0
Monday 3 Jan 2022 21:13
شہید قاسم سلیمانی و شہید ابومہدی المہندس کی دوسری برسی

ٹرمپ و پمپیو سمیت تمام قاتلوں کیخلاف قصاص پر مبنی حکم خدا جاری کیا جانا چاہئے، آیت اللہ رئیسی

ٹرمپ و پمپیو سمیت تمام قاتلوں کیخلاف قصاص پر مبنی حکم خدا جاری کیا جانا چاہئے، آیت اللہ رئیسی
اسلام ٹائمز۔ سال 2020ء کے آغاز میں بغداد ایئرپورٹ کے سامنے امریکی ٹارگٹ کلنگ کی دہشتگردانہ کارروائی میں عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر حاج ابومہدی المہندس اور متعدد رفقاء سمیت شہید ہونے والے ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کے موقع پر صدر اسلامی حمہوریہ ایران آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے اپنے خطاب میں تاکید کی ہے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے مکتب میں "نہیں ہوتا"، "نہیں ہو گا" یا "سمجھوتہ کر لیں" وغیرہ جیسے الفاظ نہیں تھے۔ اس حوالے سے تہران کی جامع مسجد "مصلی" میں منعقد ہونے والی مرکزی تقریب سے خطاب میں آیت اللہ رئیسی نے تاکید کی کہ شہید قاسم سلیمانی، غصب شدہ سرزمینوں کو واپس لینے میں مہارت رکھتے تھے جبکہ اس سے بھی اہم یہ کہ انہیں دلوں کو فتح کرنے کی طاقت بھی حاصل تھی۔

آیت اللہ رئیسی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ شہید قاسم سلیمانی کا مکتب ٹارگٹ کلنگ یا میزائل حملے کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا کہا کہ ایک عادل عدالت میں جارح و قاتل افراد کا محاکمہ اور اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ و (امریکی وزیر خارجہ) پمپیو سمیت ان تمام افراد کے خلاف قصاص پر مبنی حکمِ خدا کا اجراء کیا جانا چاہئے جو اس مجرمانہ کارروائی میں ملوث تھے اور اگر یہ عدالت منعقد نہ ہو پائی تب بھی امریکی حکمران جان لیں کہ امتِ مسلمہ کا دستِ انتقام ضرور آگے بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے یمن، افغانستان، عراق و شام میں بہترین جوانوں کو پہچانا اور انہیں اپنے دین و ملک و قوم کے دفاع کے لئے منظم کر کے ان کی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں نکھارا جس کا نتیجہ داعش کی موت کی صورت میں ظاہر ہوا جبکہ ہمارے عزیز رہبر نے جنرل قاسم سلیمانی کو (ان کی مضبوط مزاحمتی روش کی بدولت) نہ صرف ایک تمدن و روشن رستہ بلکہ مکمل مکتب قرار دیا ہے کیونکہ انہیں قرآنی آیات، اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات پر مکمل عمل اور ولایت کی پیروی کے ذریعے شرح صدر حاصل ہو چکا تھا اور وہ امریکہ کی ظاہری طاقت، امریکیوں کے ظاہری فوجی ڈھونگ اور ان کے چیلوں کو اچھی طرح پہچانتے ہوئے اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ امریکہ کوئی غلطی کرنے کے قابل نہیں!

صدر اسلامی جمہوریہ ایران نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جب انسان کی وجودی شخصیت پروان چڑھ کر وسعت پیدا کر لیتی ہے تو وہ شخص پھر صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک ملت اور امت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کو قرآنی آیات و اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات پر مکمل عمل اور ولایت کی بھرپور پیروی کے ذریعے وجودی وسعت حاصل ہو چکی تھی جس کے بعد وہ صرف ایک شخص نہیں بلکہ مکتب میں بدل گئے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کا مکتب قیام اور دشمن شناسی کی اساس پر استوار تھا کہا کہ گو کہ جنرل قاسم سلیمانی ایک فوجی کمانڈر اور جنرل تھے لیکن انہیں صرف ایک فوجی شخصیت ہی نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ دلوں کی فتحیابی کے ماہر تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے مکتب کے بارے سب سے پہلا نکتہ "صرف خدا کے لئے سوچنا و عمل کرنا اور خدا کے رستے میں پائیداری" ہے جبکہ ان کی فتحیابی کا راز خشیت خدا تھی۔

آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے عظیم تشیع جنازے اور اس بارے رہبر انقلاب اسلامی کے فرمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کے تشیع جنازے کے روز رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج گویا قیامت صغری برپا ہو گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے وہ دلوں کی فتح کا منظر تھا جو صرف اور صرف خدا کے ہاتھوں انجام پاتا ہے اور کسی قسم کے مادی وسائل یا دولت و حشمت سے میسر نہیں ہوتا کیونکہ یہ خدا ہی ہے جو دلوں کو ایک جانب متوجہ کر دیتا ہے۔ انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی مزاحمتی زندگی کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے تاکید کی کہ وہ اس آیت کریمہ کا عملی نمونہ تھے: وَالَّذینَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم کیونکہ وہ امریکیوں سمیت تمام دشمنان دین کے مقابلے میں سخت لیکن شہداء کے فرزندان اور مظلوم افراد کے حوالے سے انتہائی شفیق و بے تاب ہوتے اور جہاں بھی جاتے عوام، شہداء کے خاندانوں اور مصیبت میں گرفتار لوگوں کے مسائل کے حل کی تلاش میں لگے رہتے تھے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی نہ صرف ایک کمانڈر بلکہ ایک ایسے عظیم حکمت عملی ساز تھے کہ جنہوں نے میدان جنگ اور سفارتکاری کے درمیان فاصلہ آنے نہیں دیا؛ وہ ایک ایسے طاقتور سفارتکار اور سفارتکار جنگجو تھے کہ جو دونوں میدانوں میں نکھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ایک ایسے انقلابی سپہ سالار اور پارٹی بازی سے بالاتر کمانڈر تھے کہ جن کا اصلی مسئلہ اسلام و مسلمانوں کی نجات اور برائی، فساد و ظلم کا خاتمہ تھا۔ انہوں نے تاکید کی کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کا اصلی ہدف سنی، شیعہ، فلسطینی، لبنانی و یمنی مسلمانوں و ایزدی عیسائی غرضیکہ تمام متدین افراد و ادیان ابراہیمی کے پیروکاروں کا دفاع تھا لہذا ان کی پہلی نگاہ ہی یہی تھی کہ وہ خطے سے دشمن کے شر کا خاتمہ کرتے ہوئے پورے خطے کو کیسے آزاد کروا سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ عظیم ترین تمغہ جو اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو عطا کیا ہے صبر و بردباری کا تمغہ تھا کہا کہ حاج قاسم سلیمانی نہ صرف خود انتہائی اعلی صلاحیتوں کے مالک تھے بلکہ انہوں نے پورے عالم اسلام میں بھی اعلی صلاحیتیں اجاگر کیں جبکہ یہ صلاحیتیں انہیں خانہِ خدا کی چوکھٹ، پروردگار کی عبودیت اور ولایت پر مکمل عملدرآمد کے ذریعے حاصل ہوئی تھیں۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ دشمن لبنان میں حزب اللہ کی مزاحمت سے پریشان تھا جبکہ اب نہ صرف کئی ایک حزب اللہ وجود میں آ چکی ہیں بلکہ پورے خطے اور بین الاقوامی سطح پر حزب اللہ کا تسلسل بھی برقرار ہے جبکہ یہ صلاحیتوں کی شناخت کے باعث ہے اور ہمیں چاہئے کہ ہم صلاحیتیوں کو پہچانیں اور موقع کے مطابق ان سے کام لیتے ہوئے سامراجی طاقتوں کے خلاف شہامت، شجاعت اور جذبے کے ساتھ پوری تیاری کر کے میدان میں اتریں۔ انہوں نے کہا کہ حاج قاسم سلیمانی حقیقی طور پر ایک انقلابی شخصیت تھے جبکہ وہ موجودہ صورتحال پر کسی طور راضی نہ تھے بلکہ ان کی سوچ اور فکر مکمل طور پر انقلابی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ پوری سمجھ بوجھ اور سوچ و فکر کو عملی میدان میں اتارا جائے اور یہی وجہ تھی کہ وہ موجودہ حالات پر راضی نہ ہوئے اور آگے بڑھتے رہے حتی کہ انہوں نے اپنے نکتۂ نظر پر مبنی ایک بین الاقوامی (مزاحمتی) محاذ تشکیل دے دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اسلامی تمدن کے حوالے سے ایک گہری نظر رکھتے تھے جبکہ پورے خطے میں دین اور الہی اقدار پر مبنی ایک تمدن کا قیام ان کے مطمع نظر تھا، کہا کہ وہ چیز جس نے تمام دشمنوں کو جنرل قاسم سلیمانی کے سامنے لاچار کر کے رکھ دیا تھا، ان کی یہی اعلی و قیمتی سوچ تھی۔

صدر اسلامی جمہوریہ ایران نے تاکید کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی شجاعت و عقلانیت کا عملی نمونہ تھے جبکہ اپنی اعلی شہامت و مزاحمت کے ساتھ ساتھ وہ اعلی تدابیر کے بھی مالک تھے اور اپنے ہدف کی راہ میں میدان میں موجود ہوتے ہوئے وہ حقیقی طور پر خطرات مول لیتے درحالیکہ میدان عمل اور وظیفے کی انجام دہی میں ان کی منطق قیادت کی منطق تھی نہ کہ سیاقت کی، جبکہ ان دونوں کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اگر کسی کی آنکھیں نہ ہوں تو یہ دل کی آنکھوں کے نہ ہونے سے کہیں آسان ہے، کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی نافذ البصیرہ تھے اور جیسا کہ انسان دل کی آنکھوں سے رستہ پہچانتا ہے، دوست و دشمن کی شناخت کرتا اور یہ جانتا ہے کہ وہ دنیا میں کیسی زندگی گزارے، حاج قاسم سلیمانی بھی ایسی ہی بصیرت کے حامل تھے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ 3 جنوری 2020ء کا روز شہید قاسم سلیمانی کے خاتمے کا دن ہو گا، لیکن درحقیقت اس باطل خیال کے برعکس، یہ دن شہید قاسم سلیمانی کی ولادت کا دن بن گیا جبکہ ان کی عمر اس وقت باقی رہے گی جب تک کہ زمین، زمین ہے اور زمان، زمان! آیت اللہ رئیسی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بالکل ویسے ہی جیسا کہ بعض لوگوں نے چاہا تھا کہ عاشوراء کا دن جناب حسین بن علی علیہما السلام، علی اکبر(ع)، قاسم(ع)، عون(ع) و جعفر(ع) کی زندگی کے خاتمے کا دن ہو لیکن عاشوراء، عاشورائیوں کی ولادت کا دن بن گیا، انہوں نے اسی روز اپنی (نئی) زندگی کا آغاز کیا اور وہ کب تک رہیں گے؟.. وہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گے.. جبکہ رہبر انقلاب اسلامی فرما چکے ہیں کہ "شہید" قاسم سلیمانی دشمن کے لئے "جنرل" قاسم سلیمانی سے کہیں زیادہ خطرناک تر ہیں!

آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے وصیت نامے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ حاج قاسم سلیمانی کے وصیت نامے کو انقلاب اسلامی کے جامع منشور کی حیثیت سے زیادہ سے زیادہ رواج ملنا چاہئے اور آج کے معاشرے و نوجوان نسل کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہمارے عزیز سپہ سالار نے ولایت، معاشرے، جوانوں، علماء اور معاشرے کے تمام مصلحین کے بارے کیا نظر دی ہے.. حاج قاسم سلیمانی نے کہا ہے کہ اگر یہ (ولایت کا) خیمہ باقی بچ گیا تو تمام حرم باقی بچ جائیں گے لیکن اگر اس (ولایت کے) خیمے اور اس نظام (ولایت فقیہ) کو ذرہ سا بھی نقصان پہنچ گیا تو جان لیجئے کہ دوسرے حرم بھی خطرے میں پڑ جائیں گے.. جان لیں کہ پوری دنیا کا امن و امان خطرے میں ہے لہذا سب ہی کوشش کریں کہ یہ نظام (ولایت فقیہ) زیادہ وقار و عظمت کے ساتھ باقی رہے.. ہمارے عظیم اقتدار کا یہ خیمہ، ہماری عزت، ہماری آزادی، ہماری خودمختاری، ہمارے دین اور ہماری سعادتمندی کا ضامن ہے۔

صدر اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا کہ (شہادت کے وقت) جنرل قاسم سلیمانی عراقی وزیر اعظم کے سرکاری مہمان تھے.. (اے امریکیو) تم نے ایک شخص کی ٹارگٹ کلنگ نہیں کی بلکہ نہ صرف عراق کی آبرو کو توڑا ہے بلکہ پوری کی پوری قوم کی ٹارگٹ کلنگ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ہولناک جرم کہ جو پوری امت مسلمہ کے لئے انتہائی گراں تھا، کے جواب میں کیا کیا جانا چاہئے؟.. جارح و قاتل اور اصلی مجرم، اس وقت کے امریکی صدر کا محاکمہ کیا جانا چاہئے، اس سے قصاص لیا جانا چاہئے اور اس حوالے سے اس پر حکمِ خدا جاری ہونا چاہئے! انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ٹرمپ و پمپیو سمیت تمام قاتلوں کا ایک عادلانہ عدالت میں محاکمے کا موقع فراہم ہوا اور انہوں نے اپنے اس ہولناک جرم کی سزا پا لی تو فبہا، لیکن اگر ایسا نہ ہو پایا تو میں تمام امریکی حکام کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ شک نہ کریں کہ امتِ اسلامی کا دستِ انتقام عنقریب ہی آگے بڑھنے والا ہے!
خبر کا کوڈ : 971865
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش