QR CodeQR Code

پاکستان کیخلاف نئی سازش کا آغاز

17 Oct 2021 19:39

اسلام ٹائمز: پاکستان کو سعودی خوشنودی کی بجائے اپنے ملک کا مفاد دیکھنا ہوگا۔ پاکستان سعودی عرب سے تیل کی خریداری کم کرکے دیگر ممالک سے سستا تیل خریدے تو اس صورتحال کو قابو کیا جا سکتا ہے اور سعودی عرب کو بھی سبق سکھایا جا سکتا ہے، جو اسرائیلی مشوروں سے مسلم ممالک کی معیشت تباہ کرنے کے درپے ہے۔ اب پاکستان اگر ایران سے ہمت کرکے تیل کے سودے کر لے تو پاکستانی معیشت سنبھل سکتی ہے اور قوم مہنگائی کے عفریت سے بچ سکتی ہے۔


تحریر: تصور حسین شہزاد

لیجیئے صاحب وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ یعنی پاکستان کیخلاف نئی اور منظم سازش کا آغاز ہوگیا ہے۔ سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اسرائیل کے منصوبے کے مطابق سعودی عرب نے نئی پالیسی تشکیل دی ہے۔ سعودی عرب کی اپنی معیشت دن بہ دن کمزور ہو رہی ہے، جس کو سہارا دینے کیلئے اسرائیلی ماہرین کی تجاویز لی گئیں ہیں اور انہی تجاویز کے پیش نظر سعودی عرب نے تیل کی پیداوار کم کر دی ہے۔ پیداوار کم ہونے سے سپلائی کم ہوئی ہے اور سپلائی کی کمی سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ تیل کا ریٹ ایک سو چالیس ڈالر فی بیرل تک لے جائے۔ جس سے پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت چوراسی ڈالر فی بیرل ہے۔ چوراسی ڈالر سے اگر تیل ایک سو چالیس ڈالر پر جاتا ہے، تو پاکستان میں اس کا ریٹ کیا ہو جائے گا، یہ سوچ کر ہی جسم میں سرد لہر دوڑ جاتی ہے۔

اس حوالے سے معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس صورتحال کے خطرے کو بھانپ کر متبادل انتظام کر لیا تو ملکی معیشت بچ جائے گی، بصورت دیگر پیٹرول کی قیمتیں تین سو روپے لیٹر تک جا سکتی ہیں۔ یہ دعویٰ سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے بھی کیا ہے۔ سعید غنی کے بقول پیٹرول کی قیمت اڑھائی سو سے تین سو تک جا سکتی ہے۔ سعید غنی نے یہ سیاسی بیان نہیں دیا، بلکہ وہ اس سازش کا ادراک رکھتے ہوئے اُن حالات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں، جن کا راقم نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔ پاکستان کو آنے والے بُرے وقت کا سدباب کرنا ہوگا۔ پاکستان کو سعودی خوشنودی کی بجائے اپنے ملک کا مفاد دیکھنا ہوگا۔ پاکستان سعودی عرب سے تیل کی خریداری کم کرکے دیگر ممالک سے سستا تیل خریدے تو اس صورتحال کو قابو کیا جا سکتا ہے اور سعودی عرب کو بھی سبق سکھایا جا سکتا ہے، جو اسرائیلی مشوروں سے مسلم ممالک کی معیشت تباہ کرنے کے درپے ہے۔

اب پاکستان اگر ایران سے ہمت کرکے تیل کے سودے کر لے تو پاکستانی معیشت سنبھل سکتی ہے اور قوم مہنگائی کے عفریت سے بچ سکتی ہے۔ اگر امریکہ کی ایران پر اقتصادی پابندیاں پاکستان کو ایران سے تیل کی تجارت سے روکتی ہیں تو اس کا بھی حل ہے۔ ایرانی تیل چین خریدے (چین امریکی پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے) اور چین ایران سے ملنے والا تیل پاکستان کو فراہم کر دے۔ یوں امریکہ کا اعتراض بھی دم توڑ دے گا کہ ہم تو چین سے تیل خرید رہے ہیں۔ اس سے سعودی عرب بھی واپس پرانے نرخوں پر تیل دینے کیلئے تیار ہو جائے گا۔ حکومت کے ماہرین معاشیات یقیناً اس خطرناک صورتحال کو بھانپ چکے ہوں گے۔ دوسری سازش سیاسی بحران ہے۔ اس کی مثال ایک سزا یافتہ مجرمہ کے خطابات ہیں۔ مریم نواز اپنے جلسوں میں اب براہ راست آئی ایس آئی چیف کو ہدفِ تنقید بنا رہی ہیں۔ فیصل آباد میں ہونیوالے پی ڈی ایم کے جلسے میں "جنرل فیض استعفیٰ دو" جیسے نعرے لگوائے گئے۔ یہ نعرے مریم نواز اس وقت لگوا رہی ہیں، جب دو روز قبل امریکی ناظم الامور انجیلا پی ایگلر ان سے جاتی امراء میں ملاقات کرکے گئی ہیں۔

راقم نے پہلے کالم میں یہ عرض کیا تھا کہ امریکی ناظم الامور کی ملاقاتیں ایسے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد پاکستان میں سیاسی بحران پیدا کرنا ہے اور راقم کے خدشات سو فیصد درست ثابت ہوئے کہ مریم نواز اب کھل کر ادارے کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ادارے مقدس گائے نہیں ہوتے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ایرے غیرے کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اُٹھ کر اداروں کے اندرونی معاملات میں رائے زنی شروع کر دے۔ شریف فیملی آج تک ایک کیلیبری فونٹ قطری خط کے سوا کچھ پیش نہیں کرسکی اور مریم نواز جلسے میں کہہ رہی ہیں کہ ہم نے سات پشتوں کا حساب دیا ہے۔ مریم نواز جھوٹ بول کر عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں۔ یہ وہی مریم نواز ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اور پھر تاریخ کی بوڑھی آنکھوں نے وہ منظر دیکھے کہ ایک نہیں متعدد جائیدادیں نکل آئیں۔

مریم نواز پاکستان کے عوام کے بجائے امریکی مفادات کیلئے سرگرم ہیں۔ جلسے میں "جنرل فیض، استفعیٰ دو" کے نعرے امریکہ کی خواہش ہے، جسے جنرل فیض کا کابل میں کھڑے ہو کر چائے پینا برداشت نہیں ہوا اور پاکستان پر دباو ڈال کر انہیں تبدیل کروا دیا گیا ہے۔ مریم نواز کے میڈیا سیل کی جانب سے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں کہ "جنرل فیض استعفیٰ دو" یہ بھلا عوامی مطالبہ کیسے ہوسکتا ہے؟ عوام کا براہ راست آئی ایس آئی کے چیف سے نہ رابطہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ عوامی مفاد کے کوئی فیصلے کرتا ہے۔ اب نون لیگ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو مس یُوز کر رہی ہے۔ کیا کسی سیاسی جماعت کو یہ حق پہنچتا کہ وہ اس طرح کے نعرے لگوائے۔؟؟ عوام بیوقوف نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے "میوزیکل چیئر" کے سوا کوئی کھیل نہیں کھیلا، ایک کے بعد دوسرے کی باری، پہلے نواز پھر زرداری، کا کھیل ہوتا رہا، مگر عوام کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔

ترقیاتی منصوبے بھی وہ بنائے گئے، جن سے ان کا اپنا فائدہ تھا، عوام کیلئے کچھ نہیں بنایا گیا۔ شہباز شریف کو جب یقین ہوگیا کہ اب اقتدار ان کے ہاتھ نہیں آنا تو انہوں نے لاہور کو اورنج ٹرین جیسا سفید ہاتھی دیدیا، جو ملکی خزانہ کو کھا نہیں رہا بلکہ نگل رہا ہے اور اس کا سود الگ سے دینا پڑ رہا ہے۔ کئی برس اقتدار میں رہنے والے پی آئی اے، سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کو تو ٹھیک نہیں کرسکے، وہ ملک میں کیا بہتری لائیں گے۔ ان کی دوستیاں بھی ذاتی مفاد کیلئے ہوتی ہیں اور دشمنیاں بھی اپنے فائدے کیلئے۔ انہوں نے جب عوام سے ووٹ بٹورنے ہوتے ہیں تو دعوے کرتے ہیں کہ زرداری کو بھاٹی چوک میں گھسیٹوں گا اور اس کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا۔

اقتدار میں آکر اسی زرداری کو جاتی امراء ظہرانے پر بلا لیتے ہیں۔ ان کی درجنوں اقسام کے کھانوں سے تواضع کرتے ہیں، یہ ہے ان کی سیاست۔ اب پی ڈی ایم میں جو جو پارٹیاں جمع ہیں، وہ بقول فیاض چوہان کے "آل پاکستان لوٹ مار ایسوسی ایشن" ہے۔ ان ساروں کے دل میں عوام کا نہیں اپنے اقتدار کے کھو جانے کا درد ہے۔ جہاں ذرا سا ان کا ذاتی مفاد خطرے میں پڑتا ہے، یہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ تو عوام بھی ان سے آگاہ رہیں اور حکومت کو بھی پاک فوج اور حکومت کیخلاف نئی امریکی سازش کا ادراک کرتے ہوئے اس کا سدباب کرنا ہوگا۔ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کا امریکی منصوبہ ہے۔ امریکہ افغانستان کی شکست کا سبب پاکستان کو سمجھتا ہے اور اس کا بدلہ لینے کیلئے ہی پاکستان کو معاشی و سیاسی بحرانوں سے دوچار کر رہا ہے۔ لہذا مشتری ہوشیار باش۔


خبر کا کوڈ: 959192

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/959192/پاکستان-کیخلاف-نئی-سازش-کا-ا-غاز

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org