12
1
Friday 20 Jul 2018 16:04

شہید قائد کے مزار پر ایک بلب کا سوال!

شہید قائد کے مزار پر ایک بلب کا سوال!
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس پاراچنار میں تھا، مجھے بھی اس موقعہ پہ پاراچنار جانے کا موقعہ ملا۔ شہید قائد کی زیارت پر اس بار دو سال کے وقفے سے جانا ہوا، وگرنہ ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا، میں سال میں دو تین چکر بھی لگا لیتا تھا۔ مجلس عاملہ کے اجلاس کے شرکاء آخری روز شام کے وقت مزار پر حاضری کیلئے پہنچے، عجیب سماں تھا، یہاں پر گریہ تھا، دوست بلک بلک کے رو رہے تھے، جیسے ان کا باپ ابھی ابھی ان سے جدا ہوا ہو، جیسے ان کے سر سے سایہ اٹھ گیا ہو، جیسے وہ کڑی دھوپ میں خود کو بے سائباں محسوس کر رہے ہوں، تیس برس گزر چکے تھے اور ان طلباء کی اکثریت ایسی تھی، جن کی عمریں بیس سال تک تھیں، مگر یہ جوان اتنا احساس رکھتے تھے کہ اس ملت کو اگر کسی نے عروج بخشا ہے تو وہ یہی ذات ہے، اگر کسی نے پرخلوص اور درد کیساتھ دن رات ایک کرکے نظریاتی و فکری بنیادوں کو مضبوط کیا ہے تو وہ یہی ذات تھی، جس کے مزار پر وہ حاضر تھے۔

یہ محبت اور عقیدت بلا وجہ نہیں، اس میں شہید کے ایثار، قربانی اور اخلاص کا کمال ہے، ورنہ ہم نے اس عرصہ میں بہت سوں کو دیکھ اور پرکھ لیا اور بہت کچھ دیکھ لیا۔ ہم لوگ چونکہ الگ گاڑی میں تھے، لہذا جس وقت ہم پہنچے، اس وقت ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا، جبکہ دوست جب پہنچے تو سورج غروب ہو رہا تھا، مغرب کی اذان شروع تھی، پاراچنار شہر میں بجلی کا نام و نشاں نہیں ملتا، یہ تو پیواڑ تھا، جو شہر سے بھی دور ایک بلند پہاڑی مقام جو افغانستان کے بارڈر کے نزدیک واقع ہے، یہاں لوڈ شیڈنگ کا ہونا عین توقع تھا، لہذا جب دوست احباب جنکی تعداد پچاس کے قریب تھی، نماز کی تیاری کرنے لگے تو وضو گاہ کیلئے صرف ایک پانی کی ٹونٹی میسر تھی، جہاں اندھیرا اور تاریکی تھی۔ شہید قائد کے مزار کے ساتھ بھی کچھ مزارات موجود ہیں، جو شہید کے رشتہ دار بھی لگتے ہیں، مگر شہید کی نظریاتی و فکری بنیادوں سے ان کا ہمیشہ اختلاف رہا ہے، شہید فکر امام خمینی کے سرخیل تھے اور دوسری طرف والے خانقاہی و پیر پرستی والے قبیلہ کے لوگ ہیں۔ شہید قائد نے اپنی زندگی میں ان مروج روایات سے کھلی بغاوت کی اور فکر امام پر کاربند رہے، خدمت عوام کے جذبے کو امام خمینی کے انقلابی نظریہ کی روشنی میں انجام دیا جبکہ ادھر اس کے الٹ ہے۔

بہرحال مجھے یہاں ان نظریات کا تقابل نہیں کرنا، نہ ہی کسی کو اونچا اور کسی کو نیچا دکھانا ہے، اصل بات جو مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کر گئی، اس مسئلہ کو اجاگر کرنا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ شہید قائد کے مزار کیساتھ ہی امام بارگاہ اور کچھ اور مزارات موجود ہیں، جہاں لائٹ کا انتظام و انصرام تھا جبکہ شہید قائد کے مزار پر تاریکی تھی، یہ تاریکی مجھے جنت البقیع لے گئی، جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ شاہوں کے محلات تو روشن ہیں مگر قبر سیدہ سلام اللہ پر کوئی چراغ نہیں، کوئی روشنی نہیں۔ ایسا ہی آج یہاں محسوس ہوا، شہید کے مقام و مرتبہ، خدمات، قربانیاں، اس ملت کیلئے ان کا ان تھک، ان مٹ کام اور مزار پر تاریکی مجھے ہلا کے رکھ گئی۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ ساتھ والے پورشن میں لائٹ کیسے ہے تو پتہ چلا کہ ایک بیٹری جس کے ساتھ ایک سولر پلیٹ منسلک ہے، سے یہ روشنی ہے اور اس سے ایک بلب شہید کے مزار پہ نہیں لگ سکتا، شائد کوئی وجہ ہوگی، تعصب، نظریاتی بعد یا کچھ اور مگر کسی سے کیا توقع اور امید۔

کیا وہ قائد ملت نہیں تھے، کیا وہ اس ملت کے سید و سردار نہیں تھے، کیا وہ پاکستان کے شہداء کے سردار نہیں ہیں، کیا وہ نمائندہ امام نہیں تھے کہ کسی اور سے توقع اور امید رکھی جائے کہ وہ اس چیز کا خیال رکھے کہ شہید کے مزار پر دیا بجھنے نہ پائے۔ مجھے نہیں پتہ کہ شہید کے نام پہ کتنے ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور وہ کس کس کے ساتھ منسلک ہیں، مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ شہید اس قوم کے پدر بزرگوار کی حیثیت رکھتے تھے اور ہم سب ان کے نظریاتی و فکری فرزندان ہونے کے دعویدار ہیں۔ میں شہید کے مزار کے شایان شان ہونے کی بات نہیں کرتا کہ اتنے بڑے رہبر و رہنما اور شہید بزرگوار کا مزار کیوں ویران کدہ ہے بلکہ میں تو فقط ایک دیا کی بات کرتا ہوں، جس کا کسی ایک کو اس کا قصور وار نہیں سمجھتا، میں اپنے سمیت اس کا قصور وار سب کو سمجھتا ہوں۔ ایک بیٹری اور ایک سولر پلیٹ کا انتظام کتنے میں ہو جاتا ہے، شہید قائد کے مزار پہ تو لائٹس کی جگ مگ ہوتی، رات کی تاریکی میں دور سے روشن اور جگمگاتا دکھائی دیتا، مگر یہاں صرف تاریکی تھی۔ یہ ہم سب جانتے ہیں، مگر ہم نے یہ کوتاہی کی ہے، ہم نے اس کام کو معمولی سمجھ کے نظرانداز کیا ہے۔

آپ خود سوچیں کہ پاکستان بھر سے شہید قائد کے مہمان و عاشقان ان کے گھر پہ موجود تھے اور ان کیلئے تاریکی کا سماں تھا، کیا شہید اپنے مہمانوں کو اپنی ظاہری زندگی میں ایسے ہی ملتے تھے، ہرگز نہیں، سب جانتے ہیں کہ وہ بلند اخلاق کے مالک تھے اور مہمانوں کی خدمت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی برتنا برداشت نہیں کرتے تھے، مگر آج ان کے معنوی فرزندان، عاشقان اور مہمانان تاریکی میں دعائے کمیل پڑھ رہے تھے۔ مجھے پاراچنار کے اس دورے مین مختلف ایریاز میں قائم زیارات پر جانے کا اتفاق بھی ہوا، ان زیارات میں حتی کوئی مدفن نہیں مگر یہ کسی کے نام پر بنائی جاتی ہیں، یہ بہت دور دراز اور بلند و بالا مقام پر ہونے کے باوجود اچھے مراکز، خوبصورت مناظر اور ہر قسم کے انتظام و انصرام کی حامل ہیں، یہاں لائٹ سمیت، کھانا پکانے کے ہال، رہائش کیلئے وسیع انتظام، بستر اور دیگر لوازمات اور زیارات پہ لکڑی و شیشہ کا نفیس کام دکھائی دیتا ہے، جبکہ ان زیارات میں کسی کا مدفن نہیں، یہ صرف عقیدت کے طور پہ کسی کے نام پہ بنائی گئی ہیں اور کسی ایسی شخصیت سے بھی منسلک نہیں، جنہیں ملک گیر یا عالم گیر کہا جا سکتا ہو،یہ علاقائی شخصیت ہیں، مگر انتظام و انصرام سے دل خوش ہوتا ہے۔

دوسری طرف شہید قائد کی عالمی شخصیت اور مزار پہ دیا نہ جلنا، ایک بلب کا روشن نہ ہونا، شہید سے محبت کرنے والے ہر عاشق کو رلانے کیلئے کافی ہے، اے کاش ہم نے شہید کے مزار کو ایک مثالی مزار بنایا ہوتا، پیواڑ جہاں شہید کا بچپن گذرا، اسے ایک مثالی گائوں بنایا ہوتا، اس کے رہائشی جو بہت بہادر اور جنگجو ہیں اور دشمن کی آنکھ میں ہمیشہ کھٹکتے ہیں، کو سہولیات سے آراستہ کیا ہوتا۔ ہم جب بھی ایران میں جاتے ہیں تو امام خمینی کے مرقد پہ حاضری دیتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بار کچھ نیا ہو رہا ہوتا ہے، اتنا وسیع کام کہ جو تسلسل سے جاری ہے، ہم امام خمینی کے مرقد پہ دیکھتے ہیں، ای کاش ان کے اس نمائندہ خصوصی جسے انہوں نے فرزندان راستین سیدالشہداء کہا، کی قدر کرتے، ہم ان کی حفاظت نہ کر سکنے کے احساس جرم سے تو آزاد تھے ہی، اب ان کے مزار پر ایک بلب کی روشنی کا انتظام نا کر سکنے کے احساس سے بھی عاری دکھائی دیتے ہیں۔ پاراچنار میں لڑی جانے والی 2007ء کی جنگ کی اصل تاریخ لکھی جائے تو سینہ پھٹ جائے گا، کون کیا تھا اور کیا ہوگیا، یہ کہانی پھر سہی۔

بہرحال ایک مجرم کے احساس کیساتھ یہ کالم لکھا ہے، کسی کا دل دکھانے کا مقصد نہیں، نہ ہی کسی پر طعن و تشنیع کا مقصد ہے، بس دل پہ بوجھ تھا، ایک احساس تھا، جسے آپ قارئین کیساتھ شیئر کیا، اگر ذمہ داران احباب متوجہ ہو جائیں یا کوئی معنوی فرزند اس کام کا بیڑہ اٹھا لے اور مزار کو شایان شان بنوانے کیلئے میدان میں اتر آئے تو یہی سمجھوں گا کہ کسی حد تک حق ادا ہوگیا۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
پس از تحریر؛ پاراچنار شہر میں ہی مولانا شیخ نواز عرفانی جنہیں اسلام آباد میں نامعلوم قاتلوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا، ان کا مزار بھی بڑی شان کیساتھ بن رہا ہے، ان سے اس لئے تقابل نہیں کہ وہ ایک ہی شہر تک محدود شخصیت تھے اور شہید قائد پوری ملت کے قائد تھا، اس وقت شیخ نواز عرفانی کے عاشقان کروڑوں روپے مزار کیلئے وقف کرچکے ہیں، جبکہ ہم اپنے قائد کے مزار کیلئے شائد ان سے توقع رکھتے ہیں، جو بہت سوں کی گاڑیوں کا پٹرول، ڈرائیور اور پارکنگ کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 739062
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
جن کے چاهنے والے آپ جیسے تنگ نظر هوں ان کی مزار پر چراغ کا نه هونا کوئی انوکهی بات نہیں آئی ایس او نامی تنظیم اور آپ جیسے تنگ نظر افراد نے جب اپنی ذاتی عناد اور اپنے خیالی مخالفین کو شهید کا دشمن قرار دیا اور خود کو شهید کا وارث متعارف کرایا تو اب شکوه کس سے؟!!!! اب تک شهید کے وارث بن کر پیسه کهایا اور شهید کے مزار پر چراغ تک نه لگایا!!! جن کے فنڈ سے لاهور سے پاراچنار کا سفر کرتے هو اور نوجوانوں کے احساسات اور جذبات سے کھلتے ہو، اس فنڈ سے شهید کی قبر پر بلب لگا دو اور خواه مخواه فضولیات نه لکهو۔
Pakistan
اپنا تعارف کروائیں، تاکہ پتہ چل سکے کہ جناب کون مخاطب ہے۔ اتنی جرات تو پیدا کریں کہ نام لکھ سکیں، شہید کا قرض پوری قوم پر ہے، نہ کہ کسی ایک تنظیم پر۔۔ شہید کو جب کوئی یاد نہیں کرتا تو ایک ہی تنظیم بج جاتی ہے، جو ان کے ذکر کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ تم لوگوں نے تو شہید کی یاد تک بھلا دی۔ ویسے تم لوگ وارثت کے نعرے لگاتے ہو۔ پتہ نہیں کیوں کہ شہید کا نام آتے ہی آپ جیسے لوگوں کے پر جلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ علی حیدر
علی حیدر صاحب نام کو کیا کرنا ہے جو لوگ صرف خود کو شهید کا وارث خیال کرتے ہیں اور دوسروں کو شهید کا مخالف اور اسی بات پر آ‏ۓ دن نیا گروه اور نیا قائد بنا رہے ہیں اور قوم کا پیسه فضول خرچ کر رہے ہیں، لاهور سے قوم کے ناپخته جوانوں کو پاراچنار تک لے جانے اور ان کی تنگ نظری پر مبنی فکر بگاڑنےاور قوم کے اندر تفرقه پهیلانے کا پیسه ان کے پاس ہے، لیکن شهید کی مزار پر بلب لگانے کے پیسے نہیں اور اس کام کے لیے کالم لکهے جاتے ہیں!!!
Pakistan
bohat dukh howa h ,jessy aap ki baat ki ho ,mai apni zati jaib sai ziarat p jata hon har kisi ko apny jesa nahe samjhty, jo waris bana phirta h ossy 1996 k baad toufeeq nahe hoi, yahi haqeqat h, and dunya ko pata h keh koun shaheed k name p ab tuk qoum ko chimta howa h, and koun noch raha hy
تمهارا حب اور بغض خدایی نہیں صرف اور صرف تمهارے اندر انانیت بهری ہے، جس کی پچیس سال سے بلا وجه مخالفت اور توهین کر رہے ہو، یہی شخص صرف شهید کی فکر کا حقیقی وارث نہیں بلکه چوده سو سال کی مظلوم شیعیت اور شیعه علماء کا پاکستان میں وارث ہے اور امام خمینی و امام خامنه ای کا نماینده ہے، جن کو تم لوگوں نے اپنا قائد بنایا ان کے پاس تو کسی مرجع تقلید کی طرف سے ثلث مال امام خرچ کرنے کا اجازه تک نہیں!!! تم صرف اور صرف شهید کی محبت کا جهوٹا راگ الاپتےہو جبکه تمهارا عمل اور فکر مخالف شهید ہے، بلا تشبیه تم مجسم خوارج زمان هو!!
Pakistan
تم جن کو بت بنا کے پوجتے ہو وہی ذمہ دار ہیں قوم کی تباہی و بربادی کے، شہید کی مسند کے وارث کہلوانا پسند کرتے ہیں مگر مزار پہ جانا توہین سمجھتے ہیں، مسائل کیا جانیں گے، شہید کی عظیم قربانی کا پکا پکایا پھل تیس برس سے کھا رہے ہیں، کبھی شہید کی فیملی کے حالات کا بھی پتہ کیا ہےَ؟ چار سال تک یہاں جنگ رہی، قوم کا قائد نہیں گیا، ،ہزاروں شہید ہوئے انہیں توفیق نہیں ہوئی، بیسیوں بم دھماکے ہوئے، انکے کان پہ جوں تک نہیں رینگی، اصل مجرم تم لوگ ہو جو واہ وار کرتے نہیں تھکتے، پوجا کرو اور تمھارے نصیب میں یہی ہے، جیسی روح ویسے فرشتے۔۔۔
ارشاد صاحب هم کسی کو بت بنا کر نہیں پوجتے، حق بات تو یه ہے تم نے خود ہی اس مظلوم شخصیت کو بت بنا کر پوجا تها!! کیونکه جاهل کو نہیں دیکها گیا مگر در حال افراط یا تفریط اور یه بات تم پر صادق آتی ہے۔ باقی رهی قیادت کی پالیسی اور کارگردگی بات تو قیادت نے اسی پاراچنار کے پہاڑوں سے مولوی صاحبان کو اٹھا کر سینٹ میں بیٹھایا اور ان مولوی حضرات نے جو کام کیا ملت کے سامنے ہے!!! اسی آئی ایس او کے ورغلانے پر وه خود کو قائد سمجهنے لگے، کسی نے شورایٰ کا خود کو سربراه سمجھ لیا تو کوئی شهید کے مدرسه پر قابض هوگیا تو پهر کچھ عرصه بعد ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تحریک حسینی بنا کر همیشه کے لیے الگ هوگئے، لیکن قیادت نے همیشه کی طرح اپنی استطاعت مطابق نه عوام کو تنها چهوڑا اور نه شهداء اور نہ خانواده شهداء اور نه شهید قائد کے خانوده کو تنها چهوڑا، اس بات کی تصدیق وہاں کے غیور عوام کرتے ہیں اور خود فرزند شهید سید علی کرتا ہے اور خود بنده حقیر نے وہاں دیکها اور لوگوں سے سنا. ابهی کچھ عرصه قبل جو سانحات ہوۓ ان کے وارثان شهداء میں صرف قیادت کی طرف سے کروڑوں کا فنڈ تقسیم هوا خواه مخواه دیگ سے زیاده چمچه گرم مت بنو!!!
Pakistan
آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی قیادت کے دفاع میں لکھتے ہوئے اپنی پہچان تک نہیں کروا سکتے بس یہی کافی ہے تمہارے جھوٹے ہونے کو۔۔ تمہاری کسی بات کو کیسے سچ مانا لیا جائے جبکہ پاراچنار میں تحریک کا کوئی سیٹ اپ تک نہیں، کروڑوں تقسیم کرتے تو اتنا شور شرابا ہوتا کہ آسمان سر پہ اٹھا لیتے، میرے پاس ایک تصویر ہے جس میں تحریک کے اعلیٰ عہدیدار ایک لفافے شاپر بیگ میں کچھ چیزیں مستحق کو دیتے ہوئے تصویریں بنوا رہے ہیں، بے شرم کہیں کے۔۔۔ اپنا نام لکھو پھر میں جواب دونگا اگلی باتوں کا۔۔ ارشاد ناصر
اتنے سیخ پا کیوں هوگئے، اگر ذرا برابر بهی تمهارے اندر شعور هوتا تو اس طرح کی بد تمیزی اور بلاوجه غصه نه کرتے، تم یه مت دیکهو که کون که رها ہے بلکه یه دیکهو که کیا که رها ہے، کیا حضرت امیر کا یه فرمان بهول گئے!!!! میں اچهی طرح تمهاری بلاوجه کی قیادت سے دشمنی اور عناد کو جانتا هوں کیونکه آپ کو توقیر بابا کے افراد نے آج سے بیس سال قبل قیادت کے خلاف تمهاری بد تمیزی کی وجه سے مسلم ٹائون مرکزی دفتر آئی اس او کے سامنے رات کے وقت مارا اور تم آج تک اس چیز کو بهول نه پائے اور العارف مجله سے لیکر آج تک مسلسل قیادت کے خلاف لکھ رہے ہو!!!
ان کے پاس آۓ دن نیا قائد اور نیا گروه بنانے اور قوم میں تفرقه پهیلانے کے پیسے ہیں لیکن بلب کے نہیں!!! ان کی مثال شتر مرغ کی ہے، ویسے تو یه لوگ خود بڑے لیڈر بنتے ہیں، جب ذمه داری کی بات هو تو فورا بچے بن جاتے ہیں!!!
عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
سلام ارشاد بھائی۔ ہماری قوم کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم احسان فراموش ہیں۔ آپ کا کالم پڑھ کر افسوس ہوا کہ قوم کے لیڈران کے پاس شہید کے مزار پر کام کروانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، ویسے ان کی دفاتر اور گاڑیوں کے اخراجات تو اسی قوم کے نام سے اکٹھی ہونے والی رقم سے چلتے ہیں۔ خیر جیسی قوم ویسے لیڈر دونوں طرف بلکہ ہر طرف۔ ہم لوگ انشاءاللہ شہید حیسنی کے بیٹے کو کچھ پیسے دیں گے کہ کم از کم وہ ایک دو سولر پینل اور کچھ پانی کا بہتر انتظام مزار پر کروا دیں۔
Pakistan
شہید کے بیٹے کے پاس پیسے ہیں، آپ نہ دیں بے شک، وہ متوجہ نہیں ہیں، پاراچنار شہر میں کافی کام کر رہے ہیں۔ ارشاد ناصر
ہماری پیشکش