0
Thursday 28 Oct 2021 13:36

پاکستان کو غیر معذرت خواہانہ طریقے سے دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ پیش کرنے کی ضرورت ہے، معید یوسف

پاکستان کو غیر معذرت خواہانہ طریقے سے دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ پیش کرنے کی ضرورت ہے، معید یوسف
اسلام ٹائمز۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کو غیر معذرت خواہانہ انداز سے اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں قومی بیانیے سے متعلق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بیانیے سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا خاکہ 3 الفاظ میں پیش کیا، فعال غیر معذرت خواہانہ اورحقیقت پسندانہ۔ ان کا کہنا تھا کہ ورچوئلی ہم جب بھی رابطہ کریں یہ 3 اصول ہمیں ہر اس جگہ لے جا سکتے ہیں جہاں ہم جانا چاہیں، پاکستان کے لیے شرمانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے پاس کچھ چھپانے کے لیے نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پاکستان سے متعلق مغربی بیانیے کو اس حد تک جذب کر لیا ہے کہ اندرونی طور پر بھی یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا پاکستان کا بیانیہ درست ہے؟ مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ یہ ان کے لیے سر چکرانے والی صورتحال ہے کیوں کہ ان کے مطابق پاکستان کے پاس یہ بتانے کے لیے ایک حقیقی کہانی تھی کہ ملک کیا کر رہا تھا اور کس کے لیے کھڑا تھا اور اس کے لیے معذرت خواہانہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اصل میں ایک کہانی ہے جو قابل یقین، منطقی اور سچی ہے، جسے ہمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ ہم کون ہیں اور ہم کس کے لیے کھڑے ہیں۔

ان مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہ جو انہوں نے شناخت کیے معید یوسف کا کہنا تھا کہ سب سے اہم چیز جس نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا اور اب بھی کرتی ہے وہ پاکستان میں رابطے کے طریقوں میں۔ مقامی سے زیادہ عالمی، غیر معذرت خواہانہ طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں شرمانے کا عنصر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب پاکستان کے پاس سنانے کو کہانی ہے اور جانتا تھا کہ اسے کیسے بتانا ہے تو پھر جذباتی نہیں بلکہ زیادہ غیر معذرت خواہانہ طور پر، یہ بات چیت کیوں نہیں کی گئی کہ واضح کیا جائے کہ پاکستان فلاں فلاں کام کرنے جا رہا ہے کیونکہ یہ ہمارے اسٹریٹجک مفادات میں ہے۔ دیگر مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان جدید پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تیز رفتار اسٹریٹجک مواصلات میں دوسرے ممالک سے پیچھے تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی حد تک شاید آج بھی تعلقات عامہ کی ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ پریس ریلیز اور چیزوں کا اپنے وقت پر جواب دینا۔ معید یوسف کے مطابق ایک اور مسئلہ اپنی زبان دوسروں سے بولنا اور دوسروں سے اسے سمجھنے کی توقع کرنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہر موقع پر ہر سامعین کے سامنے ایک ہی بیانیے اور گفتگو کے نکات ہر جگہ استعمال نہیں کیے جا سکتے۔


انہوں نے کہا کہ مواد سے ہٹ کر یہ بھی اہم ہے کہ کون اسے پہنچا رہا ہے اور کس طرح پہنچا رہا ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے ایک اور مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے سوال کیا کہ پاکستانیوں کی آواز کیوں زیادہ نہیں سنی جا رہی اور کیوں زیادہ لوگ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھ رہے یا پیش نہیں کر رہے، پاکستان کو سمجھنے والے کتنے پاکستانی اہم دارالحکومتوں میں تھنک ٹینکس میں شامل ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ باہر کے نقطہ نظر کے بجائے ملک کے مقامی اور اندرونی تناظر کو سمجھنے والے افراد کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا نے 20 سال سے پاکستان کی ایسی تصویر پیش کی ہے جیسے پاکستان افغانستان میں کسی حل کے بجائے مسئلہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جو کچھ افغانستان میں ہو چکا اس کے بعد بھی اگر مغربی لوگوں سے بات کریں تو انہوں نے یہ بیانیہ اپنے لیے اتنی مرتبہ دہرا لیا ہے کہ وہ اسے حقیقت مانتے ہیں اور آپ چاہے کچھ بھی کر لیں دوسرے فریق کو سمجھانا ورچوئلی نا ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس سے کچھ کیوں نہیں سیکھا؟ وہ زیادہ انصاف پسند کیوں نہیں؟ وہ پاکستان کے ساتھ منصفانہ کیوں نہیں؟ بلکہ مجھے جس سوال کا جواب دینا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے بہتر کیوں نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے ملک کی حقیقت ویسی کیوں پیش نہیں کی جاتی جیسی کی جانی چاہیے؟ واشنگٹن میں سابق سفیر سے ایک ملاقات کا احوال سناتے ہوئے انہوں نے کہا میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جب کوئی واشنگٹن سے پاکستان آ کر واپس جاتا ہے تو اس کا پاکستان کے حوالے سے بیانہ مختلف ہوتا ہے۔ انہوں نے وہ بہت منفی اور حقیقت سے دور چیزیں سوچ کر آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں کہتے ہیں یہ بالکل مختلف ہے، میری آنکھیں کھل گئیں۔ معید یوسف نے کہا کہ حقیقت اور تاثر کا یہ وہ فرق ہے جس سے ہم نبرد آزما ہیں۔
خبر کا کوڈ : 960829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش