QR CodeQR Code

بھیرہ، معروف فلسفی احمد جاوید کا "عصر حاضر میں خدمت دین کے عملی تقاضے" فکری نشست سے خطاب

26 Feb 2021 17:40

اسلام ٹائمز: معروف فلسفی نے بھیرہ میں علمی نشست سے خطاب میں کہا کہ اتنے بڑے بحران میں علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ عام آدمی کے دین کو بچانے والے کا کردار ادا کریں، اب الحاد کا وائرس مسلم سوسائیٹیز میں داخل ہوچکا ہے، آپکی تبلیغ سے وہاں مغرب میں کم لوگ مسلمان ہوتے ہیں، یہاں یورپ کی ڈائریکٹ تبلیغ کے بغیر زیادہ لوگ ملحد ہو رہے ہیں، اگر اس ذمہ داری عطا کرنیکی صلاحیت اپنے اندر نہ پیدا کی گئی، استدال پیدا نہ کیا اور دلیل نہ لائے تو صرف دین کو ماننے والے کہلا سکتے ہیں، جاننے والے نہیں۔


رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

دارالعلوم غوثیہ بھیرہ ضلع سرگودہا میں سابق وفاقی وزیر پیر امین الحسنات کی میزبانی میں "عصر حاضر میں خدمت دین کی عملی جہات" کے عنوان سے ایک روزہ فکری و تربیتی نشست منعقد ہوئی۔ فکری نشست سے معروف فلسفی اور مجلس ملی شرعی کے سربراہ احمد جاوید نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترک معصیت اور ترک غفلت بنیادی امر ہے، میں اپنے معبود سے غافل نہ رہوں اور میں اپنے معبود کا نافرمان نہ بنوں، اگر یہ میزبان پوری شدت اور پورے شکوہ کیساتھ مدارس میں نصب نہ کی گئی تو دینی تعلیم بھی اور کتابوں کا پڑھ لینا بھی دین کی خدمت میں صرف نہیں ہو پائے گا۔ جیسے روشنی پھیلانے کیلئے خود کو روشن کرنا ہوگا، ورنہ کیسے روشنی پھیلاو گے، ایک تو یہ کہ تربیت کو اس کا پورا حق ملنا چاہیئے، دوسرے مدارس کو نظر رکھنی چاہیئے کہ اندر اور باہر کے جو فتنے دین پر اثرانداز ہو رہے ہیں، ان پر نطر رکھی جائے۔

پہلا اندرونی چیلنج، حب دنیا:
ایسا اندرونی چیلنج جو دین سے تعلق نہیں پیدا ہونے دیتا، جس کی وجہ سے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی دینی نہیں، وہ حب دنیا ہے۔ دین کی نفسیات کا سنگ بنیاد یہ ہے کہ دل حب دنیا سے سو فیصد پاک ہو، اللہ پاک کی محتاجی کے جذبے کیساتھ حب دنیا سے پاک دل ہی دینی شعور پیدا کرنے کا پہلا معلم ہے۔ اب تو مشائخ بھی زہد کا موضوع نہیں اٹھا رہے، مسجدوں میں پردے، عفت، صفا اور جہاد کا ذکر نہیں ہو رہا۔ کوئی لیڈر یہ کہے کہ زاہد بنو تو وہ میری گاڑی دیکھیں گے۔ لیکن حب دنیا چونکہ شرک جیسی ایک چیز ہے، اس لیے اس پر کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ دل کی گہرائی میں اس جگہ جا کر محبوب بنتی ہے، جو اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے خاص ہے، یہ اس سے کم محبوب بننے پہ راضی نہیں ہوتی اور ہم نے برضا و رغبت حب دنیا کو دل میں وہ جگہ دے دی ہے۔ حدیث میں ہے کہ تمام معاصی کی جڑ حب دنیا ہے، یہ ہمارا داخلی چیلنج ہے اور حب مال عوام کا مرض بن گیا ہے اور حب جاہ خواص کا مرض بن گیا ہے۔ اس سے پیچھا چھڑائے بغیر ہم دین کی دعوت کے مدعو ہی نہیں بن سکتے تو داعی کیا بنیں گے۔ اس شرط کے بغیر عالم کسی کو عالم ہونے کا فائدہ نہیں دے سکتا، یہ شرط عام ہے۔

دوسرا چیلنج دل مدار نہیں بلکہ زمانہ ذہن مدار ہے:
دوسرا چیلنج یہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کو یہ مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے آدمی ہونے میں کمی ہے۔ ارتقائی مراحل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ ہیں، جن میں مراحل طے کرنے میں کمی ہے۔ اس بارے میں بھی بڑی ذمہ داری عالم کی ہے۔ علماء کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب دل مدار قبول نہیں بلکہ ذہن مدار قبول ہے، جسے پیراڈائیم شفٹ کہتے ہیں، ذہن اگر تشکیک میں ہوگا تو بات نہیں سنی جائیگی، دعوت دین کیلیے دلیل ضروری ہے، دینی تعلیم سے تشکیل پانے والا ذہن دنیاوی تعلیم سے بننے والے ذہن سے تعقل، فہم، استدلال کے ذریعے دعوت پہنچانے میں کم تر کیوں ہے؟ اور کم تر ہے۔ مجھے ایسے لوگ بھی ملتے ہیں، جو بالکل سچے مسلمان ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ علماء سے بات کرنے کیلئے ہمیں اپنی سطح نیچے کرنا پڑتی ہے، کیونکہ وہ ہمارے سوال ہی نہیں سمجھ پاتے، جواب کیا دینگے، ذہن اختصاصی تعلیم سے نہیں بنتا، ذہن اس تعلیم سے بنتا ہے، جس کے نتائج دنیا ہی میں سامنے آئیں۔ جس میں دنیا کی افادیت بھی ہو، یہ کشش لاشعوری اور غیر ارادی طور پر ہے، انسان میں۔ دوسری زبانیں بھی سیکھنا ہونگی۔

اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ خدا کیلئے نہ آدمی کے ذہن میں کوئی جگہ رکھی گئی ہے نہ دنیا میں، جن لوگوں سے وسائل لینے کیلئے ہم اپنے آپ کو مجبور بنا چکے ہین، ان لوگون نے خاص مقصود تک پہنچنے کیلئے اس دنیا اور اس دنیا سے مناسبت رکھنے والا شعور بنایا ہے، وہ شعور یہ بنایا گیا ہے کہ خدا انسان کے بچپن کی ضرورت تھا، اب انسان اپنے سب مسائل حل کرسکتا ہے۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مسلمان دکھائیں کہ سوشل جسٹس کہاں ہے؟، اعلیٰ سے ادنیٰ تک قانون کی حکمرانی کہاں ہے؟، ماضی میں دنیا کو مسخر کر لینے کی طاقت پر تکیہ کر لینے کی عادت ہمیں چھوڑنی پڑیگی۔ اسی طرح دینی علم پر سب سے بڑی ذمہ داری ہے رد الحاد۔ یہ فروعی اختلاف تو بچگانہ سے ہیں، اس سے آخرت اور ایمان کا کوئی نقصان نہیں ہے، اصل چیلنج یہ ہے کہ آج خدا کو انسان کے باطن اور پورے نظم وجود سے نکالا جا رہا ہے، اس کائنات کو غیر مخلوق مانا اور منوایا جا رہا ہے، انسان کو زمین سے اگنے والا مرحلہ وار وجود ثابت کیا جا رہا ہے، لیکن ہماری طرف سے اسکا کوئی جواب نہیں ہے۔

میں ایک کتاب بھی مسلم علماء کی نہیں جانتا جس میں دور جدید کے اٹھائے گئے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہو، پورے عالم اسلام کی بات کر رہا ہوں۔ اس اتنے بڑے بحران میں علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ عام آدمی کے دین کو بچانے والے کا کردار ادا کریں، اب الحاد کا وائرس مسلم سوسائیٹیز میں داخل ہوچکا ہے، آپ کی تبلیغ سے وہاں مغرب میں کم لوگ مسلمان ہوتے ہیں، یہاں یورپ کی ڈائریکٹ تبلیغ کے بغیر زیادہ لوگ ملحد ہو رہے ہیں، اگر اس ذمہ داری عطا کرنیکی صلاحیت اپنے اندر نہ پیدا کی گئی، استدال پیدا نہ کیا اور دلیل نہ لائے تو صرف دین کو ماننے والے کہلا سکتے ہیں، جاننے والے نہیں۔

دینی شعور، تعمیل اور دین کا حامل ہونا:
سب سے سادہ بات جس سے ہر آدمی فائدہ اٹھا سکتا ہے، وہ یہ کہ دین ہم سے تین تقاضے کرتا ہے، ایک تقاضا ہے تسلیم کا، اپنے شعور کا مرکز بناو ایمان۔ دوسرا تقاضا ہے تعمیل کا، یعنی اپنے اعمال کی بنیاد احکام کو بناو، تیسرا تقاضا ہے تحویل کا، یعنی دین کا عالم نہ بنو صرف، بلکہ دین کا حامل بنو۔ یہ آج کل ذرا کم ہی پورا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور کم از کم اجتماعی نوعیت کا کوئی مظہر نہیں رکھتا۔ سچ بات یہ ہے کہ جو اللہ سے تعلق میں سچا ہے، دنیا اس پر اپنے تعلق کے دروازہ بند کر دیتی ہے، تو ہم اللہ کے قریب جانے والے کو عملی طور پر اپنے سے دور کرتے ہیں، یہ خطرات بہت بڑے ہیں، لیکن انکا مقابلہ کرنیکی تیاری ہمارے علماء میں نظر نہیں آتی، لیکن ہمارے سلف ایسے نہیں تھے، اگر ابوحنیفہ اور غزالی سے کوئی دہریہ جا کر بات کرے اور ایمان نہ لائے اور توبہ کرکے نہ اٹھے، اس بے وفائی کی فضا میں کام کرنا ہے، اب مجھے بتایئے کہ کوئی عالم ہے جس کے پاس کسی مرتد کو میں بھیجوں، معذرت کیساتھ کوئی نام نہیں ہے۔

واضح رہے کہ فکری و علمی نشست سے صاحبزادہ پیر سید کرامت علی حسین سجادہ نشین علی پور سیداں، صاحبزادہ پیر محمد معظم الحق معظمی سجادہ نشین معظم آباد، مجلس علمی شرعی کے سربراہ پروفیسر احمد جاوید، شیخ الحدیث سائیں غلام رسول قاسمی سرگودہا، مفتی محمد رمضان قمری چنیوٹ، مفتی سہیل احمد سیالوی تفہیم الاسلام فاؤنڈیشن دینہ، ڈاکٹر خورشید قادری جی سی یونیورسٹی لاہور نے خطاب کیا۔ نشست کا اہتمام سابق وفاقی وزیر مذہبی امور پیر محمد امین الحسنات شاہ سجادہ نشین بھیرہ نے کیا۔ نشست کی نقابت کے فرائض صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالحسن محمد شاہ اور ڈاکٹر نعیم الدین الازہری نے کی۔ قارئین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/c/IslamtimesurOfficial/videos


خبر کا کوڈ: 918285

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/video/918285/بھیرہ-معروف-فلسفی-احمد-جاوید-کا-عصر-حاضر-میں-خدمت-دین-کے-عملی-تقاضے-فکری-نشست-سے-خطاب

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org