14
0
Thursday 14 Mar 2013 00:55

خود کلامی

خود کلامی
تحریر: ڈاکٹر آر اے سید

نوٹ: ڈاکٹر آر اے سید نے گذشتہ برس شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی اٹھارویں برسی کی مناسبت سے یہ آرٹیکل لکھا تھا، جسے آج دوبارہ شہید کی انیسویں برسی کے موقع پر شائع کیا جا رہا ہے۔
سفیر انقلاب شہید محمد علی نقوی کی شہادت کو اٹھارہ برس ہونے کو ہیں، آپ کی شہادت کے چند دن بعد ہونے والے پروگراموں سے لیکر آج تک متعدد بار آپ کی شخصیت، افکار اور عملی جدوجہد پر بولنے اور لکھنے کا موقع ملا، مجھے نہیں یاد کہ ان اٹھارہ برسوں میں خاص کر شہید کی برسی پر میں نے مضمون یا مقالہ تحریر نہ کیا ہو، لیکن اس بار کئی دوستوں کی فرمائش، اصرار اور دباؤ کے باوجود نہ کچھ لکھا ہے اور نہ ہی ابھی تک اظہار خیال کیا ہے۔ میں نہ تو پیشہ ور قلمکار ہوں اور نہ ہی لکھنے پر مجبور ہوں، یہی وجہ ہے کہ میرے قلم نے ہمیشہ میرے دل کی ترجمانی کی ہے، جب دل میں ہلچل شروع ہوتی ہے اور اظہار کا کوئی موقع نہیں ملتا تو اس درد دل کو قلم کے سپرد کر دیتا ہوں۔ 

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بارے میں بھی میری تحریریں دوسروں کے لئے نہیں بلکہ کسی حد تک خود کلامی ہوتی ہیں۔ اس سال بھی الحمداللہ دنیا بھر میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مجالس تراحیم، سیمینارز اور مختلف سطح کے پروگرام منعقد ہوئے، سوشل میڈیا بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہا، دوست احباب نے اس ذریعہ کو بھی نہایت مناسب انداز سے استعمال کیا۔ برسی کے پروگراموں کی خبریں اور دعوت نامے مسلسل ملتے رہے، خاص کر لاہور میں شہید کے مزار پر ہونے والے پروگرام نے تو اتنا بے چین کر دیا تھا کہ دل چاہتا تھا پر لگ جائیں اور شہید کے مزار پر شہید کے پروانوں میں شامل ہوکر شہید کے مزار پر پیشانی رکھ کر اپنے دل کے تمام درد بیان کر دوں۔ برادر ارشاد ناصر نے مزار پر ہونے والے پروگرام کے دوران جو ایس ایم ایس بھیجا، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب پر بہت لکھا اور کہا، آج اٹھارہ سال بعد جب اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک بات کو بھی اپنے اوپر لاگو نہیں کرسکا۔ 

شہید ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرے ایام، انکی خوشگوار یادیں، انکی تقریریں اور تحریریں آج بھی میرے ذہن اور ذاتی ریکارڈ میں موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کی جب بات سامنے آتی ہے تو شرمندگی کے سوا کچھ اور احساس نہیں ہوتا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ میرے جیسے ان کے بہت سے شاگردوں، رفقاء اور ہم عصر حضرات کے لئے ان کا انداز زندگی بالکل واضح اور روشن ہے، ہم انکی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے کماحقہ، آشنا ہیں، لیکن ہماری زندگیوں پر انکی طرز زندگی کی چھاپ روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ان نوجوانوں اور بچوں نے جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کو عملی طور پر لمس نہیں کیا، وہ ہم سے بہت آگئے نکل گئے ہیں۔
 
شہید زندہ ہوتا ہے اور بعض شہداء ایسے ہوتے ہیں جو حیّ کے ساتھ محییی یعنی زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو زندہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہادت سے پہلے اور شہادت کے بعد بھی اسی عمل کو انجام دے رہے ہیں، لیکن انکے قریبی دوست اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ میں کسی اور کی نہیں اپنی بات کر رہا ہوں، تاہم جب یہ کیفیت اپنے دوسرے دوستوں سے بیان کی تو ان کی حالت بھی مجھ سے زيادہ مختلف نہ تھی۔ ہم سارا سال شہید ڈاکٹر کو فراموش کر دیتے ہیں، البتہ جب مارچ کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ڈاکٹر صاحب کے قصّے اور یادیں تازہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے روایتی شیعہ صرف محرم کے دس دن کے لئے بلکہ بعض صرف روز عاشور کو سیدالشہداء کو یاد کرتے ہیں۔ 

میں یہ باتیں لکھ کر اپنے عمل اور رفتار و کردار کی مذمت کر رہا ہوں، لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کہیں کچھ اور لوگ بھی میرے ساتھ شامل نہ ہوجائیں۔ مجھے اپنے سینئیر برادران سے تو نہیں لیکن اپنے رفتار و کردار سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی توہین کا باعث نہ بن رہے ہوں۔ نوجوان نسل ہمیں دیکھ کر کہیں یہ نہ کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بھی تمام باتیں تھیوری اور تخیلاتی ہیں، البتہ یہاں پر اپنے دفاع میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جب سورج پورے آب و تاب سے چمک رہا ہو تو روشنی بھی اپنے عروج پر ہوتی ہے، تاہم جب سورج بادلوں کے پیچھے چھپ جائے تو بہرحال اس کا اثر روشنی پر ضرور پڑتا ہے۔
 
جب ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا آفتاب پورے آب و تاب سے منور تھا تو بہت سے تاریک گوشے بھی روشن ہوجاتے تھے، شاید ہم اس دور میں ان تاریک گوشوں میں شامل تھے، جن کو سورج کی روشنی نے ہماری خواہش اور استعداد کو مدنظر رکھے بغیر روشن کر دیا تھا، لیکن اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ اس روشنی میں ہم نے اپنے پورے شعور کے ساتھ ایک شخص کو اندھیروں اور ظلمتوں سے ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے کھلی آنکھوں سے اس مرد مومن کو جہالت کے بت کدوں میں علم و عمل کی اذان بلند کرتے دیکھا۔ ہم اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے تمام تر داخلی اور بیرونی دباؤ اور رکاوٹوں کے باوجود خمینی بت شکن کا پیغام وقت کے فرعونوں کے سامنے پیش کیا۔ 

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اس دور میں شہید علامہ عارف الحسینی کا پیغام گلی گلی اور کوچے کوچے پہنچایا، جب موجودہ قومیات کے بڑے بڑے برج شہید حسینی کے پیغام اور تنظیم کو چند لونڈوں اور کالجیٹوں کا غیر سنجیدہ گروہ قرار دیتے تھے، ہم نے اس بات کا اپنے پورے عقل و شعور سے مشاہدہ کیا ہے کہ جب سامراج بالخصوص امریکہ کے خلاف آواز بلند کرنا دیوانے کی بڑ سمجھا جاتا تھا، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اسے حکومتی ایوانوں کے سامنے اور قومی شاہراہوں پر بلند کیا۔ جب شیعہ قوم کے ٹھیکیدار شیعہ قوم کو منظم کرنے کی کوششوں کو بچوں کا کھیل اور وقت کا ضیاع قرار دیتے تھے، شہید نقوی قوم کو تسبیح کے دانوں کی طرح پرونے میں مگن تھے۔ شہید کو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے قومی فیصلے کرتے اور پھر اسکو عملی جامہ پہنانے کے لئے کارکنوں کی طرح کام کرتے دیکھا، وہ ایک ہی وقت میں قائد، مفکر اور کارکن تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک واضح ویژن، ہدف اور بقول علاقہ اقبال
 نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پر سوز کے حقیقی مصداق تھے۔ 

میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا انتھک شخص نہيں دیکھا، دن کے چوبیس گھنٹے ان کی سرگرمیوں کے سامنے کم ہوجاتے، جہد مسلسل کا یہ عالم کہ ہر رکاوٹ اور پابندی ان کے عزم کو بالجزم کر دیتی، پر خلوص اتنے کہ ہر دوست یہی سمجھتا کہ ڈاکٹر صاحب سب سے زیادہ اسی کے ہمدرد اور مخلص ہیں۔ جرات و شجاعت ایسی کہ بڑی سے بڑی مصیبت اور سخت سے سخت خطرے سے دوچار ہوتے وقت چہرے کا رنگ بھی متغیر نہیں ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں انکے ایک دوست کا یہ جملہ ناقابل فراموش ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب اپنی بات کی مقبولیت کو دلیل سے ثابت کرکے منواتے تھے اور ساتھیوں کی بات کو بھی دلائل اور اصولوں کی بنیاد پر اپنے فیصلوں پر فوقیت دیتے تھے۔ 

ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ اجتماعی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دی۔ ہر کام کو صرف اور صرف خداوند عالم کی خوشنودی کے لئے انجام دیا، تنظیم کو کبھی وراثت نہیں سمجھا۔ عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگے، صدارت اور مہمان خصوصی کی نشست کے لئے کبھی بے چین نہ ہوئے۔ اخبار میں تصویر اور خبروں میں بریکنگ نیوز میں آنے کا ذرا برابر شوق نہ تھا، بلکہ سخت مخالف تھے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ ان تمام ظاہری صفات کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے بھی پاک تر تھا اور انکی یہی وہ بات ہے جو مجھے اور کچھ میرے جیسے آپ کے دوسروں ساتھیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے، کیونکہ ہمارا تو ظاہر بھی پاک نہیں باطن تو ۔۔۔۔ الامان الحفیظ 

اس خود کلامی میں میں ڈاکٹر صاحب کی جتنی تعریفیں لکھ رہا ہوں، میرے اندر کا انسان مجھے ہر تعریف پر جھنجھوڑ رہا ہے، مجھے میری کم مائیگی اور تن آسانی کا احساس دلا رہا ہے۔ مجھے ماضی کی دنیا میں جھانکنے کو کہہ رہا ہے۔ مجھے ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب کے شانہ بشانہ راہ حق اور اسلام و مسلمین کی بہتری کے لئے رات دن متحرک رہنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ تنظیموں، گروہوں اور ہر طرح کے تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف قربت خداوندی کے حصول کے لئے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی زندہ بھی ہے اور زندہ کرنے والا بھی، لیکن کیا میں زندہ ہونا چاہتا ہوں؟ کیا میں اس کے ہدف اور مقصد کو آگے بڑھنا چاہتا ہوں؟ کیا میں اسکی آواز پر لبیک کہنا چاہتا ہوں۔ یہی وہ سوال ہیں جو میرے بولنے اور لکھنے کے راستے میں حائل ہو رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 246314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ڈاکٹر صاحب! یہ میدان آج بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی کے حقیقی وارثوں کا منتظر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے کئی قریبی رفقاء ہمارے درمیان موجود ہیں، مگر وہ جن سے ڈاکٹر صاحب کی حقیقی خوشبو آئے، جو صرف اور صرف قربت خداوندی کے حصول کے لئے آگے بڑھیں، بہت کم ہیں۔ ہم تسبیح کے ان دانوں کی مانند ہیں جن کی ڈور ٹوٹ چکی ہے، اکثر یہ دانے لڑھکتے لڑھکتے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتے ہیں۔ اس تسبیح کو فعال کرنے کے لیے ایک مضبوط ڈور درکار ہے۔ اس ڈور کی غیر موجودگی میں تسبیح کا ہر دانہ اپنے بیش بہا حسن کے باوجود معاشرے کے لیے سود مند نہیں ہے۔
rashed bhai preshan na hoon ap k jansheen bahot achi siaysat kar rahay hain. rahi bat Dr shaheed ki un ki sifaat tou un k wajood say makhsoos hain aur bas.
جزاک اللہ آقا سید،
اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے، بہت اچھا کالم لکھا،
امید ہے کہ آپ آئندہ بھی اسلام ٹائمز کے لیے لکھتے رہیں گے۔
والسلام
بہت اچھی کاوش ہے، لیکن بیداری کا یہ عمل اس تحریر کے بعد بھی جاری رہے تو اچھا ہے، خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
Doctor Sahib aik Azeem Insan thay aur unho ne apnay aap ko Haqiqat yani Islam k hawalay kr rakha tha. Aur apni Aqal o Haq ko apnay Nafs se ziyada azeez rakhtay thay, aur yaqinan un k nazdeek un k nafs ki koi ehmiyat na ho gi.
M wasim Ali
خدا آپ کی تو فیقات میں اضافہ فرمائے۔
slam rashid bhai hm ny sun rakha tha k jin bradran ny shahed dr ko nhi dekha wo syed rashid naqvi ko dekh len. afkaar o kirdar mn shahed ki copy hn. hm to tb se ap se mulaqat k mushtaq hn.
kash wo din aey k mujhy bhi ziart ka moqa mily.
shahid raza DP ISO PAk SGD Div
ham to aap ke waja say islamtime perthey hean leken aap bhet kum lekhtey hain
راشد بھائی آپ نے ہم سب کی ترجمانی کر دی =س۔م
کجھ نہ کہہ کے بھی سب کجھ کہہ دیا
یہ شہید
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
salamat rahain,shaheed dr k chahny waly,perwan e wilayat
salam rashid bhai ap ka dea hoa dars ajj bhe muhjay yad hay jo ap ne iran maen gumnaan shaheedon pe dea tha jab ham iso k doston k sath iran aye thay , maen soahta hoon rooz e qayamat un saheedoon ko kya muh dekhaon ga k maen maen wilayat k lea kuch nahi kar saka ................. mehdi ,hyderabad
راشد بھائی کل پوری رات ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، حبیب جالب اور علامہ اقبال کی کلیات کی ورق گردانی کی لیکن ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھنے کے لئے کچھ بھی نہیں ملا اور میرے ذہن میں خیال آیا کہ کویتی پور کا یاران چہ غریبانہ، گفتم کجا اور سعید حدادیان کا یاد امام الشھداء میں اون رفیقاش کہ می بینی مرد خطر بود بہ خدا مرغ سحر بود بہ خدا جیسے ترانے ہی محمد علی نقوی کے بارے میں ذہن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا عقیدہ بھی میثم مطیعی کے الفاظ میں یہی تھا کہ رھبر من، طلایہ دار لالہ ھای، امید قلب عاشقای، خمینی زمان مای، آرزومہ، ہمیشہ یاور تو باشم، میون لشکر تو باشم، علی اکبر تو باشم۔ ڈاکٹر امام خامنہ ای کے علی اکبر ہی تو تھے!
عرفان علی
منتخب
ہماری پیشکش