0
Sunday 28 Apr 2024 20:47

فیصلہ کن موڑ

فیصلہ کن موڑ
تحریر: حنیف غفاری

تقریباً چار ماہ قبل غزہ جنگ کے دوران ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک خاص اقدام انجام دیا گیا۔ اس یونیورسٹی کی سیاہ فام سربراہ کلاڈین گی کو یہود دشمنی کے الزامات اور غزہ کے لوگوں کے دفاع میں طلبہ کی تحریکوں کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت، امریکی حکام ملک بھر میں احتجاج کرنے والے طلباء کو ایک خصوصی پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سربراہ کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کی اجازت اور ہمت نہیں ہونی چاہیئے۔ امریکی حکام یہ کہہ رہے تھے کہ اگر یونیورسٹی کے سربراہ کو یہ اجازت نہیں تو ان طلبہ کو جن کی زندگیوں اور تعلیم پر امریکی حکومت کا غلبہ ہے، ان کو اس طرح کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔

امریکی حکام دھمکا رہے تھے کہ ان طلباء میں سے بہت سے افراد کو وہ جب چاہے گرفتار کرسکتے ہیں یا کسی بھی وقت تعلیم سے محروم کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکی حکام نے فلسطینی بچوں اور ان کا خون بہانے والوں  کے خلاف احتجاج کرنے پر ہزاروں طلباء پر حملہ کیا اور انہیں دھمکیاں دیں اور احتجاج کرنے والے غیر ملکی طلباء کو امریکی سرزمین سے ملک بدر کرنے کا اعلان بھی کیا۔ وائٹ ہاؤس کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی صدارت سے Claudine Gay کو ہٹانے سے یہ پیغام امریکا میں بننے والی طلبہ تحریک کے لیڈروں اور کارکنوں تک جائے گا اور اس کے نتیجے میں کسی میں فلسطینیوں کی حمایت میں اجتماع کرنے کا حوصلہ  اور جرات نہیں ہوگی۔

امریکی حکام اس طرح سے وحشی صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں کے خلاف احتجاج کو مسدود کر دیں گے۔ لیکن آج ٹیکساس سے کیلیفورنیا تک امریکی یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس نے اس مضحکہ خیز مفروضے پر ایک غلط لکیر کھینچ دی ہے۔ امریکہ میں قائم ہونے والی مستند طلبہ بغاوت اپنی پختگی کے مرحلے کو پہنچ چکی ہے اور اسے نہ صرف اس ملک میں اقتدار کی کھلی اور چھپی ہوئی لابیوں سے روکا نہیں جا سکتا بلکہ ہم مغرب کے دیگر حصوں (بشمول یورپی ممالک) تک اس کی توسیع کا مشاہدہ کریں گے۔ اگر امریکی حکام ہارورڈ یونیورسٹی کے اس سروے کو سنجیدگی سے لیتے کہ 18 سے 24 سال کی عمر کے 51 فیصد امریکی نوجوان صیہونی غاصب حکومت کے وجود اور اس کی نوعیت سے متفق نہیں ہیں تو وہ اس وسیع پیمانے پر ہونے والی بغاوت کا مشاہدہ نہ کرتے۔  لیکن مغرب کو ہوش بہت دیر سے آیا ہے۔

امریکہ میں طلباء کے حالیہ احتجاج میں جو مطالبات اٹھائے گئے ہیں، وہ واضح اور منطقی ہیں۔ غزہ میں جنگ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا خاتمہ، قدس کی قابض حکومت کے ساتھ امریکی علمی و دانشگاہی تعلقات منقطع کرنا اور صیہونی حکومت کے رہنماؤں اور غزہ کی نسل کشی کے حامیوں کے خلاف مقدمہ چلانا۔ مختلف امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والی حالیہ تحریکوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلباء ان مطالبات کو پورا کرانے میں سنجیدہ ہیں اور اس سلسلے میں گرفتاری، تعلیم سے محرومی، دھمکیوں اور تشدد جیسی قیمتیں بھی ادا کرنے کو تیار ہیں۔ وفاقی پولیس کی بربریت اور احتجاج کرنے والے امریکی طلباء پر یہود دشمنی کا الزام لگانا انہیں اس شعوری اور پرجوش راستے سے نہیں روک سکتا۔

بلاشبہ آج امریکی یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے اس ملک کی تاریخ کا ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے۔ امریکی حکام نے غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کو مجرمانہ قرار دے کر طلبہ کو فلسطینی بچوں کی نسل کشی کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی، لیکن اب وہ خود عوامی رائے عامہ اور طلبہ کی بغاوتوں کے سامنے بڑے مجرم بن چکے ہیں اور ان پر اس وسیع احتجاج کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں فلسطین کا دفاع کرنے والی اس مستند طلبہ تحریک کی فتح و کامیابی بہت نزدیک ہے۔
خبر کا کوڈ : 1131819
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش