1
Tuesday 30 Nov 2021 21:44

خالصہ سرکار، گلگت بلتستان کو فلسطین بنانے والا بدنام زمانہ قانون

خالصہ سرکار، گلگت بلتستان کو فلسطین بنانے والا بدنام زمانہ قانون
تحریر: لیاقت علی انجم

ڈوگروں کے دور میں گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم بڑے شفاف طریقے سے ہوئی۔ حدبندی کے ذریعے آبادیوں میں زمینوں کے ساتھ ان کیلئے درکار پانی کی بھی تقسیم ہوئی، زمینوں کی آبادیوں میں تقسیم کے ریکارڈ کو محکمہ مال کے ریکارڈ میں باقاعدہ درج کیا گیا، جو آج بھی موجود ہے اور جی بی میں زمینوں پر تنازعے کے حل کیلئے دونوں بندوبستی ریکارڈ کو دیکھا جاتا ہے۔ زمینوں کی حدبندی اور مقامی لوگوں کے مالکانہ ریکارڈ کو ''نظام بندوبست'' بھی کہا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں دو مرتبہ بندوبست عمل میں لایا گیا۔ پہلا بندوبست 1907ء اور دوسرا تقریباً 1916ء میں ہوا۔ ''بندوبست'' زمینوں کے انتقال اور مالکانہ حقوق کا بنیادی ریکارڈ ہے۔ ڈوگروں سے پہلے سکھ سلطنت لاہور سے لداخ اور گلگت بلتستان تک قائم تھی۔ سکھوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں 1799ء میں پہلے لاہور پر قبضہ کر لیا، اس کے بعد مختلف ریاستوں میں موجود سکھوں کی راجدھانیوں سے مل کر پنجاب سے گلگت بلتستان اور جموں کشمیر تک خالصہ سرکار یا سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کو خالصہ سرکار (سکھ سرکار) کہا جاتا تھا، خالصہ سکھوں کی متحدہ فوج کو کہا جاتا تھا۔ سکھ شاہی دور میں یہ حکم صادر ہوا کہ عوام کی ملکیتی اور زیر کاشت زمینوں کے علاوہ زمین، پہاڑ اور ریگستان جو کسی شخص کے نام نہیں، وہ سکھ سرکار یا خالصہ سرکار کی ملکیت ہونگے۔ بعد میں ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ان زمینوں کی رکھوالی اور ریاست کے باشندوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے 1927ء میں ایک قانون نافذ کیا، جسے ''قانون باشندگان ریاست'' یا سٹیٹ سبجیکٹ رول کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی غیر مقامی شخص کو زمین کی خرید و فروخت اور مستقل آبادکاری کی اجازت نہیں تھی۔ سکھ سلطنت کا حصہ ہونے کی بنا پر یہ قانون گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر میں بھی نافذ تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے یہ قانون بدستور نافذ رکھا اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو نیم خود مختار ریاست کی حیثیت دی گئی، جس میں سٹیٹ سبجیکٹ رول بھی شامل تھا، جو پانچ اگست 2019ء تک نافذ رہا۔

سترہ جنوری 2019ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بنچ نے جی بی کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا، جس میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کے ناتے متنازعہ قرار دیا۔ ریاست کا بھی یہ موقف ہے کہ جی بی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کے ناتے متنازعہ علاقہ ہے۔ لیکن یہاں وفاق کی دوغلی پالیسی اس وقت عیاں ہو جاتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ساتھ الگ الگ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ریاست کی ایک اکائی میں لوٹ مار اور دوسری اکائی میں عوام کے مالکانہ حقوق کو بھرپور تحفظ دیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اب تک نافذ ہے۔ ریاست کے موقف کے حساب سے گلگت بلتستان اگر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اور متنازعہ علاقہ ہے تو پھر یہاں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ کیوں نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کرنے پر پاکستان کا احتجاج، لیکن خود حکومت پاکستان نے جی بی میں ایس ایس آر کا گلا نصف صدی پہلے ہی گھونٹ دیا تھا۔

نریندر مودی کی حکومت نے 05 اگست 2019ء کو جب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تو سٹیٹ سبجیکٹ رول بھی ختم ہوگیا۔ ادھر پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں ایس ایس آر یعنی سٹیکٹ سبجیکٹ رول ابھی تک نافذ ہے۔ کوئی بھی غیر مقامی آزاد کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا اور نہ ہی مستقل آباد ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کب اور کس طرح ختم کیا گیا، یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ 1978ء میں وزارت امور کشمیر کے ذریعے ایک کالا قانون نوتوڑ رول 1978ء نافذ کیا گیا، جس کے تحت بندوبستی ریکارڈ میں موجود نہ ہونے والی تمام زمینیں حکومت کی ملکیت ہوگئیں۔ آج سے دو سال قبل مجھے اس معاملے سے باخبر ایک شخص نے بڑی دلچسپ کہانی سنائی تھی۔

جنرل ضیاء دور میں سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کرکے یہاں غیر مقامی لوگوں کو بسانے کی کوششیں تیز ہوگئیں تو اس کیخلاف گلگت بلتستان کے چند گنے چنے لوگوں نے آواز بلند کی۔ جنہوں نے آواز بلند کی، انہیں ان کے تصور سے بھی بڑھ کر سرکاری ملازمت دی گئی۔ ایک بندے کو تو ڈائریکٹ ایس پی یا تحصیلدار لگوایا گیا، یوں خطے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازشوں کیخلاف آواز بلند کرنے والا کوئی نہ رہا۔ نوتوڑ رول یا خالصہ سرکار کے ذریعے گلگت بلتستان میں موجود اہم ترین کمرشل، نان کمرشل زمینوں پر حکومتی ادارے قابض ہوگئے۔ کئی جگہوں پر عسکری کمرشل مارکیٹیں بن گئیں اور دیگر زمینوں کو مختلف اداروں کے نام الاٹ کر دیا گیا۔ گلگت بلتستان میں نون لیگ سمیت دیگر جماعتیں پیپلزپارٹی کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے کہ انہوں نے جی بی میں ایس ایس آر ختم کرکے غیر مقامی لوگوں کی آبادکاری کا موقع فراہم کیا۔ پی پی اس بات سے انکاری ہے، ان کا موقف ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول اصل میں جنرل ضیاء نے ختم کیا تھا۔

آج صورتحال یوں ہے کہ گلگت بلتستان کی ڈیموگرافی تقریباً تبدیل ہوچکی ہے۔ ساری کمرشل زمینیں پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیٹھوں نے خرید لی ہیں۔ شہروں کے قلب میں موجود زمینیں یا تو عکسری اور سرکاری مارکیٹوں میں تبدیل ہوگئی ہیں یا پھر سرکارے ادارے قابض ہیں۔ دوسری جانب جی بی کے مقامی لوگ اپنی زمینوں پر غیر مقامی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ دریا کے کنارے سے ریت اور بجری نکالنے کیلئے بھی انتظامیہ کی اجازت درکار ہے۔ ادھر ڈی سی کی مرضی کے بغیر جی بی کے مقامی شہری کسی زمین پر کوئی تعمیرات بھی نہیں کرسکتے۔ سکھوں نے اپنی سلطنت کو قائم رکھنے کیلئے جس قانون کا سہارا لیا تھا، اس قانون کو اپ ریاست پاکستان پوری طاقت سے نافذ کر رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 966243
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش