0
Wednesday 24 Nov 2021 12:11

تم ہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے، "مریم مختار شہید"

تم ہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے، "مریم مختار شہید"
تحریر: توقیر کھرل

مریم مختار 18 مئی 1992ء کو کراچی میں پیدا ہوئی، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اے پی ایس ملیر کینٹ سے حاصل کی۔ انہیں بچپن سے ہی ملک و قوم کی خدمت کرنے کا بے پناہ شوق تھا۔ وہ جب اپنے والد صاحب کو فوجی یونیفارم میں دیکھتیں تو ان کے دل میں بھی وطن عزیز کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا۔ انہوں نے اپنے والد صاحب کرنل (ر) مختار احمد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فوج میں جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک طویل اور مشکل سفر تھا، مگر کہتے ہیں ناں ہر کام کو کرنے کے لئے بس جذبہ ہونا چاہیئے اور ان کا جذبہ ہی ان کی طاقت تھا۔ فائٹر پائلٹ مریم مختار کا شمار لڑاکا طیارے کی ان پانچ خواتین پائلٹس میں ہوتا تھا، جنہیں محاذ جنگ تک جانے کی اجازت تھی۔

مریم کے والد کرنل (ر) مختار احمد کہتے ہیں، میں نے اپنی بیٹی سے کہا اگر تم نے ائیر فورس میں جانا ہے تو یہ جان لو کہ اس میں مشکلات ہوتی ہیں، پائلٹ کی زندگی رسک پر ہوتی ہے، جس کے جواب میں مریم نے کہا کہ فرض کریں اگر کسی سفر کے دوران میں مجھے کچھ ہو جائے تو آپ تب کیا کریں گے۔ اس جواب کے بعد مریم کے والد نے ائیرفورس جوائن کرنے کی اجازت دے دی اور کامیابی کی دعاء کی۔ مریم کی والدہ بتاتی ہیں کہ مریم ہماری دوسری بیٹی تھی اور اس کی پیدائش پر ہم نے مٹھائی بانٹی اور اس رحمتِ خدا کی آمد پہ خوشی کا اظہا کیا تھا۔ جب مریم کا فورسز جوائن کرنے کا ٹیسٹ پاس ہوا تو مریم نے مجھے کہا میری پیدائش پر جو مٹھائی بانٹی تھی، آج اس کا حق ادا ہوگیا۔

مریم مختار شہیدہ کے بھائی کہتے ہیں کہ مریم نے ٹریننگ کے دوران بھی ہم سے رابطہ منقطع نہیں کیا، ہر ایک کو کال کرنا نہیں بھولتی تھی، وہ بہت خوش مزاج تھی۔ شہیدہ مریم کی بہن اور والد بتاتے ہیں کہ وہ اکیڈمی میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کے بارے میں بہت مثبت انداز میں بتایا کرتی تھی اور ہم بغور سنتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم بھی اکیڈمی کا حصہ ہیں اور خود کو وہاں محسوس کرتے تھے۔ "تم ہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے" مریم کا پسندیدہ ترانہ تھا، وہ ہر وقت اس کو سننا پسند کرتی تھی۔ پائلٹ مارخ، مریم مختار کی کورس میٹ رہی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ وہ بہت پُرعزم اور پختہ ارادہ کی مالک تھی۔ فیاض دل تھی، مستحق لوگوں کی مدد کرنا اس کی عادات میں شامل تھا۔

مریم کی والدہ بتاتی ہیں کہ آخری فلائنگ سے قبل ہمیشہ کی طرح مریم نے بتایا کہ میں جا رہی ہوں، اگر آگئی تو آپ کو فون کرلو گی اور اگر میں نہیں آئی تو سمجھئے گا میں شہید ہوگئی ہوں۔ میں نے مریم کی شہادت کی خبر سنی تو بیٹی کی وطن ِ عزیز کیلئے قربانی کی قبولیت کیلئے نوافل ادا کئے۔ شہادت سے چند ماہ قبل مریم مختار نے نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنے وطن سے بے حد پیار کرتی ہوں۔ اگر ملک کی خاطر جان بھی قربان کرنا پڑی تو کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی۔ شہیدہ کے والد کہتے ہیں کہ مریم کی شہادت کے بعد اب میں کرنل (ر) نہیں بلکہ اب ہماری پہچان مریم بن چکی ہے اور میں یہاں ضرور بتانا چاہوں گا کہ مریم کی دوسری کلاس میٹ کا مریم کی شہادت کے بعد جذبہ بلند ہوا ہے۔

24 نومبر 2015ء کی صبح مریم اپنے انسٹرکٹر، ثاقب عباسی کے ساتھ معمول کی مشق پر روانہ ہوئیں۔ جب وہ ضلع گجرات کی فضاؤں میں پرواز کر رہے تھے تو اچانک انجن میں آگ لگ گئی اور وہ دھڑا دھڑ جلنے لگا۔ اس سنگین صورت حال میں ضروری ہوتا ہے کہ پائلٹ جہاز سے فوراً باہر چھلانگ لگا دے۔ تبھی اس کی جان بچ سکتی ہے۔ مگر مریم شہید اور ثاقب عباسی کے ضمیر نے فوراً چھلانگ لگانا گوارا نہ کیا۔ دراصل اس وقت ان کا طیارہ آبادی کے اوپر اڑ رہا تھا۔ اس کے پرے کھیت واقع تھے۔ دونوں بہادر پائلٹوں نے فیصلہ کیا کہ چھلانگ لگانے کا فیصلہ چند لمحوں کے لیے ملتوی کر دیا جائے، تاکہ طیارہ آبادی کے بجائے کھیتوں کے اوپر پہنچ جائے۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو ہر قسم کے جانی و مالی نقصان سے بچانا چاہتے تھے۔ مگر یہی چند قیمتی لمحے مریم کی شہادت کا سبب بن گئے۔ پاک وطن کی اس دلیر بیٹی نے جان کی قربانی دے کر دفاع پاکستان پر مامور ہر مرد و عورت کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ انور مقصود کہتے ہیں، میں اب بھی جب آسمانوں کی طرف نظر کرتا ہوں، کوئی ائیر فورس کا جہاز دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس میں مریم ہے۔
خبر کا کوڈ : 965178
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش