0
Friday 19 Nov 2021 13:35

ایران پاکستان کے ادھورے پراجیکٹس اور نئے تجارتی منصوبے

ایران پاکستان کے ادھورے پراجیکٹس اور نئے تجارتی منصوبے
رپورٹ: توقیر کھرل

جغرافیائی قربت رکھنے والے ہمسایہ ممالک بالعموم ریل، سڑک، آبی اور ہوائی راستوں کے ذریعے بآسانی ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں اور تجارتی طور پر ان کے تعلقات دوسروں کی نسبت اسی قدر آسان اور محفوظ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے، اس کے اندر تجارتی نقطہ نظر سے اسے انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔ چین، ایران، افغانستان حتیٰ کہ بھارت کے ساتھ بھی متصل سرحدوں کے باعث پاکستان کی تجارتی اہمیت کو نظر انداز کرنا کسی ہمسائے کے لئے بھی ممکن نہیں جبکہ ہمسایوں سے تجارتی روابط بڑھانا خود پاکستان کے قومی مفاد کا بھی ناگزیر تقاضا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان شروع دن سے نہ صرف برادرانہ بلکہ ہمہ جہت تجارتی تعلقات چلے آرہے ہیں۔ دونوں ممالک بڑی حد تک ایک دوسرے کی زرعی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔

کرونا کے بعد سرحدوں کی بندش اور کاروبار پر پابندیوں کے بعد پاکستان اور ایران نے دو طرفہ تجارت کے حوالے سے پہلی پیش رفت کا آغاز کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ تجارتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اور ایران بارٹر نظام کے تحت تجارت شروع کریں گے۔ اس حوالے سے ایران کے دورہ کرنے والے وفاقی مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ دونوں ممالک نے سرحد پر چاول کے بدلے بارٹر ٹریڈ پر اتفاق کر لیا ہے۔ ایران کی طرف سے تجارتی اشیاء کی 33 اشیاء پر مشتمل فہرست پاکستان حکام کو دی گئی، جس میں ہائیڈرو کاربن گیس، لیکویڈ گیس، خشک اور تازہ کجھور، سرامک، خشک سبزیاں، تازہ اور خشک پستہ، سٹیل، تازہ جوسز، دودھ اور کریم شامل ہیں۔

دوسری طرف پاکستان نے ایران کو چاول کے علاوہ تازہ اور خشک امرود، تیار ملبوسات، پولیمر، ٹیکسٹائل فیبرکس، طبی آلات، گوشت اور آم سمیت دیگر اشیاء کی فہرست دی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان نئے تجارتی معاہدے کے مطابق پاکستان اور ایران نے 2023ء تک سالانہ تجارتی تبادلے کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کیلئے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال پر بات کریں تو پاکستان اور ایران میں تجارت بہت محدود ہے اور پاکستان کی برآمدات کا 63 فیصد صرف چاول پر مشتمل ہے۔ ماضی میں ایران کے ساتھ 2006ء میں ایک ترجیحی تجارتی معاہدہ (پی ٹی اے) پر دستخط کیے گئے تھے، جس میں ایران کو 309 ٹیرف لائنوں پر رعایتیں دی گئی تھیں جبکہ پاکستان کو 338 ٹیرف لائنوں پر رعایتیں دی گئی تھیں۔

اس کے بعد سال 2017ء میں دونوں فریقین نے نومبر تک مجوزہ ایف ٹی اے کو حتمی شکل دینے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اب دونوں ممالک کی تجارتی مذاکراتی کمیٹی نے ایف ٹی اے پر بات چیت کے دو دور منعقد کیے، جس میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ یہ معاہدہ 2016ء میں ہونے والی دو طرفہ تجارت کو 30 کروڑ ڈالر سے بڑھا کر 2021ء تک 5 ارب ڈالر تک لے جائے گا۔ دونوں ممالک پہلے ہی اسٹریٹجک تعاون پر منصوبہ بندی اور معاہدے کرچکے ہیں، اس پر عمل ہونا باقی ہے۔ نئے تجارتی ہدف کے بارے میں تفہیم تہران میں منعقدہ ایران پاکستان مشترکہ تجارتی کمیٹی کے نویں اجلاس کے دوران طے پایا ہے، دونوں ممالک سالانہ تجارتی تبادلوں کو بڑھانے کے لیے پرعزم اور اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے ساتھ تجارتی تبادلے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان نئے تجاتی معاہدے تو تشکیل دیئے جا رہے ہیں، لیکن ایران گیس پائپ لائن منصوبہ تاحال ادھورا پڑا ہے، گذشتہ ماہ دونوں ممالک کے رہنماوں کی ملاقات میں بھی اس منصوبہ کو زیر بحث نہیں لایا گیا، اس کی ظاہری وجوہات میں پاکستان بین الاقوامی برادری کے کچھ ممالک کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، تاخیر کا عمل نہ صرف ایران پاکستان پائپ لائن منصوبہ بلکہ دیگر منصوبے بھی تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔ ایران کے ساتھ سو میگا واٹ بجلی کا معاہدہ ہوا تھا اور وہ مکران کو بجلی فراہم کر رہا تھا۔ جب اس معاہدے کی معیاد پوری ہوئی تو اس میں بہت زیادہ توسیع نہیں کی گئی۔ ایک اور معاہدہ تین سو میگا واٹس کا ہے، جس کے لیے ایران نے پسنی کے قریب تک بجلی کے کھمبے بھی لگا دیئے تھے، لیکن اس پر بھی تاخیری حربوں سے کام لیا اور یہ بھی مکمل نہیں ہوا۔

ایران پاکستان گیس پائپ لائن خطے کے ممالک میں تعاون کو فروغ دے سکتی ہے اور ہمارے مستقبل کو محفوظ کرسکتی ہے، ہمارے گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ جس طرح پاکستان نے ماضی میں لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کی تیاری نہیں کی تھی اور اس کا نتیجہ آج بھگت رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح آج ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا پراجیکٹ اگر مکمل نہیں کیا تو کل گیس کے بھی بہت بڑے بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران گیس پائپ لائن سمیت تمام معاہدوں میں نمایاں پیش رفت کی جائے، جتنی جلد ممکن ہو، اس سمت میں موثر اقدامات کئے جانے چاہئیں، ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح نئے منصوبے تاخیر کا شکار ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 964355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش