QR CodeQR Code

پاکستان کی نئی قیادت کا کیا ویژن ہے؟

مسلمانوں کے حقوق کی جنگ میں مسلم ممالک کی رینکنگ(2)

امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ایران کے ٹاکروں کا پس منظر

17 Oct 2021 09:03

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی کے بعد یہ مکمل طور پر اسلامی سانچے میں ڈھل گیا، امام خمینی کی قیادت میں یہاں کی حکومت نے ایران کی بیرونی اور اندرونی تمام تر پالیسی ہی بدل ڈالی۔ اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیئے، جبکہ امریکہ کیساتھ ٹکر لیتے ہوئے انکے 99 سفارتکاروں کو 444 دن تک یرغمال رکھا۔ جس پر انکے مابین سفارتی تعلقات ختم ہوگئے اور آج تک ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ ایران روز انقلاب ہی سے دنیا بھر کے مظلومین، محرومین اور مستضعفین کے ساتھ کھڑا ہے۔


تحریر: ایس این حسینی

لیبیا:
1969ء میں لیبیا کے بادشاہ ادریس کو معزول کرکے کرنل قذافی نے نہایت کم عمری میں اقتدار سنبھال کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لیبیا نے اسلامی دنیا میں کافی شہرت حاصل کی۔ خصوصاً 1974ء میں پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران تین اسلامی سربراہان شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو اور کرنل قذافی کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے۔ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں قذافی کو بھٹو کا متعمد خاص اور نہایت قریب سمجھا جاتا ہے۔ اس کانفرنس کے دوران ان تینوں کی تجویز پر تیل بطور ہتھیار کی قرارداد پیش ہوئی تو مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کو ناقابل برداشت صدمہ پہنچا۔ جس کے بعد امریکہ بہادر نے ان تینوں سربراہان کو یکے بعد دیگرے نشانہ بنایا۔ امریکہ کی جانب سے قذافی نیز اس کے دونوں بااعتماد دوستوں کے نشانہ بننے کے بعد اس کی سیاست میں تبدیلی آگئی۔ جس کے بعد وہ غیر مسلموں کی نسبت اپنوں کو نشانہ بنانے میں مصروف رہے۔ اس کے زمانہ اقتدار میں لیبیا ایک فعال ملک رہا۔ تاہم عرب بہار کے نتیجے میں ان کا اقتدار جب اختتام پذیر ہوا تو لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہو کر اپنی طاقت کھو بیٹھا۔

پاکستان:
عالم اسلام کے تمام ممالک کے برخلاف پاکستان کا وجود اور بنیاد ہی اسلامی نظریئے پر رکھی گئی ہے۔ تاہم پاکستان نے لیاقت علی خان کی سربراہی میں اپنے ابتدائی ایام ہی میں اس وقت قائم مشرقی اور مغربی بلاکوں روس اور امریکہ میں سے مفاد پرست اور منافق ملک امریکہ کا انتخاب کیا۔ امریکہ نے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے ہمیشہ اسے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا۔ چنانچہ پاکستان کے اکثر حکمرانوں نے امریکہ کے ساتھ دوستی کے بجائے اس کی غلامی کی۔ تاہم ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، کے مصداق 70 کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ابتدائی ایام ہی میں پاکستان کو زمین سے آسمان پر پہنچانے کا عزم ظاہر کیا۔ ملک کے لئے ان کے دو کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کا سہرا بھٹو ہی کے سر جاتا ہے، جبکہ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان میں ہونے والے دوسرے سربراہی اجلاس کی کامیاب میزبانی اور پالیسی ہے۔ جس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان دونوں کارناموں ہی کے عوض انہیں 1977ء میں اقتدار سے علیحدگی اور کچھ ہی عرصہ بعد پھانسی کی سزا مل گئی۔ اس کے بعد ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو امریکہ کے اشارے پر افغانستان جنگ میں شریک ہوا۔ اس دوران انہوں نے امریکہ سے مالی فوائد بھی حاصل کئے۔ تاہم افغان جنگ ختم ہوتے ہی امریکہ نے منہ پھیر لیا، اس دوران امریکہ کو سٹنگر میزائل اور دیگر چند امور پر پاکستان سے کچھ خدشات اور تحفظات تھے۔ جس کی اندرونی کہانی کا پتہ تو نہیں، تاہم بقول بعض تجزیہ نگاروں کے 17 اگست 1988ء کو امریکہ نے اپنے ایک سفیر کی قربانی دیکر ضیاء الحق سمیت پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کو اڑا کر رکھ دیا۔

اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی حکمران آئے اور چلے گئے۔ کسی میں بھی امریکہ کی مخالفت کی سکت نہیں دیکھی گئی۔ ضیاء الحق دور حکومت میں پاکستان امریکہ سے کچھ زیادہ سعودی عرب کے رہن میں چلا گیا۔ سعودی حکمت عملی کو شہہ مل گئی، نتیجتاً بنیاد پرستی، فرقہ واریت اور عسکریت پسندی پروان چڑھ گئی۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں ہزاروں مساجد اور امام بارگاہوں اور اس میں موجود عبادت گزاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ کاروبار نیز کرنسی بہت متاثر ہوئی۔ تا آنکہ اس مرتبہ کرکٹ کھلاڑی عمران خان نیازی صاحب نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اپنے سابقین کی پالیسی سے کچھ ہٹ کر کافی حد تک آزادانہ حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ انہوں نے ملک کو امریکہ کے تصرف سے کافی حد تک باہر نکالا۔ خان اپنے ابتدائی ایام ہی سے دنیا بھر کے عوام خصوصاً میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

خاص طور پر اقوام متحدہ میں فی البدیہہ تقریر نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جس میں انہوں نے مسلم امت کے مسائل کو اجاگر کیا۔ ان کی اس تقریر کو پوری اسلامی دنیا میں سراہا گیا۔ اس دوران نیویارک میں وہ میڈیا کی توجہ کا مرکز خاص رہے۔ میڈیا پر بھی خان نے اپنے موقف کا برملا اظہار کرکے دنیا کو اس وقت ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ جب انہوں نے ایران کے حوالے سے ایک خاص بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا واسطہ القاعدہ، داعش اور طالبان سے پڑ چکا ہے۔ مگر وہ یاد رکھے کہ جہاد کے معاملے میں شیعہ اہل سنت سے بہت سخت ہیں، چنانچہ وہ ان پر طالبان کا گمان نہ کریں اور یہ کہ ایران، شام اور لبنان کے حوالے سے امریکہ محتاط رہے۔ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں جرات و بہادری کے ریکارڈ قائم کئے ہیں، تاہم ایک بات ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے برخلاف آج بھی ہمارے حکمران سعودی اثر و رسوخ کے زیر اثر ہیں۔ سعودی رضامندی کے بغیر ہمارا ملک قدم تک نہیں رکھ سکتا۔ تسلی نہیں تو ہم تذکرہ کئے دیتے ہیں۔ 

ہمارے اسی دلیر اور بہادر وزیراعظم نے نیویارک میں اسلامی ممالک کے سربراہان کے ساتھ ملائیشیا جانے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ تاہم بعد میں سعودی عرب کے دباؤ میں آکر خان نے ملائیشیا کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور سعودی عرب کے دباو میں آکر ایران کے ساتھ کئے گئے گیس پائپ لائن معاہدے کو اسی طرح سرد خانے میں پڑا رہنے دیا۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے مخالف ممالک (شام، لبنان، یمن، اور ایران) کے مقابلے میں جناب عالی اسرائیل کے دوست ممالک (ترکی، سعودی عرب، آذربائیجان، امارات، قطر اور اردن) کے ساتھ مراسم بڑھانے پر تلا ہوا ہے۔ ہاں اس کی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ شاید معاشی مجبوری ہو۔ تاہم کچھ بھی ہو، عمران خان کو اسرائیل اور واضح اسلام دشمن قوتوں کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرنا ہوگا۔ تب ہی جا کر وہ پاکستان ہی کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا ہیرو بن سکتا ہے۔

