو سید کے قصے اشاروں کی مدد سے سنا رہا تھا اور ان کے بچھڑنے کا ذکر کرتے ہوئے سر پر اپنا ہاتھ ایسے مارتا، جیسے اس کا کوئی اپنا بھائی بھتیجا بچھڑ گیا ہو۔ بیشک وہ حق بجانب تھا، کیوںکہ سید سب کے اپنے تھے۔

سید اپنی زندگی میں ایک بار نہیں کئی بار غازی رہ چکے تھے۔ لیکن آخری بار ڈیڑھ سال قبل 23 رمضان المبارک 2020ء کو سید کی شہرت اس وقت چار دانگ پھیل گئی، جب دشمن نے آدھی رات کو ایک بجے شب خون مارتے ہوئے کنج علی زئی کے علاقے پر لشکرکشی کی۔ علاقے سے کافی دور، کٹے اور پہاڑوں میں گھیرے دفاعی لائن (محاذ) پر سید بزرگوار کے ہمراہ صرف آٹھ نوخیز، کم عمر اور ناتجربہ کار نوجوان موجود تھے، چنانچہ سینکڑوں شرپسندوں پر مشتمل لشکر کی جانب سے اچانک کئے گئے راکٹ حملوں سے وہ موقع پر کچھ گھبرا کر پیچے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران سید نے صرف دو میگزینوں کے ساتھ تن تنہا دشمن کے لشکر کو نہ صرف پیچھے دھکیل دیا بلکہ طالبان نواز افغان قبائل کو کافی جانی اور مالی نقصان بھی پہنچا دیا۔ اس دوران سید پوزیشن بدل بدل کر فائرنگ کرتے رہے، تاکہ دشمن یہ سمجھ کر آگے بڑھنے اور گھیرا تنگ کرنے کی کوشش نہ کرے کہ مقابل کی تعداد کم ہے۔

اس واقعے کے بعد سید علاقے میں شجاعت و جرات مندی کی مثال بن گئے، جبکہ حیرت کی بات اس کی بہادری نہیں بلکہ اس کی انکساری اور عاجزی کی ہے۔ اس انوکھے واقعے اور علاقائی شہرت کے بعد بھی سید کی طبیعت میں ذرا برابر فخر و غرور محسوس نہیں ہوا۔ وہی عاجزی و انکساری، وہی خلوص، وہی چھوٹے اور بڑوں کے ساتھ ایک سا میل ملاپ۔ علاقے میں شاید ہی کوئی ہو، جو سردار ماما کے ساتھ لی گئی اپنی تصویر کو فخریہ انداز میں نہ دکھائے۔ اس کے مزاج کا ایک پہلو عرض کرتا چلوں۔ اپنوں میں لڑائی تو دور کی بات کوئی یہ دعویٰ تک نہیں کرسکتا کہ سید نے بلند آواز میں کسی سے بات کی ہو۔ چنانچہ وہ علامہ کے اس شعر کے صحیح مصداق تھے:
ہو خلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن


ہر میدان میں سید سابقین میں سے ہوتے تھے۔ چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا سماجی معاملات کا۔ قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی برسی ہو یا پھر یوم القدس کا جلوس۔ سید ہمیشہ دو دن پہلے جا کر انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے سکیورٹی ہیڈ کے فرائض سرانجام دیتے۔ ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ یوم القدس کے جلوس کے لئے سکیورٹی کی خاطر جب بعض مقامات پر آمد و رفت بند کی جاتی، اس دوران بعض اوقات اہلیان محلہ میں کچھ باہر آکر بدتمیزی کرتے تو ہم سید کو جا کر مطلع کرتے۔ جب وہ آجاتے تو نہایت پرلطف مگر رعب دار لہجے میں ان کے ساتھ بات کرتے تو ان کی آواز میں ایسی تاثیر ہوتی کہ سب اہل محلہ کی زبانوں کو تالے پڑ جاتے۔ چنانچہ شھید ہونے کے بعد یوم القدس کے شھداء و مظلومین نے خوب استقبال کیا ہوگا۔

سید نے جس طرح زندگی منفرد گزاری تھی، اسی طرح سید کی آخری رسومات بھی منفرد رہیں۔ اس سے پہلے کبھی کسی جنازے میں اتنا ہجوم اور جم غفیر نہیں دیکھا گیا ہے۔ مجلس سے لیکر نماز جنازہ تک ایک ایک کلپ گواہ ہے کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ہر کوئی اپنا بھائی یا بیٹا کھو بیٹھا ہے۔ ان کے جنازے کو جلوس کی شکل میں سینہ زنی کے ساتھ قبرستان تک لے جا کر سپرد خاک کیا گیا۔ اس دوران ہر آنکھ اشکبار تھی۔ فضا آہ و بکا سے معمور تھی۔ پھولوں سے سجا ہوا جنازہ اور اس کے پیچھے لوگوں کا مجمع کسی فاتح کی سواری کاُ منظر پیش کر رہا تھا۔ بقول شاعر:
ایک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر ۔۔۔ کسی فاتح کی سواری نکلے


گلہ نہیں کرسکتے کہ سید نے اتنی جلدی ملک الموت کو ہاں کیوں کر دی، کیونکہ وہ داد و ستد کے کھرے تھے۔ سید نے کبھی کسی بھی معاملے میں کسی کو نہ نہیں کی تھی۔ سو اپنے مزاج کے عین مطابق ادھر ملک الموت پیام اجل لایا، ادھر انہوں نے فوراً ہاں کر دی۔ مگر فلک پیر سے یہ گلہ ضرور کریں گے کہ:
ہاں اے فلک پیر! جواں تھا ابھی سید
کیا تیرا بگڑتا؟ جو نہ مرتا کوئی دن اور

پر ایک گلہ آپ سے بھی کریں گے سید!
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش 
کرنا تھا جواں مرگ! گزارا کوئی دن اور


خیال رہے کہ کنج علیزئی کی قومی کمیٹی کے روح رواں، بہترین عسکری ماہر اور کمانڈر سید سردار حسین یکم ستمبر 2021ء کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شھید ہوگئے۔ ڈیڑھ سال محاذ میں گزار کر 26 اگست کو محاذ ہی میں موجود پہاڑی پر قومی لکڑیاں کاٹنے کے بعد شہید انہیں ٹریکٹر کے ذریعے نیچے اتار رہے تھے کہ اس دوران ٹریکٹر کے بریکس فیل ہونے کے باعث ٹریکٹر الٹنے کے ساتھ خود بھی شدید زخمی ہوگئے۔ انہیں کمیٹی ممبران نے فوری طور پر پاراچنار اور اس کے بعد پشاور پہنچا دیا۔ تاہم مسلسل ایک ہفتے تک کومہ میں رہنے کے بعد 31 اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی شب داعی اجل کو لبیک کہہ کہ رخصت ہوگئے۔

سید ایک انتہائی مشکل اور خطرناک قومی فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ جس میں ہر وقت موت آنکھوں کے سامنے رقص کرتے دکھائی دیتی ہے۔ لہذا اپنی قوم و ملت کے دفاع اور نظریئے کی خاطر راستے کی مشکلات اور پرخطر نتائج کو جانتے ہوئے راستے کا انتخاب شہادت طلبی ہے اور اس کا اختتام شہادت ہے نہ کہ موت۔ سید بھی شھید ہوگئے۔ وہ عموماً بلکہ ہر وقت کلاشنکوف اپنے مضبوط کاندھوں میں لٹکا کر اپنے فرائض سر انجام دیتے۔ جب ہم راتوں کو خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے، یہ بزرگوار سڑکوں اور مورچوں کی گردش پر ہوتے۔ ہر میدان میں حاضر، ہر قومی مسئلے میں پیش پیش۔ اگرچہ شھید خاموش مزاج تھے، لیکن کبھی کبھی بات ہوتی تو کہتے کہ مسلسل دو دن ہوئے کہ نہیں سویا ہوں۔

سید شھید بہت مطیع تھے۔ کسی بھی قومی فیصلے پر دوسروں کی طرح چون و چرا تو دور کی بات اعتراض تک گوارا نہ کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ لوئر کرم میں مجھے شور کی کا علاقہ واپس لینے کا واقعہ سنا رہے تھے تو میں نے کئی بار بگڑ کر اعتراض کیا کہ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا، ویسا کیوں نہیں کیا، تو وہ یہی کہتے تھے کہ مشران نے کہا تھا۔ مزید ہمارے ہاتھوں میں اتنا زور قلم نہیں کہ ان جیسی شخصیات کی زندگیوں کا احاطہ کرکے کاغذ پر رقم کرسکیں۔ اہل خانہ سے صرف اتنا کہونگا کہ:
اہل خانہ نہیں، متاع شہر تھے وہ
شہر والوں کو جا کے پرسہ دو
خبر کا کوڈ : 955972
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

shakeel huss
Pakistan
bahot bahtreen lika ha. awr achee tarjomani ki ha.
ہماری پیشکش