0
Thursday 20 Mar 2014 16:13

رجب طیب اردوغان کی فرقہ وارانہ ذہنیت!!!

رجب طیب اردوغان کی فرقہ وارانہ ذہنیت!!!
تحریر: عظیم سبزواری

چند سال قبل جب عرب دنیا میں عوامی انقلابات کا بھونچال شروع ہونا تھا تو اس سے سال دو سال قبل ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان نے اپنے ملک کے اہل تشیع کے عاشورہ کے جلوس میں شرکت کی اور وحدت اسلامی کا پیغام دیتے نظر آئے۔ اس سے چند ماہ قبل غزہ میں امدادی سامان کے بحرے بیڑے ماری مرمرا بھیجے تھے تو اسرائیل نے پرتشدد کارروائی کرکے روک دیئے تھے۔ گویا کہ ترکی اپنے سیکولر ماضی سے ہٹ کر ایک نئے کردار کی جھلک پیش کرتا نظر آرہا تھا۔ اس بات کو مزاحمت اسلامی لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنی 2010ء کی ایک تقریر میں بھی بیان کیا تھا، لیکن یہ بظاہر تبدیلی کی لہر ایک دم ایک ایسا بڑا یوٹرن لے گی، تب نظر آیا جب آل سعود اور یہود کی ایما پر مغرب نے شام کے اندر تکفیری دہشتگردوں کو بھیجنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے قطر نے ترکی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔
 
یہ بہت تیز رفتار یوٹرن تھا اور ترکی کے اہل تشیع اور علوی جو ایک سال قبل وزیراعظم کے آنے پر حیرت میں مبتلا ہوئے تھے، اب کی بار ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ پچھلے دنوں ترکی کے وزیراعظم نے امریکہ میں مقیم مذہبی ترک پیشوا فتح اللہ گیلن کو ایک ٹی وی پروگرام میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ فتح اللہ گیلن ایک ادھیڑ عمر ترک مذہبی رہنما ہیں، جو امریکی میں برس ہا برس سے خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اور ترکی میں ان کی بہت زیادہ پذیرائی ہے۔ بالخصوص ترکی کی پولیس اور سرکاری دفاتر میں ان کے بہت ماننے والے ہیں۔ جب 10 سال قبل ترکی کی جماعت عدل اور ترقی پارٹی نے ترکی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو فتح اللہ گیلن کا پیسہ اور سرمایہ ان کی جیت میں کلیدی کردار کا حامل بنا۔ یہ پیسہ اور عوامی طاقت ترکی کی سیکولر فوج اور عدالت کو بھی سرنگوں کرنے میں کار آمد ثابت ہوا۔ اس مدد کے عوض فتح اللہ گیلن کو کھل کر کام کرنے کی چھٹی مل گئی اور ان کی تنظیموں اور فلاحی اور مذہبی ادارہ بہت زیادہ پھیل گئے۔
 
لیکن پچھلے سال جب ایک پارک کے معاملہ میں ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوغان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو حکومت کو مشکل پڑگئی۔ جب یہ طوفان تھما تو رجب طیب اردوغان کی عدل و ترقی جماعت کے خلاف ایک کرپشن کا مسئلہ اٹھایا گیا، جس کی وجہ فتح اللہ گیلن بتائے جاتے ہیں اور پھر ترکی میں نومبر 2013ء میں دو حریفوں کے درمیان ایک داخلی جنگ شروع ہوئی، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں پولیس افسران جو اس معاملہ کی تفتیش کر رہے تھے یا جن کا تعلق فتح اللہ سے تھا، ان سب کو بے دخل کیا گیا یا ان کے ارد گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ اس صورتحال کے بعد فتح اللہ سے وابستہ افراد کو گھیرا گیا اور اب جا کر اس کے وسیع و عریض پرایئویٹ سکول کے جال کو بند کرنے کا قانون لایا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں بظاہر کوئی نظریاتی یا مذہبی اختلاف نہیں نظر نہیں آتا۔ یہ صرف سیاسی اور مفاداتی جنگ ہے۔
 
البتہ کوئی تجزیہ کار یا خبر رساں ایجنسی اس بات کا اب تک واضع تعین نہیں کرسکی کہ ان دو سابق ساتھیوں میں یہ ٹوٹ پھوٹ کیوں شروع ہوئی۔ کچھ جگہوں پر یہ ظاہر ہوا ہے کہ فتح اللہ کے نیٹ ورک نے وہ فون کالیں نشر کر دیں، جس میں اردوغان کا میڈیا پر مکمل کنٹرول اور کرپشن ظاہر ہوتی ہے اور یہ سب اردوغان کے لئے اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ لیکن اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو ختم کر دیں گے اور خود کمزور ہوجائینگے۔ عین امکان یہ بھی ہے کہ اپنی شہرت مزید گرنے سے پہلے رجب طیب اردوغان 2015ء میں ہونے والے انتخابات کو پہلے کرانے کی کوشش کریں، البتہ اس کے آثار اب تک نظر نہیں آرہے۔ 

اصل بات ہے کہ اس سارے معاملات میں شیعہ کہاں سے آگئے اور رجب طیب اردوغان نے کیوں ترکی کے حکومتی حامی ٹی وی کو 13 مارچ کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے سابق حلیف فتح اللہ کے حامیوں کو نشانہ بنایا اور یہ بھی کہا کہ یہ شیعوں سے بدتر ہیں کیونکہ یہ تکیہ کرتے ہیں، بہتان باندھتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسا کرنے میں اردوغان نے ترکی کی ایک چوتھائی آبادی یعنی اہل تشیع کی تذلیل کی اور یہ بالکل اس کے برعکس ہے، جو 2010ء عاشورہ میں اردوغان نے تقریر میں کہا تھا کہ ہمیں قریب آنا ہوگا اور فاصلوں کو مٹانا ہوگا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا، ستمبر 2012ء میں شام کے معاملہ پر اردوغان نے یہ بھی کہا تھا کہ سوریہ میں جو آج کل ہو رہا ہے، وہ وہی ہے جو کربلا میں 1332 سال قبل ہوا۔ اس سب کو اگر مناقفت نہ کہیں تو کیا کہیں؟ کیا ایک ملک کے وزیراعظم کو ایسے فرقہ وارانہ بیانات دینے چاہیں۔؟

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ترکی کے شیعہ رہنما علی اوزگندوز جو کہ اپوزیشن یعنی عوامی رپبلیکن پارٹی سے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ "اردوغان نے لوگوں کو فرقہ واریت اور نفرت کی طرف راغب کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اردوغان کے بے لگام اور نفرت آمیز فرقہ وارانہ بیانات ہمارے معاشرے کے لئے خطرناک ہیں۔" اردوغان کے اس بیان کے ردعمل میں شیعہ عوام نے مظاہروں کا فیصلہ کیا تھا، لیکن امن و امان کے پیش نظر اس کو فی الحال ملتوی کر دیا ہے۔ اس کی وجہ استنبول کے اوکمیدانی میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کو فرقہ وارانہ رنگ میں بدلنے سے روکنا ہے۔ برکان نامی لڑکا پچھلے سال کے فسادات میں زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں علالت کے بعد پچھلے ہفتہ دم توڑ گیا اور اس کے بعد مظاہرے ایک بار پھر پھوٹ پڑے اور ان مظاہروں کا مرکز شیعہ آبادی کے ارد گرد کے علاقے ہیں۔ لہذا ترکی کی شیعہ آبادی نے اس منافقانہ بیان کے بعد صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وحدت کا ثبوت دیا ہے جس کا مظاہرہ وہاں کے وزیراعظم کو کرنا چاہیئے تھا۔
خبر کا کوڈ : 363918
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش