QR CodeQR Code

مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں کی دوسری برسی

امریکہ، اسرائیل اور سعودی شاہ دشمن جبکہ شہید کمانڈر امت مسلمہ کے مدافع تھے، سید حسن نصراللہ

4 Jan 2022 11:07

شہید جنرل قاسم سلیمانی، حاج ابومہدی المہندس و رفقاء کی دوسری برسی کیمناسبت سے قوم سے خطاب میں لبنانی مزاحمتی تحریک کے سربراہ نے دشمن شناسی کے حوالے سے مفصل گفتگو کرتے ہوئے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور انکے قاتل امریکہ و سعودی عرب کے حوالے سے واضح موقف اپنائیں


اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں کی دوسری برسی کے موقع پر قوم سے خطاب کیا ہے جس میں انہوں نے جگر گوشہ رسول(ص) جناب فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے ایام شہادت کے حوالے تعزیت اور نئے سال کے آغاز پر تبریک پیش کی اور لبنان کے اندرونی مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان کا خطاب لبنانی مسائل پر مشتمل نہیں ہو گا کیونکہ اس کے لئے ایک لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت ہے اور کہا کہ ہم اپنے اتحادیوں، دوستوں اور اپنے تعلقات کے لئے بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم التیار الوطنی الحر کے ساتھ معاہدہ کرنے کو تیار ہیں۔

سربراہ حزب اللہ لبنان نے شہید جنرل قاسم سلیمانی، شہید حاج ابومہدی المہندس اور رفقاء کی گاڑیوں کے نشانہ بنائے جانے کے ماجرے پر روشنی ڈالی اور زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کی جانب سے انجام دی جانے والی شہید جنرل قاسم سلیمانی و شہید ابومہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنک کے سنگین نتائج کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور جاری رہے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان عزیزان کی کامیابیوں اور جانفشانیوں پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اسلامی ممالک میں شاندار تقاریب منعقد کی گئی ہیں، تاکید کی کہ گذشتہ 2 سالوں کے دوران سیف القدس جیسی متعدد بڑی جنگیں وقوع پذیر ہوئی ہیں جو انہی دونوں شہیدوں کی حکمت عملی کے تسلسل کی عکاسی کرتی ہیں اور یمنی جنگ بھی ایسی ہی ہے۔ انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید حاج ابومہدی المہندس کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم کربلاء کی بات کرتے ہیں تو ہمیں صرف حضرت امام حسین(ع) اور حضرت ابالفضل(ع) کے بارے ہی گفتگو نہیں کرنی چاہئے بلکہ یزید و عبیداللہ کے بارے بھی بات کرنی چاہئے تاکہ ہماری گفتگو ناقص نہ رہ جائے۔

سید مقاومت نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تمام ممالک شہید قاسم سلیمانی و شہید حاج ابومہدی المہندس کے قاتلوں کے بارے مستقل موقف اپنائیں، کہا کہ عراق کو بھی اس حوالے سے مضبوط موقف اپنانا چاہئے.. امریکہ قاتل ہے اور جنرل قاسم سلیمانی، حاج ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھی "شہید"! منظر بالکل واضح ہے، یہ امریکہ ہے کہ جس نے نہ صرف عراق پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ وہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ سے بھی پہلے سے وہاں قتل و غارت میں مصروف ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ نے عراق میں دسیوں ہزار غیر فوجی عوام کا قتل عام کیا ہے جبکہ اس وقت وہ مزاحمتی محاذ اور اس کے حملوں کے باعث عقب نشینی پر مجبور ہو چکا ہے، کہا کہ امریکہ نہ صرف عراقی وسائل کی غارت میں مصروف اور عراقی مرد و خواتین کو بدترین ظلم و جور کا نشانہ بنا رہا ہے بلکہ داعش کو بھی اسی نے وجود بخشا ہے تاکہ اس کے بہانے سے وہ ایک مرتبہ پھر عراق میں واپس آ سکے! لہذا داعش کی جانب سے انجام پانے والے تمام جرائم کا ذمہ دار امریکہ ہے، وہی امریکہ "قاتل" اور حاج قاسم "شہید" ہیں!

سید حسن نصراللہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حاج قسم سلیمانی وہ شخصیت ہیں کہ جو امریکی قبضے کے روبرو ڈٹ گئے اور جنہوں نے عراقی مزاحمتی گروہوں کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا لیکن امریکہ تاحال عراق میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے.. امریکہ نے دوبارہ عراق میں آنے کے مقصد سے داعش کو زندہ کر کے ہر ایک عراقی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے جبکہ وہ داعش کے بہانے سے خود کو عراق کا مدافع ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ سید مقاومت نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ناجائز قبضے کے سامنے ڈٹ کر عراقی عوام کے ساتھ آ کھڑے ہوئے تھے، تاکید کی کہ جب داعش عراق میں آئی تو وہ (شہید جنرل قاسم سلیمانی) ہی ایسے پہلے شخص تھے جو عراقی عوام کے شانہ بشانہ آن کھڑا ہوا تاکہ ان کا دفاع کر سکے.. حاج قاسم سلیمانی رہبر معظم کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران، ایرانی مسلح افواج، سپاہ پاسداران اور مجاہد ایرانی قوم کے بھی نمائندے تھے..! انہوں نے نتیجہ گیری کرتے ہوئے کہا کہ پس امریکہ نے عراقی عوام کا قتل عام کیا اور داعش کو وجود بخشا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایران نے اپنے بہترین جوانوں اور طاقتور مردوں کو عراقی عوام کے دفاع میں فدا کیا ہے!

سربراہ حزب اللہ لبنان نے عراقی حشد الشعبی کے شہید ڈپٹی کمانڈر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حاج ابومہدی المہندس وہ شخص ہیں کہ جنہوں نے مرجعیت کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہی اور تاکید کی کہ وہ ان افراد میں سے تھے جو سالہا سال پہلے محاذ پر اور اگلے مورچوں میں موجود رہے.. وہ ہمیشہ مجاہدین کے درمیان رہتے اور ان کے ہر غم و غصے میں شریک ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وہی شہید ہیں کہ جس نے نہ صرف پورے عراق کو بچا لیا بلکہ آج اگر عراق میں کوئی امن و استحکام موجود ہے تو وہ انہی جیسے شہداء کے مرہون منت ہے.. یہ "شہید" اور وہ "قاتل"! انہوں نے اس سوال کے ضمن میں کہ کیا کوئی ایسا منصف بھی ہو گا جو قاتل و شہید کے درمیان بھی کسی قسم کے فرق کا قائل نہ ہو؟ کہا کہ امریکہ کہ جس نے عراق کو تباہ کیا اور داعش کو وجود بخشا اور ایران کہ جس نے ہمیشہ ہی عراق کی ہمہ جہت حمایت کی ہے، کے درمیان کوئی بھی فرق نہیں؟.. بعض لوگ تو یہ دعوی کرتے بھی نہیں تھکتے کہ امریکہ دوست ہے اور ایران دشمن.. یہ ایک فکری، بصیرتی، اطلاعاتی، اخلاقی و انسانی المیہ ہے.. اس جیسے مسائل کی امریکی سفارتخانے اور اس کی سائبر آرمی کی جانب سے ترویج کی جاتی ہے.. وہ شہداء کا چہرہ بگاڑ اور بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دوست بنا کر پیش کرتے ہیں..

سید حسن نصراللہ نے عراقی عوام کے قتل عام پر مبنی سعودی شاہی رژیم کے متعدد اعترافات کی جانب اشارہ کیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عراق میں دہشتگردی کی ہزاروں کارروائیاں انجام پائی ہیں جس کے باعث دسیوں ہزار عراقی شہید ہوئے ہیں، کہا کہ سڑکیں عراقی عوام کی لاشوں سے بھر جاتی تھیں.. جبکہ سعودی عرب کے سابق ولیعہد نائف بن عبدالعزیز نے خود ایک عوامی خطاب میں ان ہزاروں سعودی شہریوں کے وجود سے پردہ اٹھایا تھا جو خودکش کارروائیاں انجام دینے کے لئے عراق گئے تھے.. علاوہ ازیں عراقی وزارت داخلہ بھی تاکید کر چکی ہے کہ سعودی عرب اب تک ہزاروں خودکش بمباروں کو عراق بھیج چکا ہے۔ انہوں نے داعش کی سوچ کا سرچشمہ سعودی عرب کو قرار دیا اور کہا کہ خود محمد بن سلمان کا بھی یہی کہنا ہے کہ امریکہ گذشتہ دہائیوں کے دوران، سعودی عرب سے پورے عالم اسلام سمیت دوسرے ممالک میں وہابی سوچ کی ترویج کا مطالبہ کرتا رہا ہے جسے سعودی حکومت نے ہمیشہ ہی قبول کیا ہے جبکہ سعودی عرب کا سرکاری موقف بھی عراق پر داعشی قبضے کی حمایت پر ہی مبنی تھا.. پس سعودی عرب نے ہی خود کش بمباروں اور بارود بھری گاڑیوں کو عراق روانہ کیا.. انہوں نے عراق میں دہشتگردی کے حوالے سے سعودی و ایرانی کردار کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے اپنے جوانوں کو خودکش کارروائیوں کے ذریعے عراقی جوانوں اور بچوں کا قتل عام کرنے کے لئے عراق بھیجا جبکہ ایران نے اپنے جوانوں کو اس لئے روانہ کیا کہ وہ عراق کے تمام صوبوں کے عوام کا دفاع کریں.. ایران نے عراق کے دفاع کے لئے وہاں اپنے جوانوں کو بھیجا لہذا کیسے شہید و قاتل کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جاتا جبکہ بعض لوگ ایران کو دشمن اور سعودی عرب کو دوست ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں!

سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران اسرائیلی جرائم کی جانب اشارہ کیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ لبنان و فلسطین سمیت خطے بھر میں انجام پانے والے صیہونی جرائم کا ذمہ دار امریکہ ہے، کہا کہ لبنان میں انجام پانے والی اسرائیلی جنگ، غارتگری اور تمام قتل عام کی ذمہ داری امریکہ کی گردن پر عائد ہوتی ہے.. تو ایسی صورت میں ہم اسے کس طرح دوست ملک کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 20 لاکھ سے زائد انسان محاصرے میں ہیں درحالیکہ نہ صرف تمام ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے بلکہ بعض ممالک غاصب صہیونیوں کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو معمول پر لانے میں بھی مصروف ہیں۔ انہوں نے شام میں داعش کو حاصل امریکی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن نے التنف فوجی اڈے کو داعش کی چھاونی میں بدل رکھا ہے تاکہ ان کے ذریعے دمشق کو مسلسل خطرے میں باقی رکھ سکے.. شام میں ہر روز سینکڑوں لوگ اس بحران کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں.. اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ فلاں عرب یا ایشیائی ملک یا داعش و النصرہ کا؟ حمد بن جاسم جو قطر کا وزیر اعظم ہے، نے خود ایک ٹی وی انٹرویو میں عرب حکمرانوں کے اعترافات کے عین مطابق کہا تھا کہ شام کے لئے اس وقت کا امریکی سفیر جو ترکی میں موجود تھا؛ خود پیسے بانٹا کرتا اور (شام میں بحران پیدا کرنے والوں کو) ذمہ داریاں سونپا کرتا تھا!

شہید مقاومت نے تاکید کی کہ امریکہ نے ہی شام کو اس عالمی جنگ میں دھکیلا ہے تاہم اسے شام میں بری شکست ہوئی ہے بالکل ویسے ہی جیسے اسے عراق میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ (شام کا) یہ بحران بہرحال مختلف شکلوں میں جاری ہے جبکہ شام میں جنگ کا ذمہ دار امریکہ ہے درحالیکہ عراق میں اسے شکست ملنے کے باوجود شام میں امریکی جارحیت تاحال مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیئے ہوئے کہ شام کی اقتصادی و معاشی حالت ناگفتہ بہ ہے جس کا سب سے بڑا سبب امریکی پابندیاں ہیں، تاکید کی کہ شام کی موجودہ صورتحال کو وجود میں لانے والا امریکہ اور اس کا قیصر ایکٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے شام کو اس صورتحال میں پھنسا چھوڑا ہے تاکہ وہ بتدریج موت کے منہ میں چلا جائے جبکہ جنرل قاسم سلیمانی اور حاج ابومہدی نے اسی امریکہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کیوں کوئی شام میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتا؟.. شامی عوام کے خلاف اس سنگین جرم کا مرتکب کون ہوا ہے؟.. امریکہ..! وہی جس کی فوجوں نے شامی سرزمین کا ایک قابل قدر حصہ اور اس کے تیل کے کنووں پر قبضہ کر رکھا ہے درحالیکہ یہ تیل آج شام کی بہت سی اقتصادی مشکلات کو دور کر کے اس کی روزمرہ زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لا سکتا ہے! انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکہ داعش کو شامی بیابانوں اور دمشق کے اردگرد کے علاقوں میں واپس لانا چاہتا ہے، کہا کہ امریکہ داعش کو ایک مرتبہ پھر دمشق پر مسلط کرنا چاہتا ہے جبکہ شہید جنرل قاسم سلیمانی وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے امریکہ کا مقابلہ کیا.. یہاں بھی امریکہ ہی قاتل ہے جبکہ شہید حاج قاسم اور ابومہدی مزاحمتی گروہوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔

لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے یمن کے بارے کہا کہ یمن میں بھی یہی صورتحال ہے، یمنی جنگ میں بھی امریکہ کا ہی مرکزی کردار ہے جبکہ سعودی عرب صرف ایک آلہ کار ہے.. سعودی عرب یمنی جنگ میں امریکی کٹھ پتلی ہے.. امریکہ ان (عرب ممالک) کو دوہتا اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑواتا ہے اور جب اس کا کام ختم ہو جاتا ہے تو انہیں کہتا ہے کہ بہت اچھا، اب ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کر لو اور اچھے بن جاو! انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے باوجود دیکھیں کہ وہ خلیج تعاون کونسل کے ممالک اور خلیجی اتحاد کے بارے بھی بات کرتے ہیں.. جہاں بھی یہ قاتل (امریکہ) موجود ہو گا، صورتحال یہی ہو گی! انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ افغانستان میں بھی امریکہ ہی قاتل ہے کہا کہ امریکہ نے دسیوں ہزار عراقیوں و افغانیوں کو قتل کیا اور تقریبا 9 کروڑ ایرانیوں پر پابندیاں لگائی ہیں جبکہ حاج قاسم سلیمانی ان سب گھناونے اقدامات کے خلاف کھڑے تھے.. وہی تھے جنہوں نے دفاعی توازن کو بدلا اور پھر اس کے نتیجے میں 2 سال قبل اسی روز ٹارگٹ کلنگ کی کارروائی انجام دی گئی جس نے اصلی دشمن کے خلاف جدوجہد کے فہم میں ایک نیا مرحلہ پیدا کیا۔

سید حسن نصراللہ نے عراق سے انخلاء کے امریکی دعوے کے بارے کہا کہ آج امریکی کہتے ہیں کہ انہوں نے عراق میں اپنے فوجی مشن کا خاتمہ کر دیا ہے اور کہتے ہیں کہ امریکی فوجی عراق سے نکل گتے ہیں جبکہ وہ جو اب بھی وہاں موجود ہیں، مٹھی بھر تکنیکی و مشاورتی عملے کے افراد ہیں.. درحالیکہ عراق میں امریکہ کا باقی رہ جانا شہید جنرل قاسم سلیمانی، حاج ابومہدی اور ساتھیوں کے دوبارہ قتل کے مترادف ہے! انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان شہداء کے ساتھ وفاداری؛ عراقی عوام کا مطالبہ پورا کرنا اور عراق سے امریکیوں کو نکال باہر کر دینا ہی ہے.. اس مسئلے کو سال کے خاتمے کے حوالے سے حل کیا جانا چاہئے تاکہ قابض، عراق میں باقی نہ رہے! انہوں نے شام میں عوامی مزاحمتی سلسلے کی موجودگی پر زور دیا اور اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یہ، ملک سے امریکیوں کو نکال باہر کرنے کا بہترین طریقہ ہے، کہا کہ یمن میں بھی یونہی ہے جہاں انصاراللہ اور یمنی عوام کی موجودگی کے باعث امریکہ کی کوئی جگہ نہیں جبکہ خطے سے نکل جانا امریکیوں کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے سے امریکیوں کے انخلاء کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم امریکہ کی اندرونی صورتحال ہے.. آپ کرونا کو ہی دیکھ لیں یا امریکہ میں ناداروں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھیں کہ ان کی تعداد کتنی زیادہ ہے.. اس حوالے سے پیش کئے جانے والے اعدادوشمار ہولناک ہیں جبکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہاں پڑنے والے ڈاکوں کو دیکھیں تو ان کے اعدادوشمار مزید بھیانک لگیں گے.. علاوہ ازیں تشدد اور روز بروز بڑھتی نسل پرستی.. انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ان مخلص شہداء کا خون آج پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ دشمن، ظالم، مستکبر، حقیقی بدعنوان، تمام جارحیتوں کی جڑ اور حقیقی ام الفساد امریکہ ہے.. اس کو دشمن جانیے اور اس کی پناہ میں جانے کے بجائے اس کے خلاف جدوجہد کر کے اسے ذلیل و خوار کیجئے.. شہداء کا خون ہمیں کہہ رہا ہے کہ جب تک ہمارے خطے میں امریکہ اپنا کھوکھلا رعب و دبدبہ بنا کر رکھے گا اور آپ اسے دوست سمجھ کر دھوکہ کھاتے رہیں گے؛ ہماری تمام بدبختیاں و مشکلات بھی باقی رہیں گی۔۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب کے آخر میں یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ جب مسلح گروہ لبنان میں داخل ہوئے تھے تو ان پیچھے کون تھا؟، سعودی شاہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان سب کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان سب کے پیچھے سعودی عرب تھا جو اس گھناونے عالمی منصوبے کا اہم جزو ہے جس نے ہمارے پورے خطے کو نشانہ بنا رکھا ہے! انہوں نے سعودی شاہ کی حالیہ تقریر کی جانب اشارہ کیا (جس میں سعودی شاہ نے حزب اللہ کو دہشتگرد قرار دیتے ہوئے لبنانی عوام کو کہا تھا کہ وہ حزب اللہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں) اور زور دیتے ہوئے کہا کہ جناب شاہ! دہشتگرد تم خود ہو نہ کہ حزب اللہ! وہ دہشتگرد کہ جس نے داعش کی تکفیری سوچ کو لبنان میں پہنچایا تم ہی ہو! وہ دہشتگرد کہ جس نے ہزاروں خودکش بمبار عراق بھیجے تم ہی ہو! وہ دہشتگرد جو گذشتہ 7 سالوں سے نہتے یمنی عوام کا قتل عام کر رہا ہے تم ہی ہو! اور وہ دہشتگرد جو امریکہ کی تمام جنگوں میں اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس کے تمام انسانیت سوز اقدامات کی کھلی حمایت کرتا ہے تم ہی تو ہو!.. انہوں نے کہا کہ حزب اللہ دہشتگرد نہیں بلکہ حزب اللہ ایسی باوقار مدافع اور مزاحمتکار قومی تنظیم ہے کہ جس نے ہمیشہ ہی وطن، اہالیان وطن اور امت مسلمہ سمیت پورے عوام اور ان کے مقدس مقامات کی حمایت کی ہے.. حزب اللہ وہ تنظیم ہے جو حاج قاسم کے شانہ بشانہ لڑتی رہی۔ انہوں اپنے خطاب کے آخر میں تاکید کرتے ہوئے عوام سے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دوست و دشمن کے درمیان تمیز کریں!


خبر کا کوڈ: 971702

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/971702/امریکہ-اسرائیل-اور-سعودی-شاہ-دشمن-جبکہ-شہید-کمانڈر-امت-مسلمہ-کے-مدافع-تھے-سید-حسن-نصراللہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org