2
0
Friday 31 Jan 2014 16:35

طالبان کے طالبان سے مذاکرات

طالبان کے طالبان سے مذاکرات
تحریر: طاہر یاسین طاہر

 خوش گمانیاں انسان کے باطن سے پھوٹتی ہیں اور گاہے اسے ایسی وحشت ناکیوں کے حوالے کر دیتی ہیں، جس کا اس نے خواب میں بھی تصور نہ کیا ہوگا۔ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا سربراہ بن جانا اور بات ہے، جبکہ پوری ایک قوم اور معاشرے کے لیے رہنمائی کرنے جیسے بلند اوصاف سے مزین ہونا بالکل دوسری بات۔ اس امر میں کلام نہیں کہ ہم قحط الرجال کے دور میں ہیں۔ بے باک، مصلحتوں سے پاک اور صالح قیادت ڈھونڈے سے نہیں ملتی، مگر خود پرستی کے شکار کاروباری سیاستدان زخم زخم معاشرے کو وحشیوں سے نجات دلانے کی خوش گمانیوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ وہ جنھیں اپنی وزارتیں اور امارتیں عزیز ہوتی ہیں، ان کی قوت فیصلہ کمزور اور ذاتی مفادات کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ کسی آفت، کسی بلا سے نمٹنے کے لیے جس یکجہتی اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے فی الحال ہم اس سے عاری ہیں۔

کوئی لاکھ کہے مگر اس بات سے کیسے فرار ہے کہ ہم نہ تو کالعدم تحریک طالبان اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف کوئی ڈھنگ کا آپریشن کرسکے اور نہ ہی ان کی معاشرے میں بڑھتی ہوئی’’سیاسی‘‘ سرگرمیوں کو روک سکے، جگہ جگہ مذہبی سیاسی رہنما ریاست کو مشورہ دیتے پھرتے ہیں کہ اگر کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات نہ کیے گئے تو آسمان گر جائے گا۔ پھر یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ دہشت گردی طالبان نہیں بلکہ امریکہ اور بھارت کروا رہا ہے۔ یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ جب دہشت گردی بھارت اور امریکہ کروا رہے ہیں تو پھر مذاکرات کالعدم تحریک طالبان سے کیوں؟ ان سے کیوں نہیں جو آپ کے بقول پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں؟ یہ رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کی دیگر ذیلی تنظیموں کے بھارت اور امریکہ و اسرائیل کی ایجنسیوں سے گہرے روابط ہیں، تو پھر ایسے گروہوں کو کچلنے کے بجائے ان سے مذاکرات کیوں۔؟

بات اس قدر سادہ نہیں ہوتی جیسی بیان کر دی جاتی ہے، ریاست کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کرے یا کالعدم تحریک طالبان پاکستان ریاست کو، مطلب یہی نکلتا ہے کہ دہشت گرد خود کو عسکری حوالے سے اس قدر طاقتور سمجھتے ہیں کہ وہ اب ایک ایسی ریاست جو ’’ایٹمی‘‘ بھی ہے، اس کو اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ بارہا یہ نقطہ اپنے آرٹیکلز میں اٹھا چکا ہوں کہ ریاست جب کسی گروہ کو اس کی ریاست مخالف سرگرمیوں کی بنا پر کالعدم قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس گروہ نے کچھ ایسے کام کیے جو ریاستی مفادات کے قطعی خلاف ہیں، اب جبکہ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جا چکی ہے تو حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ ریاست کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی تحریک طالبان پاکستان نے ایسا کون سا کام کر دیا جو ریاستی مفادات کے عین مطابق ہے۔؟
 
کیا آر اے بازار میں خون کی ہولی ریاستی مفادات کی عکاس ہے؟ یا بنوں میں پاک فوج کے جوانوں پر حملہ اس کالعدم تحریک طالبان کا ایسا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے فی الفور مذاکرات کا فیصلہ کر لیا گیا؟ کیا کوئٹہ میں زائرین کی بسوں پر حملہ ان دہشت گردوں کی ایسی کارروائی ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ریاست کی نیک نامی ہوئی؟ آخر ان کا کارنامہ کیا ہے؟ سوائے وحشتوں اور خون ریزیوں کے؟ حکومت نے جونہی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا ساتھ ہی پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کا بیان ٹی وی سکرینوں پر چلنے لگا کہ’’ان کی تنظیم نہ صرف ان مذاکرات میں شامل ہوگی بلکہ دیگر گروپوں کے ساتھ بھی مشاورت کرکے انہیں بھی اس عمل کا حصہ بننے میں مدد دے گی۔ تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کے امیر نے اپنی تنظیم کی جانب سے مذاکرات شروع ہوتے ہی ملک میں دہشت گرد کارروائیاں ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔

عصمت اللہ معاویہ کا کہنا تھا کہ جہاں تک تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کا تعلق ہے تو میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ مذاکرات شروع ہوتے ہی ہماری کارروائیاں رک جائیں گی۔ اگر حکومت کچھ نہیں کرے گی تو ردعمل بھی نہیں ہوگا۔ تاہم پنجابی طالبان کے امیر کا کہنا تھا کہ وہ یہ بیان صرف اپنی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے جاری کر رہے ہیں۔ البتہ انھوں نے امید ظاہر کی کہ تحریک طالبان پاکستان اور مولانا فضل اللہ کا ردعمل بھی مجھ سے مختلف نہیں ہوگا لیکن ہم صرف اپنے قول و فعل کے ذمے دار ہیں۔ ‘‘یاد دھانی کراتا چلوں کہ یہ وہی جنود الحفضہ ہے جس نے غیر ملکی کوہ پیماؤں کو موت کی نیند سلا دیا تھا، یہ وہی پنجابی طالبان ہیں جن کے بارے عموماً پنجاب حکومت انکار کرتی رہی، مگر افسوس ناک حقیقت یہی ہے کہ اب جنوبی پنجاب دوسرا شمالی وزیرستان بنتا جا رہا ہے۔

جب ہم دہشت گردی کے اس عفریت کا عمیق جائزہ لیتے ہیں تو بلاشبہ اس کی کئی ایک جہتیں سامنے آتی ہیں، عالمی سیاسی و معاشرتی اور معاشی حالات اور عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اپنی جگہ موجود ہیں، مگر اس سوال سے کیسے بچا جائے کہ ہم نے بھی تو اپنی ذمہ داریاں کلی طور پر پوری نہیں کیں۔ ریاست نے باقاعدہ ایک فرقے کی شکل اختیار کرکے اپنی ’’خارجی‘‘ معاملات چلانے کی کوشش کی، جس کا خمیازہ آج نہ صرف پورا پاکستانی معاشرہ بلکہ قریب قریب ساری دنیا بھگت رہی ہے۔ کچھ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم نے ایک چال چلی ہے، تاکہ ان لوگوں کے منہ بند کئے جاسکیں جو حکومت کو طالبان سے مذاکرات پر مجبور کر رہے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پھر وفاقی حکومت جو ’’نون لیگ‘‘ کی ہے، ان کے ماضی کو دیکھا جائے تو فکری طور پر یہ ایک دوسرے کے نہ صرف قریب قریب ہیں بلکہ معاون بھی رہے۔

اگر سابق جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ نہ الٹتے تو میاں صاحب ملا عمر سے اس قدر متاثر تھے کہ یہ خود امیر المومنین بننا چاہ رہے تھے۔ اب مذاکراتی کمیٹی بنا دی گئی، اس میں شامل افراد نے ہمیشہ طالبان سے اظہار ہمدردی ہی کیا اور انھیں ’’اسلام‘‘ کا مجاہد ہی کہتے رہے۔ آج جب اس مذاکراتی کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا اور وزیراعظم نے اس مذاکراتی کمیٹی کو کالعدم تحریک طالبان سے جلد از جلد مذاکرات کرنے کی ہدایت کی تو اس سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شاعرانہ سے نام والے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا بیان قومی روزنامے کے پہلے صفحے پر شائع ہوچکا ہے کہ ’’ہمارا مقصد ملک میں نفاذ شریعت ہے، یہ کام خواہ مذاکرات سے ہو یا جنگ سے، ہم تیار ہیں‘‘ جبکہ مذاکراتی ٹیم کے اراکین کہہ رہے ہیں کہ حکومت کمیٹی اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان جو فیصلے ہوں گے ان پر عملدار آمد کو یقینی بنائے۔
 
سوال مگر یہ ہے کہ اس کمیٹی میں شامل افراد میں سے ایسا کون ہے جو بالواسطہ عوامی نمائندہ ہو؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جو خود اندر سے طالبان ہیں۔ طالبان سے طالبان کے مذاکرات کا ایک انتہائی منفی پہلو یہ ہے کہ اگر کسی مرحلے پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو حکومت کو کالعدم تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کرنا پڑے گا، اور یہی کمیٹی والے کہیں گے کہ کالعدم تحریک طالبان والے تو ہتھیار پھینکنے پر راضی ہوگئے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ نے سارا کام خراب کر دیا۔ کیا خبر کالعدم تحریک طالبان والے ’’اپنی شریعت‘‘ کے نفاذ کے لیے دھرتی پر اور کتنا لہو بہائیں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 347028
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بُزدِل افواج اور نااہل حکُومت! بلوچوں سے تو مذاکرات نہیں کرتے، اُن کو تو گرفتار کرکے مار دیا جاتا ہے۔ اور سو سو افراد کو اجتماعی قبریں کھود کر گاڑ دیا جاتا ہے۔
کیوںکہ وہ نہ تو جی ایچ کیو پر حملہ کرتے ہیں نہ ہی ایربیس پر قبضہ کرتے ہیں۔ نہ ہی اُنہوں نے ہزاروں ملٹری اور پیراملٹری اسٹاف کو لاینوں میں کھڑا کرکے گولیوں سے اُڑایا ہے۔ نہ وہ فوجی چھاؤنیوں پر حملہ کرتے ہیں، نہ اُنہوں نے کسی جنرل کو مارا ہے۔ اُن مرے ہُوۓ لوگوں کو مزید مارنے کیلۓ فوجی آپریشن بھرپُور انداز میں جاری ہے۔
لیکن اپنی شکست کے خوف سے اسلحہ بردار دہشت گردوں سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ اُن کے ہر کامیاب حملہ کے بعد سینکڑوں دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کر دیا جاتا ہے۔ اور دہشت گردوں کے نُمایندوں پر ہی مُشتمل کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ کہ جاؤ اور اُن کی مِنت سماجت کرو کہ براۓ مہربانی فوجی ٹھکانوں، ملٹری اور پیراملٹری اسٹاف پر حملے کرکے ہماری بچی کھُچی عزت خاک میں نہ مِلایں۔ اس کے بدلے ہم اُنہیں حکوُمت میں مُناسب حصہ دینے کیلۓ تیار ہیں۔
nice
ہماری پیشکش