0
Thursday 5 Apr 2012 14:59

گلگت میں خون کی ہولی!

گلگت میں خون کی ہولی!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
اپنے فہم کو تمام عالم پر مسلط کر دینے کی ہوس، انسانوں کی ایک وحشت ناک خصلت ہے۔ کہاں اسلام دین فطرت، وہ فطرت جو اپنی خاموش زبان میں محبت و آشتی کا درس دیتی ہے اور کہاں یہ وحشی درندے۔ نہیں معلوم کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایک طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ دین فطرت کے پیروکار ہیں مگر فطرت کے امن پسند رویے کے برعکس قتل و غارت گری کو اپنا شیوہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ دین حنیف کے پیروکار ہیں مگر اپنی طبیعتوں میں شدید کجی اور سوچوں میں وحشت و بربریت پالتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو دین کے ایک رکن”جہاد“ کو اپنے سفاکانہ مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور اللہ کے اس صریح حکم کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو“ فساد کی بنیادیں رکھنے والوں کو عبرتناک انجام کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔ 

حیرت تو اس بات پر ہے کہ دہشتگردوں کی حمایت میں جلوس نکالنے والوں کو حکومتی و ریاستی ادارے کھلی چھوٹ کیوں دے رہے ہیں؟ ایک کے بعد دوسرا سانحہ، کیا اس ملک کی تعمیر اور نشو و نما میں شیعوں کا کوئی کردار نہیں؟ کہ انہیں چن چن کر گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عمرانیات کہتی ہے کہ ریاست اگر اپنی عملدرآمد قائم کرنا چاہے تو بڑے سے بڑا مسلح گروہ بھی ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ پھر خرابی کہاں پیدا ہوتی ہے اور فسادات کیوں جنم لیتے ہیں؟ میرا خیال ہے جب ریاست اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہوئے مسلح گروہوں کی خاموش حمایت کرتی رہتی ہے تو اسی وقت سے خرابی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ صرف دہشتگردوں پر مقدمات اور ان کے قلع قمع سے بات نہیں بنے گی، خرابی کی اصل جڑ کو تلاش کرنا ہو گا۔ 

جب تک ان کی فنڈنگ کے ذرائع اور ان کی سپلائی لائن پر ضرب نہیں لگائی جائے گی، دہشتگرد اپنے مذموم مقاصد کے لئے اللہ کے محبوب کی امت کو ذبح کرتے رہیں گے۔ پارا چنار کے کلمہ گو گزشتہ چند برسوں سے صرف اسلئے گولیوں کی زد میں ہیں کہ وہ دہشتگردوں کے فہم اسلام کے مطابق اعمال نہیں بجالا رہے۔ تمام تر احتجاج اور اظہار مظلومیت کے باوجود، ریاست ان لوگوں کی مدد کو نہ آئی، ان بچاروں کو اگر پارا چنار سے اسلام آباد آنا پڑے تو پہلے افغانستان جانا پڑتا ہے۔ ان کے لئے وطن میں رہتے ہوئے غریب الوطنی ہے۔
 
اسی طرح کوئٹہ کے راستے ایران جانے والے زائرین کو بھی بہت آسانی کے ساتھ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور حکومت مذمتی بیانات پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔ گلگت اپنے حسن کی وجہ سے ایک عالم میں معروف ہے، لیکن شرپسندوں نے پارا چنار سے گلگت کا رخ کر لیا۔ گزشتہ سے پیوستہ روز گلگت شہر میں کالعدم تنظیم کے کارکن اپنے ملزم رہنما مولانا عطاءاللہ  کی رہائی کے لئے مظاہرہ کر رہے تھے کہ اتحاد چوک کے قریب مظاہرے نے ہنگامے کی شکل اختیار کر لی۔ 

انتظامیہ نے کرفیو نافذ کر کے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کر دیا، جبکہ حالات پر قابو پانے کے لئے فوج نے شہر کا کنٹرول سنبھال کر گشت شروع کر دی۔ گلگت میں رونما ہونے والے واقعات کی اطلاع ملتے ہی چلاس میں مشتعل افراد نے قراقرم ہائی وے پر آ کر مسافر بسوں کو گھیر لیا اور 15 بے گناہ افراد کو بسوں سے اتار کر شہید کر دیا گیا جبکہ متعدد افراد دہشتگردوں کے محاصرے میں تھے۔ آخری اطلاعات کے مطابق فسادیوں نے 6 بسوں کو آگ لگا دی جبکہ 2 بسوں کو دریائے سندھ میں گرا دیا گیا۔
 
واقعہ کچھ یوں ہے کہ دس بسوں کا ایک قافلہ گلگت کی جانب جا رہا تھا، جن میں سے ایک بس میں ایف سی اہلکار بھی سوار تھے۔ 28فروری 2012ء کو بھی اسی انداز میں اٹھارہ کے قریب شیعہ افراد کو مسافر بسوں سے اتار کر شہید کر دیا گیا۔ 28 فروری کے واقعے کے ملزمان اگر گرفتار ہو جاتے تو شاید چلاس کا افسوس ناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔ کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ ان حالات میں ریاست امن و امان کے قیام کے لئے اقدامات اٹھائے گی۔؟
 
ہم نہیں سمجھتے کہ ایسا دیرپا امن قائم ہو سکے گا، البتہ اگر کالعدم تنظیموں اور ان کے لئے ہمدردی رکھنے والوں کے خلاف پوری ریاستی قوت کے ساتھ اقدامات اُٹھائے جا سکیں اور سانحہ کوہستان و چلاس کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے تو حالات پرامن ہو سکتے ہیں۔ جب گلگت کے اتحاد چوک میں ہنگامہ ہوا تو انتظامی اداروں کی توجہ شاہراہ قراقرم کی جانب لازما جانا چاہئے تھی۔ گلگت و چلاس کے واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ دہشتگرد خاص طاقتوں کی امداد لئے مخصوص مسلک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
 
وزیر داخلہ نے 28 فروری کے واقعے پر بھی کہا تھا کہ شرپسندوں اور واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، مگر عاشورہ محرم کے پرامن گزر جانے پر طالبان کا شکریہ ادا کرنے والے وزیر داخلہ سے اس امر کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دہشتگردوں پر مضبوط ہاتھ ڈالیں گے۔ البتہ وہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ گلگت کا امن تباہ کرنے میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں۔ بھرے بازار میں کھلے مقتلوں کو بند کرنے کے لئے قانون کو وہ امتیازات ختم کرنے ہونگے، جن کی بنا پر دہشتگرد اور افسوس ناک واقعات کے نامزد ملزمان سینکڑوں انسانوں کو قتل کرنے کے بعد بھی ”باعزت“ بری ہو جاتے ہیں۔
 
بہت سادہ سوال ہے کہ ریاست کے اندر افراتفری، ہنگامہ آرائی اور تصادم کی راہ ہموار کرنے والے، ریاست کی جانب سے کسی رعایت کے مستحق ہیں؟ یقیناً دنیا کا ہر عدل پسند انسان یہی کہے گا کہ ایسے افراد کو قانون کے شکنجے میں ہونا چاہئے۔ خدانخواستہ اگر شاہراہ قراقرم پر مستقبل میں بھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اسکے نتائج صرف گلگت ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ جب تک کالعدم تنظیموں کی شرپسندی کے ذریعے سیاستدان اپنی سیٹ حاصل کرنے کا شغل جاری رکھیں گے، اس وقت تک مسلمانوں کو شناخت کر کے قتل کیا جاتا رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 150621
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش