QR CodeQR Code

عمران خان، مہاتیر اور اردوگان ابھرتی اسلامی شخصیات ہیں

مسلمانوں کے حقوق کی جنگ میں مسلم ممالک کی رینکنگ(1)

کونسا مسلم ملک یا شخصیت عالم اسلام کی سربراہی اور کمان کی اہلیت رکھتا ہے؟

16 Oct 2021 17:58

اسلام ٹائمز: اردوگان کے علاوہ ملائیشیاء کے سابق صدر مہاتیر محمد نیز عمران خان صاحب کی شخصیت بھی محور خاص بنی ہوئی ہے۔ خصوصاً اقوام متحدہ میں خان کی فی البدیہہ تقریر دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہی، جو کہ یقیناً قابل ستائش تھی۔ جس میں انہوں نے مسلم امہ کی ترجمانی کی تھی۔


تحریر: ایس این حسینی

الیکٹرانک اور بالخصوص سوشل میڈیا پر عام لوگ خصوصاً پاکستانی عوام ترکی اور اس کے صدر طیب اردگان صاحب سے کافی امیدیں لگائے پیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ آئندہ کے خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے ان سے امیدیں رکھی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ملائیشیاء کے سابق صدر مہاتیر محمد نیز عمران خان صاحب کی شخصیت بھی محور خاص بنی ہوئی ہے۔ خصوصاً اقوام متحدہ میں خان کی فی البدیہہ تقریر دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہی، جو کہ یقیناً قابل ستائش تھی۔ جس میں انہوں نے مسلم امت کی ترجمانی کی تھی۔ تاہم زیر غور مضمون میں ہم اپنی معلومات کی بنیاد پر مسلم ممالک کی نمبرنگ اور رینکنگ کرنے کی کچھ اس طرح کوشش کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے میں کس ملک کی رینک کس نمبر پر ہے۔ یہاں ہم پوری اسلامی دنیا کا زمام ہاتھ میں رکھنے کے خواہشمند مسلم ممالک سعودی عرب، مصر، لیبیا، پاکستان، ایران، ترکی، ملائیشیاء، قطر اور عرب امارات کا بالترتیب تجزیہ پیش کرتے ہیں اور ابتداء کرتے ہیں، جغرافیائی لحاظ سے سب سے اہم ملک سعودی عرب سے، جس کے جغرافیے نے اسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔

سعودی عرب:
حرمین شریفین کی وجہ سے مسلمان سعودی عرب کو بہت بلکہ سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جبکہ یہاں کے حکمران شاہان حرمین شریفین کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو خادم الحرمین قرار دیتے ہیں۔ او آئی سی کا مرکزی دفتر رکھنے کیوجہ سے بھی مسلم ممالک کے حقوق کا بیشتر انحصار اسی ملک پر ہے۔ تاہم مسلمانوں کی امیدوں کا محور سعودی عرب اس وقت بنا، جب اس کے مرحوم آنجہانی بادشاہ شاہ فیصل نے 1974ء میں پاکستان میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں بعض دیگر مسلم حکمرانوں کے ساتھ ملکر مسلم امت کی وحدت و یگانگت اور اتحاد کا نعرہ بلند کیا۔ اس اجلاس کے دوران شاہ فیصل امت مسلمہ کو متحد کرنے والوں کے صف اول میں شریک تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور لیبیا کے کرنل معمر قذافی بھی تھے۔

اس مسلم مثلث نے پہلی مرتبہ تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بات کرکے مغربی دنیا کو دن میں تارے دکھا دیئے۔ تاہم انکا یہ منصوبہ امریکی حکومت کے ہاتھوں درہم برہم ہوگیا اور بہت جلد شاہ فیصل کو اپنے بھتیجے کے ہاتھوں قتل کروا دیا گیا اور سعودی عرب سے اٹھنے والی امت مسلمہ کے اتحاد کی ایسی آواز کو دبا کر ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک شاہ آتا رہا۔ خوف کے باعث امریکہ کی غلامی میں ایک سے بڑھ کر ایک نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد سعودی رسم و آئین کے مطابق جب شیخ سلمان بن عبد العزیز بادشاہ جبکہ مقرن اور کچھ ہی عرصہ بعد محمد بن نائف اسکا نائب (ولی عہد) مقرر ہوا تو کچھ ہی عرصہ بعد سعودی آئین کو پاؤں تلے روند کر شیخ سلمان نے محمد بن نائف کو معزول کرکے اس کی جگہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو کراؤن پرنس مقرر کر دیا اور یوں تقریباً صدی سے رائج سیاسی نظام کا دھڑن تختہ کر دیا۔

اس وقت بادشاہ سے کچھ زیادہ اختیار اس کے بیٹے محمد کو حاصل ہیں، جنہوں نے شیخ خاندان کے مذہبی اثر و رسوخ، وہابیت اور مذہبی شدت پسندی کو ختم کرکے سعودی عرب کو ایک سیکولر ملک میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ پہلے سے قائم خفیہ مراسم کو منظر عام پر لانے کے علاوہ اس میں مزید گرمجوشی لاگئی اور شمال مشرقی علاقے تبوک میں اسرائیل کو اڈے فراہم کئے۔ ہمسایہ اور دیگر اسلامی ممالک جیسے ترکی، عراق، یمن، ایران، افغانستان، لیبیا، شام، الجزائر اور مصر وغیرہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے وہاں خونی کھیل شروع کیا گیا، جبکہ او آئی سی کو مسلمانوں کے مسائل حل کروانے کے بجائے کھلم کھلا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

