0
Saturday 26 Sep 2020 14:35
دشمن کے ایجنٹ کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھیڑیئے ہیں

فرقہ واریت کو پروان چڑھانے والے افراد کے مقابلہ میں معتدل علمائے کرام کو سامنے آنا ہوگا، علامہ امین شہیدی

جو گروہ بھی مسالک کے درمیان اختلاف پیدا کرکے انہیں آپس میں لڑانے کی بات کرتا ہے، وہ دشمن کا ایجنٹ ہے
متعلقہ فائیلیںاسوقت عالمی سیاست کے منظرنامہ میں مسئلہ فلسطین پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اسرائیل، امریکہ اور انکی ہم نوالہ و ہم پیالہ عرب ریاستیں GreaterIsrael کے منصوبہ پر ملکر کام کر رہی ہیں۔ عرب پٹھو ریاستوں نے امن معاہدہ کے ذریعے اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے، جسکی وجہ سے فلسطین اور اسکی تحریک آزادی کے حامی ممالک شدید غم و غصہ میں ہیں۔ عالم اسلام کی مسئلہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لئے خطہ کے چند ممالک میں فرقہ وارانہ فضا قائم کی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اس صورتحال سے متاثر ہوا ہے اور گذشتہ کئی ماہ سے مذہبی منافرت اور تعصب پھیلانے والی قوتوں کی زد میں ہے۔ امت واحدہ پاکستان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ محمد امین شہیدی نے اسلام ٹائمز کیساتھ اس سیاسی منظرنامہ پر تفصیلی گفتگو کی، جو ہم اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: فرقہ واریت کی موجودہ لہر کے پسِ پشت کون سے محرکات اور عوامل کارفرما ہیں۔؟
علامہ امین شہیدی:
فرقہ واریت کی موجودہ لہر کا تعلق بین الاقوامی سیاسی منظرنامہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہے۔ چونکہ امریکہ GreaterIsrael کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے، لہذا اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے وہ عرب پٹھو ممالک سے اسرائیل کی حیثیت منوانے میں مصروف ہے۔ دو عرب ممالک "امن معاہدہ" کے نام پر اسرائیل کو قبول کرچکے ہیں جبکہ باقی پٹھو اسی قطار میں کھڑے ہیں۔ مسئلہ فلسطین جو عالمِ اسلام کا حساس ترین موضوع ہے، کو پسِ پشت ڈالنے، عالمِ اسلام کی خواہشات کے برعکس اس کا فیصلہ کرنے اور اس کے مستقل سیاسی حل کی تلاش کی کوششوں میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے فرقہ وارانہ فضا کو قائم کیا گیا۔ شیعہ سنی کا مسئلہ فلسطین پر مشترکہ مؤقف ہے اور وہ فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کی بھرپورحمایت کرتے ہیں؛ اس لئے ان کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی سازش کی گئی۔ پاکستان، انڈیا اور چند عرب ممالک میں فرقہ وارانہ مسائل کو بڑھاوا دیا گیا، تاکہ لوگ ان مسائل میں الجھے رہیں؛ عرب ممالک باآسانی اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور مکتبِ تشیع ان کا اصل مسئلہ اور ہدف بن جائے۔ حال ہی میں امامِ کعبہ نے اپنے جمعہ کے خطبہ میں اسرائیل کو اپنا دوست و خیرخواہ قرار دیا ہے، اس سے قبل وہ برسرِ منبر اہلِ تشیع کی توہین کرتے رہے ہیں، تاکہ لوگ شیعہ برادری سے دُور اور متنفر ہو جائیں۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک سال قبل ہی فرقہ وارانہ فضا کو ہموار کرنے کا آغاز ہوچکا تھا۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں مقامی طور پر فرقہ وارانہ فضا کیلئے ماحول سازی میں کن عناصر نے کردار ادا کیا ہے۔؟
علامہ امین شہیدی:
کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے چند عہدیدار گذشتہ کئی ماہ سے منبر پر بیٹھ کر اہلِ بیت علیہم السلام کی ہرزہ سرائی میں مسلسل مصروف تھے، یہاں تک کہ ان تکفیریوں نے چند بریلوی ہمنوا بھی پیدا کر لئے؛ اس مقصد کے لئے پیسہ باہر کا اور زبان مقامی استعمال ہوئی۔ قرآن حکیم میں خدا تعالیٰ کا واضح ارشادہے: وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمہاری ہوا بگڑ جائے) اس فرقہ وارانہ ماحول سازی کے نتیجہ میں ہم نے دیکھا کہ حال ہی میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر ملک میں مسلکی وحدت نظر نہیں آئی جبکہ پہلی بار ان خاکوں کی اشاعت پر پورا پاکستان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں فرقہ واریت کے ذریعے بیرونی طاقتیں کن اہداف کے حصول میں کوشاں ہیں۔؟
علامہ امین شہیدی:
ایک طرف اسرائیل اور امریکہ کا مسئلہ فلسطین کو حسبِ منشاء حل کرنے کا مقصد عرب ریاستوں کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے؛ تو دوسری جانب خطہ کے باقی ممالک کی معیشت کو کمزور کرنا ہے، تاکہ کوئی بھی ملک امریکہ سے آنکھ ملا کر بات نہ کرسکے۔ پاکستان کے چین سے مضبوط اقتصادی تعلقات امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں؛ اس لئے امریکہ نے پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والے گیم چینجر سی پیک پراجیکٹ میں سعودی حکومت کے ذریعے شامل ہونے کی کوشش کی، لیکن چین نے پاک سعودی معاہدہ میں ترامیم کے ذریعے امریکہ کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔ ملک کے امن و امان کو خراب کرنے کے لئے بھی فرقہ وارانہ فضاء بنائی گئی، تاکہ اس اہم ترین پراجیکٹ سے ریاستی اداروں کی توجہ بٹ جائے اور سی پیک کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ اگر سعودی عرب اپنی شمولیت کے ذریعے امریکہ مخالف لابی کے خلاف اقدامات کرے گا تو بھی اس منصوبہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے اہم یہ کہ اس خطہ میں طالبانائیزیشن کا خاتمہ ہونے کو ہے اور افغانستان مکالمہ کے ذریعے امن کی جانب گامزن ہے؛ لہذا خطہ میں امن کا مستقل قیام امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ تاثر کس حد تک درست ہے کہ "پیغامِ پاکستان" عملی طور پر ایک غیر مفید دستاویز ہے۔؟
علامہ امین شہیدی:
پیغامِ پاکستان مسلم امہ کو وحدت کی دعوت دینے والی دستاویز ہے۔ اس دستاویز کے فروغ سے پاکستان اور مسلم امہ کو فائدہ ہوگا، لیکن اس کی حوصلہ شکنی سے شدت پسند اور فرقہ وارانہ تعصب رکھنے والے عناصر کو تقویت حاصل ہوگی۔ اگرچہ اس دستاویز پر ملک کے جید علماء کی اکثریت نے دستخط کیے ہیں لیکن ایک بڑے طبقہ نے اس کے متن کو نچلی سطح تک پہنچنے نہیں دیا اور اعتراض در اعتراض کے نتیجہ میں اس کے نفاذ کو مشکلات کا شکار بنا دیا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اس دستاویز کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے زمینی اقدامات کریں۔ منبر و مساجد، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعے پیغامِ پاکستان کی روح کو عام کیا جائے اور ہر مسلمان کو تکفیر، توہین اور ہر وہ عمل جو فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کا سبب بنے، سے روکا جائے؛ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس دستاویز کی افادیت باقی نہیں رہے گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو ایک بار پھر مذہبی انتہاء پسندی کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے علمائے کرام اور مذہبی جماعتیں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔؟
علامہ امین شہیدی:
اگر مذہب کے نام پر اختلاف پیدا کیا جائے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جائے تو اس انتہاء پسندی کو لبرل ازم اور سیکولرازم کے ذریعے روکنا آسان نہیں ہے؛ مذہبی شدت پسندی کو روکنے کے لئے مذہب کا ہی سہارا لیا جا سکتا ہے۔ مذہب کا مثبت استعمال ضرور ہونا چاہیئے۔ فرقہ وارانہ تعصب کو پروان چڑھانے والے شدت پسند افراد کے مقابلہ میں معتدل علمائے کرام کو سامنے آنا ہوگا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو چاہیئے کہ وہ منبر و محراب سے لوگوں کو صلح، امن اور باہمی محبت کا پیغام دیں اور فرقہ وارانہ شدت پسندی کے خلاف مل کر کھڑے ہو جائیں۔ مذہبی رواداری کے حوالے سے اگر علمائے کرام مشترکات پر کام کریں اور عوام الناس کو ایک دوسرے کے مقدسات کے احترام کا درس دیں تو فرقہ واریت کی مارکیٹ سجانے والوں کی دکانیں زیادہ دیر تک نہیں چلیں گی؛ کیونکہ ان کا مسئلہ پیٹ اور روٹی ہے،لیکن ان کے مقابلہ میں دین کے مشترکات پر کام کرنے والوں کے پیشِ نظر دنیا و آخرت دونوں ہیں اورک امیابی انہی لوگوں کا مقدر ہے۔ جیسے جیسے انسانی معاشرہ عقل و شعور کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے، ویسے ویسے وہ منفی قوتوں کے ہتھکنڈوں سے ہوشیار اور بیزار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان تمام پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت فکر کے حامل علمائے کرام فرقہ واریت کے جِن کو باآسانی قابو کرسکتے ہیں اور پاکستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں ریاستی عناصر اور حکومتیں ملک کے حالات بگاڑنے میں ملوث رہی ہیں،  کیا اب انکا کردار تسلی بخش ہے۔؟
علامہ امین شہیدی:
 اِس وقت پاکستان تاریخی اعتبار سے نہایت حساس موڑ پر کھڑا ہے۔ اس سے قبل افغان جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا، روسی افواج سے جہاد کے نام پر لاکھوں پاکستانی، قبائلی اور افغان شہریوں کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ نتیجتاً پاکستان ترقی کی دوڑ میں کئی ممالک سے پیچھے رہ گیا۔ ماضی میں ایسی پالیسیز بنانے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ آج کی دنیا ایسی پالیسیز کی متحمل نہیں ہے؛ خطہ میں نئے بلاکس کی تشکیل ہو رہی ہے۔ روس اور چین ساتھ کھڑے ہیں اور امریکہ ان دونوں کا حریف ہے۔ ماضی میں پاکستان، روس کے مقابلہ میں امریکہ کے ساتھ کھڑا تھا لیکن موجودہ سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوچکا ہے اورخطہ کے ممالک کا جھکاؤ امریکہ کی بجائے چین کی طرف ہے۔ امریکہ کی مفاد پرست پالیسیوں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اس کے لئے پاکستان کی حیثیت محض آلہ کار کی ہے۔

اسلام ٹائمز: مکتبِ تشیع اور تسنن کے پیروکار دشمن کے ایجنٹ اور کالی بھیڑوں کی شناخت کیسے کرسکتے ہیں۔؟
علامہ امین شہیدی:
یہ کام بہت آسان ہے! جو گروہ بھی مسالک کے درمیان اختلاف پیدا کرکے انہیں آپس میں لڑانے کی بات کرتا ہے، وہ دشمن کا ایجنٹ ہے اور اس کے مقابلہ میں جو گروہ لوگوں کو اخوت اور یکجہتی کی دعوت اور ملکی سالمیت کے لئے مل کر کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے، وہ دین اور وطن دونوں کا وفادار ہے۔ دشمن کے ایجنٹ کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھیڑیئے ہیں۔ ان بھیڑیوں کی شناخت نہایت آسان ہے؛ ان کی شناخت ان کا پیٹ ہے، خواہ یہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ کالعدم سپاہ صحابہ اور اس جیسی دیگر تنظیمیں گذشتہ چالیس سالوں سے لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیاد پر لڑانے کا کام کرتی رہی ہیں۔ اپنے مخالفین پر جھوٹ باندھنا، تہمت لگانا اور ان کی کردار کشی کرنا، ان تنظیموں کا بنیادی ہدف ہے۔ کرپشن، اسلام دشمنی اور ناصبیت میں یہ صفِ اول پر کھڑے ہیں۔ بنابراین ایسے لوگوں کو اپنی صفوں سے نکالنا ہر معتدل عالمِ دین کی ذمہ داری ہے؛ ایسے لوگوں کا تعلق خواہ کسی بھی فرقہ سے ہو، ان کے اصل چہروں کو بےنقاب کرنا بیحد ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 888566
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش