0
Saturday 23 Oct 2021 09:20
ہفتہ وحدت

امام خمینی نے امت مسلمہ کے درمیان میلاد النبی(ص) کے حوالے سے موجود اختلاف کو وحدت میں بدل ڈالا ہے، سید حسن نصراللہ

امام خمینی نے امت مسلمہ کے درمیان میلاد النبی(ص) کے حوالے سے موجود اختلاف کو وحدت میں بدل ڈالا ہے، سید حسن نصراللہ
اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے جمعے کی شام میلاد حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر ہفتہ وحدت (12 تا 17 ربیع الاول) کے حوالے سے بیروت کے علاقے ضاحیہ میں واقع "کربلاء" اسکوائر پر منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کیا ہے۔ سید مقاومت نے اپنے خطاب کے آغاز میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ (ص) کے عظیم نواسے حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام کے یوم ولادت اور اس حوالے سے منائے جانے والے ہفتہ وحدت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی(رح) نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یوم ولادت کے حوالے سے امت مسلمہ کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے جلنے اور وحدت کے مرکز میں تبدیل کر دیا جیسا کہ انہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد، وحدت اسلامی کا پرچم لہراتے ہوئے، 12 تا 17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت اسلامی کے عنوان سے متعارف کروایا۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے انسانی نکتۂ نظر میں لائی جانے والی تبدیلی کو حضرت رسول اکرم (ص) کی ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ (ص) قبل از اسلام سے موجود اقداروں کو کمزور کرنے اور اسلامی نظام کو اجراء کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے جبکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فتح، دراصل وہ تبدیلی ہے جو آپ (ص) نے "انسان" کے اندر پیدا کی؛ ایک ایمانی و بشری کامیابی، کیونکہ انسان ہی پوری خلقت کا ہدف اور ایک بنیادی عامل ہے!

سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف عورت کی جانب ڈالی جانے والی تحقیر آمیز نگاہ کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اس (عورت) کے مقام کو عظمتوں تک پہنچانے کے لئے قرآن اور اپنا قول و عمل (سنت) لائے بلکہ انہوں نے معاشرے کے اندر ایسا امن و استحکام رائج کیا جسے کوئی فوج یا پولیس رائج نہیں کر سکتی، ایک ایسا امن و سکون جو ذہنوں، دلوں اور جانوں کے اندر سے نکل کر باہر آتا ہے جس کا سرچشمہ تہذیب (اسلامی) اور تقوی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انسان کو روئے زمین پر موجود ہر دوسرے انسان کے حوالے سے ذمہ دار قرار دینے کے لئے ایک الگ تہذیب لے کر آئے تھے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جو انسان؛ اپنے ملک، اپنی قوم، اپنی سرزمین، مٹی اور عوام کے عزت و وقار کو خطرے میں ڈالے، وہ حتما ذمہ دار قرار پائے گا اور یہ وہی چیز ہے جس پر محمد رسول اللہ(ص) کا دین تاکید کرتا ہے!

سید مقاومت نے اپنے خطاب میں مظلوم فلسطینی قوم کے دکھ و درد کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ فلسطین کے اندر ایک مظلوم قوم رہتی ہے جسے اذیت و آزار اور شدید معیشتی محاصرے سمیت بے حال کر دینے والے بحرانوں سے بھی دوچار کیا گیا ہے کہ جن میں سے ایک اسیروں اور ملک کے اندر و باہر موجود بے گھر افراد کا مسئلہ ہے۔ سربراہ حزب اللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وہاں (فلسطین میں) مقبوضہ سرزمین اور توہین کئے گئے مسلم و مسیحی مقدس مقامات بھی موجود ہیں! انہوں نے کہا کہ کوئی بھی عقل، احساس و فطرت کا حامل آزاد انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ "اس مسئلے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں" چہ جائیکہ یہ فرد مسلمان بھی ہو! یہ مسئلہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مصداق ہرگز نہیں اور نہ ہی اس مسئلے میں غیر جانبداری کا اظہار کیا جا سکتا ہے! انہوں نے تاکید کی کہ آج فلسطین میں پائیدار رہنے کا اہم ترین طریقہ "مالی حمایت" ہے لہذا جو شخص بھی یہ کام  انجام دے سکتا ہو تو (فلسطینیوں کی) مالی حمایت کرے! اور اگر کوئی شخص انہیں مال و اسلحہ فراہم نہیں کر سکتا تو اسے چاہئے کہ وہ موقف کے ذریعے ان کی پشت پناہی کرے نہ یہ کہ عرب ممالک کے مانند بیہودہ بہانوں کے ذریعے ان (فلسطینیوں) کی کمر میں چھرا گھونپ دے!

سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کی کہ آج جو اہم ترین جدوجہد انجام دی جانی چاہئے اور جو انفرادی طور پر انجام بھی دی جاتی ہے اور ہم سب اسے انجام دینے کی توانائی بھی رکھتے ہیں؛ (مسئلۂ فلسطین کی حمایت پر مبنی) موقف و نکتۂ نظر کا اظہار اور (اسرائیل کے خلاف) پابندی پر عملدرآمد ہے!

سید مقاومت نے عراقی شہر اربیل میں منعقد ہونے والی صیہونی کانفرنس کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ عراقی حکومتی و عدالتی موقف نے عراق کے اندر وجود میں آنے والی فتنے کی آگ کو پہلے ہی روز ٹھنڈا کر دیا درحالیکہ اگر اربیل میں منعقد ہونے والی (صیہونی) کانفرنس دینی، قومی و حکومتی ردعمل کے ساتھ روبرو نہ ہوتی تو آج کی صورتحال حتمی طور پر مختلف ہوتی!

سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب کے دوران یمن میں ہونے والے عوامی مظاہروں کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ حالیہ ایام میں ہم یمنی عوام کی جانب سے منعقد کی جانے والی عظیم ریلیوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ان (ریلیوں) کے پیچھے کارفرما قومی ارادے کا احترام بجا لائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ یمنی قوم ہی تھی جو دسیوں لاکھ کی تعداد میں اپنے رہبر کے پرچم تلے جمع ہوئی جبکہ اس ایمانی و جہادی تحریک کے نتیجے میں سلامتی کونسل سمیت پوری دنیا کی جانب سے "مظلوم" کی مذمت کے بجائے امریکہ، سعودیوں اور یمن کے خلاف جنگ مسلط کرنے والے جارح ممالک کی مذمت کی جانا چاہئے تھی!

سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ (ص) کے مبارک نام کا دفاع، واجبات سے بھی بڑھ کر ضروری ہے، کہا کہ تمام مسلمان، مسلم علماء، ممتاز مسلم شخصیات اور مسلم تحریکوں کو چاہئے کہ وہ داعش کے وحشی، دہشتگرد اور قاتل گروہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں کہ جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کی، بعثت سے لے کر آج تک، بدترین بگڑی ہوئی تصویر دنیا کو دکھائی ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ہفتۂ وحدت کے حوالے سے امام خمینی (رح) کے انیشی ایٹو پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ وحدت اسلامی جس کے بارے امام خمینی (رح) نے گفتگو کی ہے، "ترکیبی وحدت" کے معنی میں ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد باہمی تعاون، قربت و "تعاونوا علی البر و التقوی" کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی اور "لا تنازعوا فتفشلوا" کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے و تنازعے سے اجتناب ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آ کر ایک واحد جسم کے مانند بن جائیں جبکہ ہر ایک جسم کی اپنی ہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی مزاحمتی محاذ اس قسم کی قربت اور باہمی تعاون کی مدد سے فتحیاب ہوا ہے جبکہ فلسطینی مزاحمتی محاذ بھی جس وقت فلسطین کے اندر اور باہر وجود میں آنے والی وحدت کے ہمراہ، شیعہ و سنی پر مشتمل متحدہ مزاحمتی محاذ تک پہنچ جائے گا تو فتحیاب ہو جائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جب شیعہ و سنی نے مل کر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ جدوجہد کی تو داعش پر فتحیاب ہو گئے جبکہ ہمارے ان دشمنوں کی، جو اس خطے میں ہمارے اوپر مسلط ہونا چاہتے ہیں؛ یہ دلی خواہش ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں کود پڑیں!

سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آخر میں، سرحدوں کے تعین کی خاطر غاصب صیہونی رژیم و لبنان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس مذاکراتی عمل کے بارے اپنی رائے نہیں دینا چاہتے تاہم آج کی شام جو چیز میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اسرائیلی دشمن نے گذشتہ کچھ عرصے سے تیل ڈھونڈنے والی اپنی ایک کمپنی کو ہمارے متنازعہ علاقے میں تعینات کر رکھا ہے جبکہ ہم (حکومت کی جانب سے) مناسب موقف کے اختیار کئے جانے کے منتظر ہیں اور تمام اطلاعات و اعداد و شمار کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ اج کی شام میں بالکل ویسے ہی واضح و صریح انداز میں کہتا ہوں، جیسا کہ میں نے سوموار کے روز بھی کہا تھا کہ مزاحمتی محاذ کی طاقت، اسرائیلی لالچ کے مقابلے میں لبنانی تیل و گیس کے دفاع کے لئے مکمل طور پر تیار ہو چکی ہے! سید مقاومت نے اپنے خطاب کے آخر میں متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر دشمن یہ سوچتا ہے کہ وہ متنازعہ علاقوں کا مسئلہ حل ہونے سے قبل ہر کام انجام دے سکتا ہے، تو وہ جان لے کہ وہ بڑی غلطی پر ہے! البتہ اس وقت ہم مذاکرات کو پیچیدہ کر دینے والے کسی موقف کا اظہار نہیں کرنا چاہتے،
والسلام۔
خبر کا کوڈ : 960066
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش