0
Friday 14 Jan 2022 02:02

قومی اسمبلی میں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بلز کثرت رائے سے منظور

قومی اسمبلی میں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بلز کثرت رائے سے منظور
اسلام تائمز۔ قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں حکومت کامیاب ہوگئی، ایوان میں مالیاتی بل 2021ء کثرت رائے سے مںظور کرلیا گیا جب کہ اپوزیشن کی پیش کردہ تمام ترامیم مسترد ہوگئیں۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے فنانس بل کی منظوری کے لیے طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں فنانس بل پر چوتھے دن بھی بحث ہوئی۔ ایوان میں وزیراعظم عمران خان بھی موجود رہے۔ اجلاس میں ضمنی مالیاتی بل کی چھ شقیں ایک ایک کرکے منظور ہوئیں۔ وزیراعظم کی آمد پر اپوزیشن نے نعرے بازی کی۔ وزیراعظم عمران خان ایوان میں پہنچے تو حکومتی ارکان نے ڈیسک بجاکر استقبال کیا جبکہ اپوزیشن ارکان نے چور چور کے نعرے لگائے جس پر حکومتی ارکان نے زور دار طریقے سے ڈیسک بجانے شروع کردیں تاکہ اپوزیشن ارکان کے نعرے اس شور میں دب جائیں۔

اجلاس کے دوران ضمنی مالیاتی بل میں ترامیم کے لیے اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ متعدد تحاریک کثرت رائے سے مسترد ہوگئیں۔ اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی، پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر ارکان نے پیش کیں تاہم تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد ہوگئیں۔ محسن داوڑ نے زبانی رائے شماری کو چیلنج کر دیا تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے محسن داوڑ کی بات سنی ان سنی کردی۔ اپوزیشن ارکان پلے کارڈز لے کر کھڑے ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کی ضمنی بجٹ پر ترمیم پر اسپیکر قومی اسمبلی کی زبانی رائے شماری ہوئی تاہم اپوزیشن نے زبانی رائے شماری کو چیلنج کر دیا۔ اسپیکر نے ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں کو نشستوں پر کھڑا ہونے کا کہہ دیا، گنتی ہوئی تو حکومت کے ووٹ زیادہ نکلے۔

اپوزیشن کی ضمنی بجٹ پر عوام سے رائے لینے کے لیے دی گئی ترمیم بھی مسترد ہوگئی۔ اپوزیشن کی جانب سے ضمنی بجٹ کی شق نمبر تین کے لیے ترمیم پیش کی گئی کہ ضمنی بجٹ پر عوام سے رائے لی جائے۔ تجویز کے بعد اسپیکر نے ووٹنگ کرائی جس میں حکومت نے اپوزیشن کو شکست دے کر تجویز مسترد کردی۔ حکومت کو اس تجویز کے خلاف 168 ووٹ ملے جب کہ اپوزیشن حق میں 150 ووٹ حاصل کرسکی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایوان کو بتایا جائے کہ اس کی کیا ضرورت پیش آئی؟، سپلیمنٹری فنانس بل میں اتنا ٹیکس کبھی سامنے نہیں آیا، فنانس، بل کا اثر غریب آدمی پر آئے گا اور اس بل کے بعد بے پناہ مہنگائی آئے گی جب کہ تیل اور بجلی کی قیمتیں بھی ہر ماہ بڑھ رہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر خزانہ ایک طرف کہہ رہے کہ وہ روٹی، ڈبل روٹی کی ترامیم مان رہے ہیں، اگر وہ مان رہے ہیں تو پھر ہماری ترامیم کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ وزیرخزانہ یہ بھی کہتے ہیں انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اپوزیشن کیوں شور مچا رہی ہے؟، ہم آپ کا کراچی گھر کا ایڈریس جانتے ہیں، جائیں عوام سے پوچھیں وہ کیوں شور مچا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ عوام کے پاس نہیں آئیں گے تو ہم عوام کو آپ کے پاس لے آئیں گے اور آپ سے پھر پوچھیں گے مہنگائی کیوں؟ آپ اتنے ہی سنجیدہ ہیں تو اس آئی ایم ایف کے بجٹ کو مسترد کریں، ہمارے ساتھ آئیں ہم ان معاشی حالات سے عوام کو نکالیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے اعتراضات پر حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ کو جواب دینے کا کہا تاہم وزیر خزانہ شوکت ترین کو جواب دینے میں مشکل پیش آئی۔ شوکت ترین نے کہا کہ یہ صورتحال صرف تین سال کی وجہ سے نہیں ہوئی، یہ صورتحال گزشتہ تیس سال کی ہے، جو سابق حکومتیں رہی ہیں ان کا کام تھا کہ وہ اس وقت اقدام اٹھاتیں، میں اس سے زیادہ کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ مزید اعتراضات پر شوکت ترین نے ارکان اسمبلی کو کہا کہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ اتنا بڑا بل کیوں لے آئے، کیا واویلا مچا ہوا ہے کہ طوفان آگیا، بیکری اشیاء، دودھ، سولر پینلز اور لیپ ٹاپ پر ٹیکس نہیں لگا رہے، جب میں تقریر کروں گا تو آپ کو پتا چل جائے گا، حکومت ڈاکیومنٹیشن چاہتی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ دوستوں کا شور مچ رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے برباد کر دیا اور ہماری خود مختاری پر سودے بازی ہورہی ہے، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تیرہ بار آئی ایم ایف کے پاس گئے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے تیرہ مرتبہ ملک کی خودمختاری کو داؤ پر لگایا۔ شوکت ترین نے کہا کہ حالات کے پیش نظر ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اور ہم مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس گئے، ملکی برآمدات گزشتہ حکومت سے 50 فیصد زائد ہیں، رواں سال برآمدات 31 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی، کورونا کے باوجود معشیت ترقی کررہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 973469
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش