QR CodeQR Code

اربعین اور زائرین

30 Sep 2021 23:23

اسلام ٹائمز: دنیا بھر کی طرح پاکستان سے بھی لاکھوں لوگ اسلامی مہینے صفر المظفر میں اربعین سیدالشہداءؑ کے موقع پر عراق کے مقدس شہر کربلاء معلیٰ کا رخ کرتے ہیں۔ اس سفر کی ایک الگ ہی کیفیت ہوتی ہے۔ کربلاء کی زیارت کرنیوالے کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ جس نے اسے نہیں دیکھا وہ ایک بار تمناء کرتا ہے کہ وہ کربلاء کو دیکھے اور جس نے ایک بار کربلاء کی سرزمین اور حرم امام حسینؑ کا دیدار کرلیا، وہ بار بار اسکی آرزو کرتا ہے اور اس مقدس اور پرنور مقام سے دور نہیں رہ سکتا۔ گویا اس سفر کی ہر یاد ذہن میں یوں نقش ہوتی ہے کہ ہر سال صفر المظفر کے ان ایام میں وہ یادیں بار بار آتی ہیں اور کربلاء کی سرزمین میں گزارے گئے لمحوں کا احساس دلاتی ہیں۔ اسی لئے لوگ اسے "سفر عشق" کا نام دیتے ہیں۔


تحریر: اعجاز علی

عالمی وباء کے پھیلاؤ سے پہلے زائرین کربلاء کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھ رہی تھی۔ دہشتگرد تنطیم داعش نے اسے روکنے کے لئے دھمکی دی، تو اس کا اثر الٹا ہوا اور زائرین کے لئے بارڈرز کھول دیئے گئے، جس سے تعداد اور زیادہ ہوئی۔ بعض محققین کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے پرامن انسانی اجتماع کا عالمی ریکارڈ بھی اربعین کے موقع پر قائم ہوا۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ہر سال کروڑوں افراد نجف سے کربلاء تک پیدل واک میں شمولیت کے لئے عراق کی سرزمین میں داخل ہوتے تھے۔ یہ تو وہ تعداد ہے جو عراقی حکومت کے ریکارڈ میں قانونی طور پر موجود ہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے افراد اس عظیم اجتماع کا حصہ رہ چکے ہیں۔

اربعین کے موقع پر کربلاء جانے والے زائرین کی اچھی خاصی تعداد ہوائی جہاز کے ذریعے مختلف کاروان اور علماء کے ہمراہ زیارات کے لئے جاتی تھی اور اس سے بھی زیادہ لوگ بسوں کے ذریعے کربلاء کا سفر طے کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں سندھ، پنجاب اور گلگت بلتستان کے لوگ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا رخ کرتے تھے اور ایران میں داخل ہونے سے پہلے کوئٹہ میں دو دن سے ایک ہفتے تک قیام کیا کرتے تھے۔ بعض زائرین کے بقول اس قیام نے کوئٹہ کو "باب الکربلاء" کا خطاب بھی دے دیا تھا۔ مسافرت بذات خود ایک تکلیف دہ عمل ہے، مگر جب منزل کربلاء ہو تو اس سفر میں ملنے والی تکلیفیں بھی اپنے اندر ایک انوکھا لطف رکھتی ہیں۔

زائرین کربلاء کوئٹہ آتے تو یہاں کے دو علاقوں علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں قیام کیا کرتے تھے۔ پہلے پہل تو ان کے قیام کا خاص بندوبست نہیں تھا، بعد ازاں جب لوگوں کو خبر ہوئی کہ زائرین بڑی تعداد میں کوئٹہ آتے ہیں تو مختلف امامبارگاہوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے گئے اور ان کے قیام کا بندوبست کر دیا گیا۔ مقامی لوگوں نے بھی زائرین کے غسل اور بعض دیگر عمومی ضروریات کے لئے اپنے گھر کے دروازے زائرین کربلاء کی خاطر کھول دیئے، اگر علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن کی آبادی کو مدنظر رکھا جائے تو ایسے افراد کی تعداد بہت کم تھی مگر ان کا عمل دوسروں کے لئے بارش کے پہلے قطرے کا کردار ادا کر رہا تھا۔