جنرل راحیل شریف کی کمان میں 42 ملکی اسلامی بلاک تشکیل دیا اور اس اتحاد کو اسرائیل کی بجائے اسلامی ممالک خصوصاً یمن کے خلاف استعمال کر دیا۔ ساڑھے پانچ سال تک یمن پر بمباری کرکے وہاں پر بے گناہ عوام، خصوصاً بچوں اور خواتین کا قتل عام کرنے کے علاوہ اس کا پورا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا، تاہم اس دوران معاشی لحاظ سے اپنا 800 ارب ڈالر پر مشتمل سرپلس خزانہ بھی اسلحہ اور جنگ کی مد میں امریکہ پر لٹا کر خالی کر دیا۔ بن سلمان نیز اس کے پیش رووں نے کبھی مسلمانوں کے حقوق کے لئے ایک پائی خرچ نہیں کی۔ فلسطین اور کشمیر پر مسلمانوں کے بجائے ہمیشہ غاصبین (یہود و ہنود) کی تائید کی۔ اس کے باوجود سادہ لوح مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کے دلوں میں اب بھی سعودی عرب کے لئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔

مصر: 
60 کی دہائی، خصوصاً جمال عبد الناصر الحسین کے دور حکومت میں عالم اسلام کی امیدوں کا محور مصر رہا۔ جمال عبد الناصر اپنے زمانے کی ایک ابھرتی شخصیت سمجھی جاتی تھی۔ ان کے عروج اور شہرت کا ڈنکا اس وقت بجنے لگا، جب انہوں نے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف اسلامی محاذ تشکیل دیا، 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں انہوں نے اسرائیل کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ کی کمان کی۔ اگرچہ منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اسرائیل کو انٹیلی جنس سطح پر معلومات حاصل ہوئیں۔ یوں اس نے مصر کے ہوائی اڈے پر بمباری کرکے مصر اور دیگر اتحادی اسلامی ممالک کے جیٹ بمبار طیاروں کے پورے سکواڈ کو کارروائی سے پہلے ہی نابود کر دیا۔ تاہم اس وقت جمال عبد الناصر کے علاوہ اسلامی دنیا میں اسرائیل کے مقابلے کی کوئی شخصیت نہ ہونے کی وجہ سے مصر اور اس کا سربراہ ہی گویا مسلمانوں کا روحانی پیشوا رہا۔

1970ء میں جمال عبد الناصر کے انتقال کے بعد زمام اقتدار اس کے نائب انور السادات کے ہاتھ لگ گیا، انہوں نے ابتداء میں کسی حد تک استقلال دکھایا، تاہم 1973ء میں اسرائیل کے خلاف حافظ الاسد کے ساتھ مشترکہ آپریشن کے دوران شکست کھانے اور اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ کرنے کے بعد انہوں نے امریکی اور اسرائیلی غلامی کے عالمی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اکتوبر1981ء میں خالد اسلام بولی کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد، زمام اقتدار حسنی مبارک کے ہاتھ لگا تو اس نے امریکہ اور اسرائیل کی غلامی میں اپنے پیشرو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ عرب بہار 2011ء میں عوامی انقلاب کے نتیجے میں حسنی مبارک اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد طنطاوی اور ایک سال بعد آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں الاخوان کے سربراہ محمد مرسی صدر مملکت مقرر ہوئے۔ جن سے مسلم امت کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، تاہم پورے ایک سال بعد مرسی بھی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اقتدار پر ایک سال تک عدلی منصور جبکہ اس کے بعد تاحال عبد الفتاح السیسی براجماں ہے۔ جو خود بھی اپنے پیشرووں کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ اپنے دور اقتدار میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کی متعدد لڑائیوں کے دوران انہوں نے اسرائیلی موقف ہی کو تقویت پہنچائی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کا محاصرہ کرنے میں انہوں نے بھی اسرائیل کی کمک کرتے ہوئے اپنی سرحد بند کرکے فلسطین (غزہ) کا حقہ پانی بند کر دیا۔ جس کی وجہ سے فلسطینی کاز کو بہت نقصان پہنچا۔ فلسطین کے بجائے اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے مصر امریکہ اور اسرائیل کے آنکھوں کا تارا ہے اور اس خدمت پر اسے مغرب کی جانب سے کافی امداد ملتی ہے تو یہ تھا، مسلم امہ کے حقوق کی جنگ میں جمہوریہ مصر اور اس کے حکمرانوں کا کردار۔

لیبیا:
1969ء میں لیبیا کے بادشاہ ادریس کو معزول کرکے کرنل قذافی نے نہایت کم عمری میں اقتدار سنبھال کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔  ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لیبیا نے اسلامی دنیا میں کافی شہرت حاصل کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 


خبر کا کوڈ: 959010

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/959010/مسلمانوں-کے-حقوق-کی-جنگ-میں-مسلم-ممالک-رینکنگ-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org