ایران: 
 اسلامی جمہوریہ ایران بھی عالم اسلام کی قیادت کے خواہشمند ممالک کی صف میں شامل ہے، بلکہ تہران کے بڑے بڑے کتب خانوں اور اہم مقامات پر علامہ اقبال کا یہ شعر سجا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
 تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

ایران 1979ء یعنی اسلامی انقلاب سے پہلے پرلے درجے کا امریکی پٹھو، غلام اور اسرائیل کا قریبی دوست تھا۔ مگر انقلاب اسلامی کے بعد یہ مکمل طور پر اسلامی سانچے میں ڈھل گیا۔ امام خمینی کی قیادت میں یہاں کی حکومت نے ایران کی بیرونی اور اندرونی تمام تر پالیسی ہی بدل ڈالی۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیئے، جبکہ امریکہ کے ساتھ ٹکر لیتے ہوئے ان کے 99 سفارتکاروں کو 444 دن تک یرغمال رکھا۔ جس پر ان کے مابین سفارتی تعلقات ختم ہوگئے اور آج تک ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ ایران روز انقلاب ہی سے دنیا بھر کے مظلومین، محرومین اور مستضعفین کے ساتھ کھڑا ہے۔ بوسنیا کے مظلوم مسلمان ہوں یا فلسطین کے پسے ہوئے مظلوم اور مغصوب مسلمان۔ امریکی جارحیت کے شکار وینزوویلا کے عوام ہوں یا کشمیر اور فلپائن کے ستم زدہ مسلمان۔

امریکہ، اسرائیل اور داعش کے ہاتھوں کٹ مرنے والے عراقی ہوں یا شامی۔ اسرائیل کے اشاروں پر مسلم ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے والے یمنی زیدی ہوں یا بحرینی شیعہ۔ عیسائیوں کے ہاتھوں کچلے جانے والے نائیجیریا کے سیاہ فام مسلمان ہوں یا جنوبی افریقہ کے سیاہ فام عیسائی اور ان کے رہنما نیلسن منڈیلا۔ ایران نے ہر مظلوم کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائی ہے۔ امام خمینی اور رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای کے حکم پر گذشتہ چار دہائیوں سے اسرائیل کے مظالم کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں یوم القدس کے نام سے دنیا بھر میں ہزاروں مقامات پر احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف آجکل بہت سی زبانیں کھل چکی ہیں۔ تاہم اس کا کریڈٹ ایران ہی کو جاتا ہے۔ جس نے اس وقت امریکہ کی مخالفت کی، جب امریکہ کا نام برے لفظوں کے ساتھ کوئی غلطی سے بھی نہیں لے سکتا تھا۔

امریکہ مردہ باد کا نعرہ پوری دنیا میں ایران ہی نے متعارف کرایا۔ فقط نعرہ ہی نہیں، امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ دو بدو لڑائیوں کی ابتداء بھی ایران کے علاوہ دنیا میں کسی مسلم یا غیر مسلم ملک نے نہیں کی۔ اسرائیل کے خلاف حماس اور حزب اللہ کی کارروائیوں کے علاوہ اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے کے بحری جہازوں پر حملے، ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر سائبر حملوں کی باتیں میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ امریکہ اور ایران کے آپس کے ٹاکروں کی بھی ایک لمبی داستان ہے۔ ایران نے نومبر 1979ء میں 99 امریکی سفارتکاروں کو یرغمال بنایا، 25 اپریل 1980ء کو صدر جمی کارٹر کے حکم پر یرغمالیوں کو چھڑوانے کے لیے خفیہ آپریشن کیا گیا، لیکن اس میں دو طیارے آپس میں ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں آپریشن میں حصہ لینے والے 8 امریکی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے، ان کا مشن ناکام ہوگیا۔ تاہم 444 دن کے بعد جنوری 1981ء میں ایران کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہیں رہائی مل گئی۔

اس کے بعد امریکہ نے صدام کو اکسا کر ایران پر 8 سالہ جنگ مسلط کروائی اور ایران کے خلاف عراق کی ہر طرح سے کمک کی۔ اسی طرح 1987ء میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرایا۔ امریکہ کو ڈائریکٹ یا پراکسیز کے توسط سے مختلف محاذوں پر جواب دیا گیا، جن میں سے ایک بیروت کے ایک ہوٹل میں ہونے والا خودکش دھماکہ ہے، جس میں امریکہ کے 300 سے زائد فوجی مارے گئے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں اس کے پیشرفتہ ترین ڈرونز میں سے کئی ایک کو گرایا جبکہ دو کو صحیح سلامت اتار کر اس کی نقل تیار کر لی۔ امریکہ نے عراق میں ایران کے اعلیٰ جرنیل قاسم سلیمانی کو قتل کیا تو تین یا چار روز بعد ایران نے عراق میں موجود امریکی اڈوں عین الاسد وغیرہ کو میزائل کا نشانہ بنایا۔ یہی نہیں بلکہ عراقی سرزمین کو ان پر تنگ کر دیا، جبکہ اسرائیل کے ساتھ تو ویسے بھی ایران مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ اسرائیل کو کچھ بھی ہو جاتا ہے تو وہ ایران کو قصوروار گردانتا ہے۔ دوسری جانب ایران میں کچھ ہو جاتا ہے تو وہ اسرائیل ہی کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

یہاں ایک مسئلے کی وضاحت کر دیں، ہم پاکستانی، ایران سے ہندوستان کے حوالے سے ہمیشہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ ایران کے تعلقات کیوں ہیں۔ حالانکہ یہ بات ٖدرست نہیں، کیونکہ بھارت کے ساتھ خود پاکستان کے بھی تعلقات قائم ہیں، جبکہ دوسری جانب یہی شکایت ایرانی بھی کرسکتے ہیں کہ ان کے ازلی دشمن (امریکہ و اسرائیل) جنکے ساتھ ایران کے تعلقات مکمل طور پر منقطع ہیں۔ ان (امریکہ) کے ساتھ پاکستان کے اچھے مراسم ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کی دشمنی اسرائیل کے ساتھ اپنے مفادات کی خاطر نہیں، بلکہ اسلام کے لئے یعنی بیت المقدس پر قبضے، فلسطینیوں پر ظلم کرنے اور انکی زمین غصب کرنے کی وجہ سے ہے، جبکہ پاکستان کے تعلقات ہندوستان کے ساتھ قطعہ زمین یعنی کشمیر پر ہیں، جبکہ ایران نے اس حوالے سے بھی ہمیشہ کشمیر کی حمایت میں بات کی ہے۔

بھارت کے ساتھ تعلقات ہونے کے باوجود وہ کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ پچھلے سال رہبر اعلیٰ کا کشمیر کے حوالے سے بیان قابل صد تحسین ہے۔ مگر میڈیا کے تعصب کی بھینٹ چڑھ کر رہبر اعلیٰ کے اتنے اہم بیان کو چھپایا گیا۔ چنانچہ عوام الناس کو رہبر اعلیٰ کے اس بیان کا شاید پتہ بھی نہ ہو۔ ایران چاہتا ہے کہ مسلم امت متحد ہو کر دنیا بھر میں اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑے۔ تاہم امریکہ اس کے مقابلے میں دوسرے مسلمان ملکوں کو متقابل کے طور پر پیش کرتا ہے اور مسلمانوں کی توجہ ایران سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 959106

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/959106/مسلمانوں-کے-حقوق-کی-جنگ-میں-مسلم-ممالک-رینکنگ-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org