علمدار روڈ پر واقع ایک میدان کو زائرین کربلاء کی بسوں کے لئے مخصوص کر دیا گیا تھا، جس کے قریب سبیلیں لگائی گئی تھیں، جو چوبیس گھنٹے فعال ہوتی تھیں۔ زائرین کا قافلہ کبھی دوپہر کے تین بجے پہنچتا تو کبھی آدھی رات کو، گویا کوئی وقت مقرر نہ تھا، زائرین کبھی بھی کوئٹہ پہنچ جاتے تھے، اسی لئے ہمہ وقت سبیل کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسی میدان کے قریب ایک شادی ہال بھی موجود ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں زائرین کے لئے کھانے کا انتظام ہوا کرتا تھا۔ بعض محنت کش رکشے والوں نے اپنے رکشوں کے پیچھے پلے کارڈ اویزاں کر دیا تھا، جس پر لکھا ہوتا کہ زائرین کربلاء سے کرایہ نہیں لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں نے اپنے ہنر کو مدنظر رکھتے ہوئے زائرین کے لئے کیمپس لگائے تھے۔ ان میں جوتوں کی مرمت کرنے والوں سمیت دیگر افراد موجود تھے۔ زائرین کے لئے میڈیکل کیمپس بھی لگے تھے، جہاں انہیں طبی سہولیات بھی فراہم ہوتی تھی اور ادویات بھی۔

دوسری جانب چونکہ بلوچستان کی سرحدیں ایران سے جڑی ہیں، اسی لئے کربلاء کی سمت سفر کرنے والے زائرین کی سب سے بڑی تعداد صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ کی ہی ہوتی تھی۔ گویا کچھ لوگ اس شہر میں ایسے تھے، جو ہر سال اربعین کے موقع پر کربلاء میں ہوتے تھے۔ زندگی کے دیگر امور کی طرح اربعین کربلاء کی سرزمین میں گزارنا ان لوگوں کے وجود کا حصہ بن گیا تھا۔ فقط کوئٹہ سے ہی ہزاروں لوگ سینکڑوں بسوں پر قافلوں کی صورت میں سفر عشق کی جانب روانہ ہوتے تھے۔ ان زائرین کربلاء کو سینکڑوں دھمکیاں بھی ملیں اور حملے بھی ہوئے، مگر ان کے دلوں میں اس قدر خوف حاوی نہ ہوسکا کہ انہیں سفر عشق سے روک سکے۔

2019ء کے آخر میں پھیلنے والی وباء کورونا وائرس میں اتنی قوت تو نہ تھی کہ سفر عشق کا راستہ روک سکے، مگر اس نے کوئٹہ شہر کے مناظر ہی بدل دیئے۔ اول تو جن لوگوں نے مسلسل کئی سال کربلاء میں اربعین گزارے، ان کے لئے کوئٹہ میں یہ ایام گزارنا بے حد دشوار تھا۔ کورونا وائرس جیسی وباء بھی سفر عشق کا سلسلہ تو نہ روک سکی، البتہ لاکھوں زائرین سفر کی اس سعادت سے محروم رہے۔ اس سال بھی اربعین کے موقع پر زائرین کو کربلاء آنے کی اجازت تو ملی، مگر ان زائرین میں کوئٹہ سے بسوں پر نکلنے والے قافلے شامل نہیں تھے۔ چہلم کا منظر یکسر مختلف تھا، گویا کوئی تیار ہی نہیں تھا کہ اربعین کربلاء کے علاوہ کسی اور سرزمین میں گزارے۔


خبر کا کوڈ: 956587

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/956587/اربعین-اور-زائرین

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org