QR CodeQR Code

شہید قائد کے مزار پر ایک بلب کا سوال!

20 Jul 2018 16:04

اسلام ٹائمز: ایک مجرم کے احساس کیساتھ یہ کالم لکھا ہے، کسی کا دل دکھانے کا مقصد نہیں، نہ ہی کسی پر طعن و تشنیع مقصد ہے، بس دل پہ بوجھ تھا، ایک احساس تھا، جسے آپ قارئین کیساتھ شیئر کیا، اگر ذمہ داران احباب متوجہ ہو جائیں یا کوئی معنوی فرزند اس کام کا بیڑہ اٹھا لے اور مزار کو شایان شان بنوانے کیلئے میدان میں اتر آئے تو یہی سمجھوں گا کہ کسی حد تک حق ادا ہوگیا۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر
 

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس پاراچنار میں تھا، مجھے بھی اس موقعہ پہ پاراچنار جانے کا موقعہ ملا۔ شہید قائد کی زیارت پر اس بار دو سال کے وقفے سے جانا ہوا، وگرنہ ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا، میں سال میں دو تین چکر بھی لگا لیتا تھا۔ مجلس عاملہ کے اجلاس کے شرکاء آخری روز شام کے وقت مزار پر حاضری کیلئے پہنچے، عجیب سماں تھا، یہاں پر گریہ تھا، دوست بلک بلک کے رو رہے تھے، جیسے ان کا باپ ابھی ابھی ان سے جدا ہوا ہو، جیسے ان کے سر سے سایہ اٹھ گیا ہو، جیسے وہ کڑی دھوپ میں خود کو بے سائباں محسوس کر رہے ہوں، تیس برس گزر چکے تھے اور ان طلباء کی اکثریت ایسی تھی، جن کی عمریں بیس سال تک تھیں، مگر یہ جوان اتنا احساس رکھتے تھے کہ اس ملت کو اگر کسی نے عروج بخشا ہے تو وہ یہی ذات ہے، اگر کسی نے پرخلوص اور درد کیساتھ دن رات ایک کرکے نظریاتی و فکری بنیادوں کو مضبوط کیا ہے تو وہ یہی ذات تھی، جس کے مزار پر وہ حاضر تھے۔

یہ محبت اور عقیدت بلا وجہ نہیں، اس میں شہید کے ایثار، قربانی اور اخلاص کا کمال ہے، ورنہ ہم نے اس عرصہ میں بہت سوں کو دیکھ اور پرکھ لیا اور بہت کچھ دیکھ لیا۔ ہم لوگ چونکہ الگ گاڑی میں تھے، لہذا جس وقت ہم پہنچے، اس وقت ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا، جبکہ دوست جب پہنچے تو سورج غروب ہو رہا تھا، مغرب کی اذان شروع تھی، پاراچنار شہر میں بجلی کا نام و نشاں نہیں ملتا، یہ تو پیواڑ تھا، جو شہر سے بھی دور ایک بلند پہاڑی مقام جو افغانستان کے بارڈر کے نزدیک واقع ہے، یہاں لوڈ شیڈنگ کا ہونا عین توقع تھا، لہذا جب دوست احباب جنکی تعداد پچاس کے قریب تھی، نماز کی تیاری کرنے لگے تو وضو گاہ کیلئے صرف ایک پانی کی ٹونٹی میسر تھی، جہاں اندھیرا اور تاریکی تھی۔ شہید قائد کے مزار کے ساتھ بھی کچھ مزارات موجود ہیں، جو شہید کے رشتہ دار بھی لگتے ہیں، مگر شہید کی نظریاتی و فکری بنیادوں سے ان کا ہمیشہ اختلاف رہا ہے، شہید فکر امام خمینی کے سرخیل تھے اور دوسری طرف والے خانقاہی و پیر پرستی والے قبیلہ کے لوگ ہیں۔ شہید قائد نے اپنی زندگی میں ان مروج روایات سے کھلی بغاوت کی اور فکر امام پر کاربند رہے، خدمت عوام کے جذبے کو امام خمینی کے انقلابی نظریہ کی روشنی میں انجام دیا جبکہ ادھر اس کے الٹ ہے۔

بہرحال مجھے یہاں ان نظریات کا تقابل نہیں کرنا، نہ ہی کسی کو اونچا اور کسی کو نیچا دکھانا ہے، اصل بات جو مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کر گئی، اس مسئلہ کو اجاگر کرنا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ شہید قائد کے مزار کیساتھ ہی امام بارگاہ اور کچھ اور مزارات موجود ہیں، جہاں لائٹ کا انتظام و انصرام تھا جبکہ شہید قائد کے مزار پر تاریکی تھی، یہ تاریکی مجھے جنت البقیع لے گئی، جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ شاہوں کے محلات تو روشن ہیں مگر قبر سیدہ سلام اللہ پر کوئی چراغ نہیں، کوئی روشنی نہیں۔ ایسا ہی آج یہاں محسوس ہوا، شہید کے مقام و مرتبہ، خدمات، قربانیاں، اس ملت کیلئے ان کا ان تھک، ان مٹ کام اور مزار پر تاریکی مجھے ہلا کے رکھ گئی۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ ساتھ والے پورشن میں لائٹ کیسے ہے تو پتہ چلا کہ ایک بیٹری جس کے ساتھ ایک سولر پلیٹ منسلک ہے، سے یہ روشنی ہے اور اس سے ایک بلب شہید کے مزار پہ نہیں لگ سکتا، شائد کوئی وجہ ہوگی، تعصب، نظریاتی بعد یا کچھ اور مگر کسی سے کیا توقع اور امید۔

کیا وہ قائد ملت نہیں تھے، کیا وہ اس ملت کے سید و سردار نہیں تھے، کیا وہ پاکستان کے شہداء کے سردار نہیں ہیں، کیا وہ نمائندہ امام نہیں تھے کہ کسی اور سے توقع اور امید رکھی جائے کہ وہ اس چیز کا خیال رکھے کہ شہید کے مزار پر دیا بجھنے نہ پائے۔ مجھے نہیں پتہ کہ شہید کے نام پہ کتنے ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور وہ کس کس کے ساتھ منسلک ہیں، مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ شہید اس قوم کے پدر بزرگوار کی حیثیت رکھتے تھے اور ہم سب ان کے نظریاتی و فکری فرزندان ہونے کے دعویدار ہیں۔ میں شہید کے مزار کے شایان شان ہونے کی بات نہیں کرتا کہ اتنے بڑے رہبر و رہنما اور شہید بزرگوار کا مزار کیوں ویران کدہ ہے بلکہ میں تو فقط ایک دیا کی بات کرتا ہوں، جس کا کسی ایک کو اس کا قصور وار نہیں سمجھتا، میں اپنے سمیت اس کا قصور وار سب کو سمجھتا ہوں۔ ایک بیٹری اور ایک سولر پلیٹ کا انتظام کتنے میں ہو جاتا ہے، شہید قائد کے مزار پہ تو لائٹس کی جگ مگ ہوتی، رات کی تاریکی میں دور سے روشن اور جگمگاتا دکھائی دیتا، مگر یہاں صرف تاریکی تھی۔ یہ ہم سب جانتے ہیں، مگر ہم نے یہ کوتاہی کی ہے، ہم نے اس کام کو معمولی سمجھ کے نظرانداز کیا ہے۔

آپ خود سوچیں کہ پاکستان بھر سے شہید قائد کے مہمان و عاشقان ان کے گھر پہ موجود تھے اور ان کیلئے تاریکی کا سماں تھا، کیا شہید اپنے مہمانوں کو اپنی ظاہری زندگی میں ایسے ہی ملتے تھے، ہرگز نہیں، سب جانتے ہیں کہ وہ بلند اخلاق کے مالک تھے اور مہمانوں کی خدمت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی برتنا برداشت نہیں کرتے تھے، مگر آج ان کے معنوی فرزندان، عاشقان اور مہمانان تاریکی میں دعائے کمیل پڑھ رہے تھے۔ مجھے پاراچنار کے اس دورے مین مختلف ایریاز میں قائم زیارات پر جانے کا اتفاق بھی ہوا، ان زیارات میں حتی کوئی مدفن نہیں مگر یہ کسی کے نام پر بنائی جاتی ہیں، یہ بہت دور دراز اور بلند و بالا مقام پر ہونے کے باوجود اچھے مراکز، خوبصورت مناظر اور ہر قسم کے انتظام و انصرام کی حامل ہیں، یہاں لائٹ سمیت، کھانا پکانے کے ہال، رہائش کیلئے وسیع انتظام، بستر اور دیگر لوازمات اور زیارات پہ لکڑی و شیشہ کا نفیس کام دکھائی دیتا ہے، جبکہ ان زیارات میں کسی کا مدفن نہیں، یہ صرف عقیدت کے طور پہ کسی کے نام پہ بنائی گئی ہیں اور کسی ایسی شخصیت سے بھی منسلک نہیں، جنہیں ملک گیر یا عالم گیر کہا جا سکتا ہو،یہ علاقائی شخصیت ہیں، مگر انتظام و انصرام سے دل خوش ہوتا ہے۔

دوسری طرف شہید قائد کی عالمی شخصیت اور مزار پہ دیا نہ جلنا، ایک بلب کا روشن نہ ہونا، شہید سے محبت کرنے والے ہر عاشق کو رلانے کیلئے کافی ہے، اے کاش ہم نے شہید کے مزار کو ایک مثالی مزار بنایا ہوتا، پیواڑ جہاں شہید کا بچپن گذرا، اسے ایک مثالی گائوں بنایا ہوتا، اس کے رہائشی جو بہت بہادر اور جنگجو ہیں اور دشمن کی آنکھ میں ہمیشہ کھٹکتے ہیں، کو سہولیات سے آراستہ کیا ہوتا۔ ہم جب بھی ایران میں جاتے ہیں تو امام خمینی کے مرقد پہ حاضری دیتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بار کچھ نیا ہو رہا ہوتا ہے، اتنا وسیع کام کہ جو تسلسل سے جاری ہے، ہم امام خمینی کے مرقد پہ دیکھتے ہیں، ای کاش ان کے اس نمائندہ خصوصی جسے انہوں نے فرزندان راستین سیدالشہداء کہا، کی قدر کرتے، ہم ان کی حفاظت نہ کر سکنے کے احساس جرم سے تو آزاد تھے ہی، اب ان کے مزار پر ایک بلب کی روشنی کا انتظام نا کر سکنے کے احساس سے بھی عاری دکھائی دیتے ہیں۔ پاراچنار میں لڑی جانے والی 2007ء کی جنگ کی اصل تاریخ لکھی جائے تو سینہ پھٹ جائے گا، کون کیا تھا اور کیا ہوگیا، یہ کہانی پھر سہی۔

بہرحال ایک مجرم کے احساس کیساتھ یہ کالم لکھا ہے، کسی کا دل دکھانے کا مقصد نہیں، نہ ہی کسی پر طعن و تشنیع کا مقصد ہے، بس دل پہ بوجھ تھا، ایک احساس تھا، جسے آپ قارئین کیساتھ شیئر کیا، اگر ذمہ داران احباب متوجہ ہو جائیں یا کوئی معنوی فرزند اس کام کا بیڑہ اٹھا لے اور مزار کو شایان شان بنوانے کیلئے میدان میں اتر آئے تو یہی سمجھوں گا کہ کسی حد تک حق ادا ہوگیا۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
پس از تحریر؛ پاراچنار شہر میں ہی مولانا شیخ نواز عرفانی جنہیں اسلام آباد میں نامعلوم قاتلوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا، ان کا مزار بھی بڑی شان کیساتھ بن رہا ہے، ان سے اس لئے تقابل نہیں کہ وہ ایک ہی شہر تک محدود شخصیت تھے اور شہید قائد پوری ملت کے قائد تھا، اس وقت شیخ نواز عرفانی کے عاشقان کروڑوں روپے مزار کیلئے وقف کرچکے ہیں، جبکہ ہم اپنے قائد کے مزار کیلئے شائد ان سے توقع رکھتے ہیں، جو بہت سوں کی گاڑیوں کا پٹرول، ڈرائیور اور پارکنگ کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 739062

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/739062/شہید-قائد-کے-مزار-پر-ایک-بلب-کا-سوال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org