QR CodeQR Code

ویانا مذاکرات

عملی میدان میں تاحال امریکہ کا کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آیا جو اسکے کھوئے اعتماد کو واپس لا سکے، امیر عبداللہیان

مغربی ممالک کیجانب سے بھی تاحال کوئی مثبت انیشی ایٹو سامنے نہیں آیا

11 Jan 2022 22:16

عرب چینل الجزیرہ کو دیئے گئے مفصل انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے ایران پر عائد ہر قسم کی تمام پابندیوں کا خاتمہ ہمارے مدنظر ہے تاہم جاری مذاکرات میں جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری کیبعد ایران پر عائد کی جانیوالی تمام پابندیوں کا خاتمہ ضروری ہے


اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے عرب چینل الجزیرہ کو مفصل انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے جاری ویانا مذاکرات، ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے اٹھائے جانے، ایران کی جانب سے پابندیوں کے اٹھائے جانے کی جانچ پڑتال و ضمانت کے مطالبے، جاری مذاکرات پر اثراندازی کی اسرائیلی کوششوں، بعض عرب ممالک کے غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات، جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ اور ایران کے سخت انتقام کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو کی ہے جس کا مختصر خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

حسین امیر عبداللہیان نے میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ اب ویانا میں مذاکرات کے آٹھویں دور کے حوالے سے ایران کا خوش آیند موقف نظر آ رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ کہا کہ اس وقت جاری مذاکرات اپنی صحیح ڈگر پر چل رہے ہیں جبکہ مذاکرات کو صحیح ڈگر پر لانے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے وہ انیشی ایٹو ہیں جو اس نے مذاکرات کی میز پر پیش کئے ہیں۔ انہوں نے معاہدے کی وقوع پذیری کے لئے عائد تمام پابندیوں کے خاتمے پر مبنی ایرانی موقف کے بارے اس سوال کے جواب میں کہ ایران پر متعدد قسم کی پابندیاں عائد ہیں لہذا پہلی نظر میں ایران کون سی پابندیاں ختم کرانا چاہتا ہے؟ کہا کہ ہم جوہری معاہدے (JCPOA) کے متن پر پورا عملدرآمد اور عائد ہر قسم کی پابندیوں کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تاہم جاری مذاکرات کے پہلے مرحلے میں ہم جوہری معاہدے سے متعلق تمام پابندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ مذاکرات کے دوران ایران درحقیقت سیاسی، اقتصادی، قانونی یا سب کی سب، کس قسم کی ضمانت کا خواہاں ہے؟ انہوں نے جوہری معاہدے میں موجود اسنیپ بیک (Snap Back) کے اختیار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم یہ کہ ایرانی تیل کی فروخت، اس کے بدلے وصول ہونے والی زرمبادلہ کی ایرانی بینکوں میں منتقلی اور کشتیرانی، بندرگاہوں، پیٹروکیمیکل و بیمے سمیت کسی میدان میں کوئی مشکل پیش نہ آئے جبکہ اس کی سنجیدگی کے ساتھ جانچ پڑتال بھی کی جائے گی۔

ایرانی وزیر خارجہ نے پابندیوں کے اٹھائے جانے کی ایرانی جانچ پڑتال سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے لئے یہ بات اہم ہے کہ پابندیوں کے اٹھائے جانے کی حقیقی معنی میں صحیح و اطمینان بخش جانچ پڑتال کی جائے جبکہ اس مقصد کے لئے کتنا وقت اور کیا اقدامات درکار ہیں، یہ مذاکرات کی میز پر طے کیا جائے گا۔ حسین امیر عبداللہیان نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ نے یورپی رابطہ کاروں کے ذریعے ایران و امریکہ کے درمیان ردوبدل ہونے والے پیغامات کے ذریعے ایرانی جوہری معاہدے کے بارے امریکی موقف میں کوئی تبدیلی دیکھی ہے؟ کہا کہ (جاری مذاکرات کے) ردعمل کے طور پر امریکہ کے سلوک میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی کہ جس کے باعث اس سے متعلق بے اعتمادی کو کم کیا جائے۔ میزبان نے یورپی مثلث کی جانب سے مذاکرات کے لئے میعاد کے تعین اور ایران کی جانب سے کسی میعاد کے قائل نہ ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ 3 یورپی ممالک کی جانب اسنیپ بیک کے ممکنہ استعمال پر پریشان نہیں کہ جو کہتے ہیں کہ فروری تک مذاکرات مکمل ہو جانے چاہئیں، جبکہ اس کے بعد ایرانی جوہری پروگرام فنی مرحلے سے نکل کر سکیورٹی کے مرحلے میں داخل ہو جائے گا؟ جس کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے مذاکرات میں تاحال مغربی ممالک کا سنجیدہ ارادہ یا سیدھی نیت نہیں دیکھی ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے کوئی مثبت انیشی ایٹو ہی نظر آیا ہے درحالیکہ ایران کی جانب سے روشن اور قابل دسترسی انیشی ایٹو پیش کئے جا چکے ہیں لہذا میرا خیال ہے کہ مغربی ممالک معاہدے میں فورا واپس پلٹنے کو تیار نہیں اور اس حوالے سے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ اسرائیل مسلسل دھمکیاں دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ہم ایرانی جوہری مراکز کو نشانہ بنائیں گے تو اگر اس نے اپنی دھمکیوں کو عملی شکل دے دی تو آپ کا جواب کیا ہو گا؟ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غاصب صیہونی، ایران و 5 ممالک کے درمیان طے پانے والے کسی بھی اچھے معاہدے پر اثرانداز ہونے کی کوشش میں ہیں اور ایسے دعوے کرتے ہیں کہ جو اس جعلی رژیم کے چھوٹے قد کاٹھ سے کہیں بڑے ہیں جبکہ ویانا مذاکرات کے حوالے سے ہم غاصب صیہونی رژیم کو کسی حساب کتاب میں رکھتے ہیں اور نہ ہی ویسے اس کی کوئی پرواہ کرتے ہیں! انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آپ سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے پانچویں دور میں بیٹھنے جا رہے ہیں تو کیا آپ نے سعودی عرب کو آج تک دی گئی پیشکشوں کا کوئی مثبت جواب بھی پایا ہے؟ کہا کہ ہم نے عراق میں سعودی عرب کے ساتھ 4 مثبت و پیشرفت کے حامل مذاکراتی دور مکمل کئے ہیں جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ جب بھی سعودی عرب تیار ہو تو دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات معمول پر آ جائیں گے، مزیدبرآں یہ کہ ہم سفارتخانوں اور کونسلخانوں کے دوبارہ افتتاح کا خیرمقدم کرتے ہیں درحالیکہ ہمارے سفارتکار بھی عنقریب ہی اسلامی تعاون تنظیم کے ایرانی نمائندہ دفتر میں تعینات ہو جائیں گے۔ انہوں نے یمن پر مسلط سعودی جنگ کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یمن کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے جبکہ اس پر مسلسل جارحیت کو 6 سال مکمل ہو چکے ہیں اور ہماری نظر میں اس جنگ کا نہ صرف یمن و سعودی عرب کو نقصان ہے بلکہ پورے خطے کو بھی ہے کیونکہ وہ سرمایہ جو بڑے مسلم ملک کی حیثیت سے سعودی عرب اپنے شہریوں سمیت پورے خطے کی ترقی کے لئے خرچ کر سکتا تھا، اب مظلوم یمنیوں پر بم برسانے میں استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہم نے بارہا تاکید کی ہے کہ یمنیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بناء پر ہم ثالثی کرتے ہوئے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے میں مدد پیش کر سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یمنی جنگ میں فوجی اعتبار سے جیتنے والا کوئی بھی نہ ہو گا۔

حسین امیر عبداللہیان نے خطے میں اپنے اثرورسوخ اور اپنے بیلسٹک میزائلوں کے حوالے سے مذاکرات نہ کرنے پر مبنی ایرانی موقف کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ کیا چیز ہے جو خطے میں ایران کے اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بنی ہے؟ ہم حاج قاسم سلیمانی عزیز کی ٹارگٹ کلنگ کی دوسری برسی کے موقع پر آج انتہائی فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے کے تمام حالات میں ہمیشہ مثبت و تعمیری کردار ادا کیا ہے اور اگر خطے کی اقوام خصوصا عراق و شام کی مدد اور داعش و دوسرے دہشتگردوں سے مقابلے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی اور اسلامی جمہوریہ ایران کا مرکزی کردار نہ ہوتا تو شاید آج مکہ مکرمہ بھی داعش کے انتہاء پسند تکفیریوں کے قبضے میں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کچھ سالوں کے دوران خطے کے دفاع میں بہت زیادہ شہداء دیئے ہیں اور ایران کے اسی اقدام نے خطے میں اس کا اثرورسوخ بھی پروان چڑھایا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاعی میزائل اب بھی خطے کے دشمنوں، عالم اسلام کے دشمنوں، ہمارے ہمسایوں کے دشمنوں اور ایرانی عوام کے دشمنوں کے لئے پوری طرح تیار ہیں جبکہ خطے کے ہمسایوں، دوستوں، خطے کے مکینوں اور اسلامی دنیا کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کے امن و استحکام کی پیشرفت، وسعت اور ضمانت کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہا ہے!

ایرانی وزیر خارجہ نے غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ بعض عرب ممالک کے دوستانہ تعلقات کے بارے میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنے والے متحدہ عرب امارات کو ایران اپنا اولین دشمن قرار دے گا؟ یا یہ کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنے والے امارات کے ساتھ تضاد پر مبنی تعلقات کیسے استوار کرے گا؟ کہا کہ بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری ایک تلخ اور ناگوار حادثہ اور ایسی غلط سوچ کا نتیجہ تھا کہ جو سب سے پہلے انہی ممالک کو نقصان پہنچائے گا اور پھر خطے کے امن و استحکام کو بھی متزلزل کر دے گا کیونکہ صیہونی نیل سے لے کر فرات تک کی زمین پر قبضہ جمانے کی سازش میں تھے جبکہ فلسطینی مزاحمتی محاذ نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انتہائی فخر کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی مزاحمتی محاذ کے ساتھ کھڑا اور ہمیشہ اس کی مدد کرتا رہے گا اور اسلامی سرزمینوں کو یکے بعد دیگرے صیہونی چنگل میں پھنسنے نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی جب اس رستے سے ناامید ہو گئے تو انہوں نے دوستانہ تعلقات کے ذریعے اپنا وہی ہدف حاصل کرنے کا نیا گھناؤنا منصوبہ تیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دوستانہ تعلقات کی جانب جانے والے دوستوں کو کھل کر خبردار کیا تھا کہ انہوں نے غلط طریقہ کار اپنا لیا ہے کہ جس کا نقصان دوسروں کو پہنچنے سے پہلے خود انہی کو پہنچے گا جبکہ ہمیں امید ہے کہ ہمارے خطے میں جاری اس غلط رویے کی جلد ہی اصلاح کر لی جائے گی۔

انہوں نے مستقبل قریب میں ایرانی صدر کے دورہ ماسکو کے بارے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران و روس کے درمیان ممکنہ تزویراتی و لمبے عرصے کا معاہدہ جو تیار کیا جا رہا تھا، تیار ہو چکا ہے؟ کہا کہ نئی ایرانی حکومت کی خارجہ سیاست، جاندار و ہوشیار سفارتکاری پر مبنی ایک متوازن سیاست ہے جس میں مشرق و مغرب کے ساتھ ایک ہی وقت میں تعلقات رکھے جاتے ہیں جبکہ اگر ہم نے "لا شرقیہ ولا غربیہ" کو اپنی وزارت خارجہ کا منشور بنا رکھا ہے اور اسے اپنے آئین میں بھی باقی رکھا ہوا ہے تو یہ درحقیقت ملک کی سیاسی خودمختاری کا علمبردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ تعلقات کے حوالے سے ہم مشرق کے ساتھ ساتھ مغرب کے سے بھی تعلقات برقرار رکھیں گے اور اسی حوالے سے ہمسایوں کی ترجیح کی بنیاد پر صدر آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا تیسرا دورہ عنقریب ہی روس میں انجام پائے گا جہاں دونوں ممالک کے درمیان لمبے عرصے کا ایک تزویراتی معاہدہ بھی دستخط کیا جائے گا۔

میزبان نے اپنی گفتگو کے آخر میں جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے بارے یہ سوال پوچھا کہ تب سے ہم سن رہے ہیں کہ ایران مدمقابل کو اس ٹارگٹ کلنگ کی قیمت چکانے پر مجبور کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ اس ٹارگٹ کلنگ پر "سخت" انتقام لیا جا سکے، تو کیا مدمقابل نے یہ قیمت چکا دی ہے؟ جس پر حسین امیر عبداللہیان کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ کہ ہم اس بات پر خوش ہیں کہ امریکہ کو جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی پر ہی اس عراق سے نکلنا پر رہا ہے کہ جس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے حاج ابومہدی المہندس اور جنرل قاسم سلیمانی کو رفقاء سمیت ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا تھا اور ثانیا یہ کہ سابق حکومت کے ساتھیوں کی جانب سے انجام پانے والی قانونی کاوشوں کے ہمراہ پوری قانونی و بین الاقوامی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے قاتلوں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا عنقریب ہی مثبت نتیجہ نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس گھناؤنے جرم کا انتقام لینے والی دراصل عراق و ایران کی عوامی رائے عامہ ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جسے عراق و ایران، دونوں ممالک کے عوام کبھی بھول نہ پائیں گے۔


خبر کا کوڈ: 973077

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/973077/عملی-میدان-میں-تاحال-امریکہ-کا-کوئی-ایسا-اقدام-نظر-نہیں-آیا-جو-اسکے-کھوئے-اعتماد-کو-واپس-لا-سکے-امیر-عبداللہیان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org