0
Friday 17 Dec 2021 22:06

غاصب صیہونی رژیم کو اپنی مکمل تباہی کا یقین، امریکہ کیساتھ "تعمیر نو" کا خفیہ معاہدہ دستخط

غاصب صیہونی رژیم کو اپنی مکمل تباہی کا یقین، امریکہ کیساتھ "تعمیر نو" کا خفیہ معاہدہ دستخط
اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خاتمے کے اعلانیہ وعدے کے چند سالوں کے بعد ہی اسرائیل کو اپنی مکمل تباہی کا یقین حاصل ہو گیا ہے جس کے سبب اس نے امریکہ کے ساتھ اپنی تعمیر نو کا خفیہ معاہدہ بھی دستخط کر لیا ہے۔ عبری زبان کے صیہونی اخبار یدیعوت آحارانوت نے اس حوالے سے انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ واشنگٹن نے وعدہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کے غیر معمولی حالات میں بندرگاہوں، الیکٹرک ٹرانسمشن سسٹم، مواصلاتی نظام، واٹر سپلائی سسٹم اور سڑکوں سمیت انفراسٹرکچر سے متعلق تل ابیب کو اس کی مرضی کی ہر مدد فراہم کرے گا۔ عرب ای مجلے عرب48 کے مطابق صیہونی اخبار نے لکھا کہ یہ معاہدہ انتہائی خفیہ ہے اور (غاصب) صیہونی رژیم کے معدود اعلی سیاسی و سکیورٹی عہدیدار ہی اس سے باخبر ہیں کیونکہ سال 2018ء میں طے پانے والا یہ معاہدہ اس لئے انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے تاکہ عام اسرائیلیوں پر "مستقبل قریب میں اسرائیل کے مکمل طور پر تباہ ہو جانے کی اٹل حقیقت" عیاں نہ ہو سکے۔

رپورٹ کے مطابق تل ابیب و واشنگٹن کے درمیان کسی فوجی اتحاد کا نہیں بلکہ "اسرائیلی و امریکی فوجی کمان کے باہمی تعاون" کا ذکر کیا جاتا ہے جبکہ اس وقت دونوں رژیموں کے درمیان مقبوضہ سرزمین (اسرائیل) میں جاسوسی، فوجی اور مشترکہ ہوائی کارروائیوں کے حوالے سے باہمی تعاون جاری ہے۔ صیہونی اخبار کے مطابق یہ "مشترکہ دفاعی منصوبہ" اسرائیلی کابینہ کی جانب سے امریکہ کو مدد کی درخواست کے دیئے جانے اور امریکی صدر کی جانب سے اسے قبول کرنے بعد شروع ہوا جبکہ یہ قدم کئی ایک مرحلوں میں اٹھایا گیا جس کا پہلا مرحلہ سال 1991ء میں چھڑنے والی خلیج فارس کی پہلی جنگ کے دوران طے ہوا جس میں اسرائیل کے اندر میزائلوں کو روکنے کے امریکی پیٹریاٹ سسٹم پہنچائے گئے۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ "مشترکہ دفاع کا یہ منصوبہ" عراق پر امریکی حملے سے تکمیل تک پہنچ گیا جب امریکی ہوائی دفاع کے متعدد یونٹ اسرائیل میں تعینات ہو گئے اور خلیج فارس کی دوسری جنگ کی پوری مدت کے دوران وہاں موجود رہے۔

واضح رہے کہ صیہونی میڈیا کی جانب سے یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں شائع کی گئی ہے جب روسی میزائل سائنس اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کینسٹینٹائن سیوکوف نے قبل ازیں رشیاٹوڈے کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ایران کے پاس درمیانے درجے کے میزائل اور بڑی مقدار میں ایسا روایتی اسلحہ موجود ہے جو انتہائی درستگی کے ساتھ نشانے کے عین اوپر مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ یہ حقیقت امریکی فوجی اڈے (عین الاسد) کو ایران کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے وقت ثابت ہو گئی تھی۔ روسی میزائل سائنس اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ایرانی میزائلوں کے ساتھ مقابلہ، اسرائیل کی طاقت سے باہر ہے کیونکہ ایرانی میزائلوں کے ساتھ مقابلہ کرنے والا کوئی دفاعی سسٹم اسرائیل کے پاس موجود نہیں لہذا ان سسٹمز اور اسرائیلی جوہری تنصیبات پر ایران کا حملہ؛ انتہائی کم رقبے کے حامل اسرائیل کو غیر قابل سکونت علاقے میں بدل کر رکھ دے گا۔

کینسٹینٹائن سیوکوف کا کہنا تھا کہ اگر ایران کے بارے گفتگو کی جائے تو میں کہوں گا کہ ایران کے پاس ایسی خاص تنصیبات ہیں جو قلعے کے مانند پہاڑی علاقوں کے اندر موجود ہیں اور ان میں نفوذ، ایٹم بم کے علاوہ، ناممکن ہے اور میرے خیال میں اسرائیل، ایران کے خلاف جوہری اسلحہ استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ یہ کام روس اور چین کے شدید ردعمل کا موجب بنے گا لہذا یہ قدم ان دنوں ممالک کے سخت ردعمل کی بناء پر غیر قابل قبول ہے۔ روسی میزائل سائنس اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر تاکید کرتا ہوں کہ اسرائیل کی زمین انتہائی چھوٹی ہے لہذا میرے خیال میں کام جوہری اسلحے کے استعمال تک کبھی نہیں پہنچے گا جبکہ روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایرانی تنصیبات کی انتہائی زیادہ حفاظت کی جاتی ہے اور کوئی بھی ان ہتھیاروں کے ذریعے ان تنصیبات تک دسترسی پیدا نہیں کر سکتا پس اسرائیلی کارروائیاں، حتی امریکی فضائیہ کی مدد کے ساتھ بھی کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کر سکتیں۔ کینسٹینٹائن سیوکوف نے اپنی گفتگو کے آخر میں کہا کہ میں ایک اور نکتہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ایران فوجی میدان میں؛ میزائل تیار کرنے والے دنیا کے پہلے 4 پیشرفتہ لیڈنگ ممالک میں سے ایک ہے جبکہ یہ ممالک روس، امریکہ، چین اور ایران ہیں۔
خبر کا کوڈ : 968999
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش