0
Wednesday 4 Aug 2021 11:15

کیا گلگت بلتستان میں دینی جماعتوں کا سیاسی سورج غروب ہو رہا ہے؟

متعلقہ فائیلیںرپورٹ: ایل اے انجم

گلگت بلتستان کا پہلا الیکشن 1970ء میں منعقد ہوا، گو کہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کا دور ایک سیاہ تاریخ سے عبارت ہے، لیکن یحییٰ خان کے دور میں جی بی میں پہلی باضابطہ اصلاحات نافذ ہوئیں اور انتخابات منعقد ہوئے۔ اس سے پہلے وفاق سے آنے والا ایک پولیٹیکل ایجنٹ خطے کا مختار کل ہوا کرتا تھا۔ ستر کی دہائی کے بعد جب گلگت بلتستان میں انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا تو اختیارات کسی حد تک عوامی نمائندوں تک منتقل ہوئے۔ انیس سو ستر سے انیس سو چورانوے تک گلگت بلتستان میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوتے رہے۔ 1994ء میں پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو انتخابی سیاست نے نیا رخ اختیار کر لیا اور عوام میں بھی سیاسی میچورٹی مستحکم ہونا شروع ہوئی۔

 1994ء میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے گلگت بلتستان کے پہلے انتخابات میں تحریک جعفریہ پاکستان نے میدان مار لیا اور پچاس فیصد سے زائد سیٹیں حاصل کیں، پہلی انٹری میں ہی تحریک جعفریہ کی شاندار کامیابی اس بات کی دلیل تھی کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت دینی جماعتوں سے لگاﺅ رکھتی ہے۔ 1999ء کے انتخابات میں تحریک جعفریہ نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی، لیکن کامیابی کا یہ تسلسل زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا، صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی اور 2015ء کے انتخابات میں اسلامی تحریک کے ٹکٹ پر صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے۔ دو ہزار بیس کے الیکشن میں اسلامی تحریک کا پورے جی بی سے صفایا ہوگیا جبکہ ایم ڈبلیو ایم صرف ایک سیٹ تک ہی محدود رہی۔

2020ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کے ساتھ آئی ٹی پی کا اتحاد آخری لمحوں میں گول ہوگیا، وفاقی سطح پر اتفاق ہوچکا تھا لیکن مقامی رہنماﺅں کی شدید مخالفت کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد نہ ہوسکا اور آئی ٹی پی نے چوبیس میں سے گیارہ حلقوں سے اپنے امیدوار میدان میں اتارنے کا اعلان کر دیا، الیکشن کے آخری دنوں میں صرف چار حلقوں میں ہی اسلامی تحریک کے امیدوار رہ گئے اور چاروں حلقوں سے پارٹی ہار گئی۔ دوسری جانب ایم ڈبلیو ایم نے تین حلقوں سے امیدوارکھڑے کیے، باقی تمام حلقوں میں تحریک انصاف کے حق میں دستبردار ہوگئی۔ تین میں سے صرف ایک سیٹ ایم ڈبلیو ایم کو مل سکی۔

اسی طرح دیگر دینی جماعتیں بھی ناکام ثابت ہوئیں، جماعت اسلامی کے حصے میں کوئی سیٹ نہ آسکی، جے یو آئی (ف) کو دیامر سے ایک سیٹ ہی مل سکی۔ اس وقت گلگت بلتستان میں تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم کی اتحادی حکومت ہے، اہم بات یہ نہیں ہے کہ جی بی میں تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم کی مشترکہ حکومت ہے، اہم بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں مذہبی جماعتوں کا سیاسی سورج غروب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہر کامیابی اور ناکامی کی لازمی وجوہات ہوا کرتی ہیں، آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جو انیس سو چورانوے کے انتخابات میں تحریک جعفریہ پچاس فیصد سے زائد نشستیں لے اڑی اور آخر وہ کون سی وجوہات ہیں، جو دو ہزار بیس کے الیکشن میں اسلامی تحریک کا پورے خطے سے صفایا ہوگیا۔؟
خبر کا کوڈ : 946482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش