0
Friday 28 Mar 2014 13:31

بیٹوں کے باپ اور بھائیوں سے مذاکرات

بیٹوں کے باپ اور بھائیوں سے مذاکرات
تحریر: تصور حسین شہزاد

حکومتی اور طالبان کمیٹی کے مذاکرات کی اہم نشست ہوئی، جس میں طالبان اپنے "بابا" مولانا سمیع الحق کو استاد محترم کہہ کر عزت و احترام سے بلاتے رہے۔ اس دوران واقفان حال کا کہنا ہے کہ رستم شاہ مہمند کی تنقید پر طالبان رہنما قاری شکیل شدید غصے میں آگئے، تاہم میجر (ر) عامر نے انہیں یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ رستم شاہ مہمند ٹی وی ٹاک شوز میں طالبان کی وکالت کرتے رہتے ہیں اور ان کی یہ بات آپ کے موقف سے آگاہی کے لئے ہے۔ جس پر قاری شکیل خاموش ہوگئے۔ رستم شاہ مہمند نے طالبان رہنماؤں سے کہا کہ آپ جو جہاد پاکستان کے اندر دہشت گردی کی صورت میں کر رہے ہیں وہ دہشت گردی ہے جہاد نہیں۔ طالبان نے اس ملاقات میں یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے فرزندان کو رہا کرنے سے انکار کیا ہے، تاہم وہ دو افراد کی رہائی کے بدلے پروفیسر اجمل کو رہا کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ اس ملاقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ طالبان کو پیپلز پارٹی سے شکوہ ہے اور انہیں اس بات پر بھی دکھ ہے کہ سندھ کی جیلوں میں قید طالبان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔

اس ملاقات میں حکومت کی سنجیدگی اور طالبان کمیٹی کے رویے پر میڈیا میں "جشن" منایا جا رہا ہے اور طالبان نواز طبقے مصلے بچھا کر صرف ایک دعا کر رہے ہیں کہ طالبان کے حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔ طالبان کے یہ "دعائیہ" حامی اس لئے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی سے ملک میں امن قائم ہو جائے گا اور طالبان کی رٹ تسلیم کرکے انہیں بھی اسٹیک ہولڈر مان لیا جائے گا، جس کے بعد امن ہونے کی صورت میں طالبان سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئیں گے اور ان حامیوں کو پاکستان تحریک طالبان کا ٹکٹ ملے گا اور اس ٹکٹ کی بنیاد پر یہ الیکشن میں حصہ لیں گے اور فتح یاب ہو کر پارلیمنٹ کے معزز رکن بن جائیں گے۔ افسوس کہ ان کی یہ خواہشیں بھی خواہشیں ہی رہیں گی اور ان پر ہی ان کا دم نکلتا رہے گا۔

واضح اور کھلی بات یہ ہے کہ حکومت ہزار بار سنجیدگی دکھائے، یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہونے جا رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان ہی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ طالبان شوریٰ میں جو پانچ افراد شامل ہیں ان میں قاری شکیل، اعظم طارق، مولوی بشیر، مولانا احمد اور ڈاکٹر حسین ہیں۔ اس شوریٰ میں قاری شکیل اور مولوی بشیر دو الگ الگ دھڑوں کے کمانڈر ہیں اور دونوں کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس طرح قاری شکیل جس نقطے پر آمادگی کا اظہار کریں گے مولوی بشیر اس کی مخالفت کریں گے۔ جہاں تک اعظم طارق کی بات ہے تو اس کو طالبان اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ مولانا احمد بھی غیر مقبول شخصیت ہیں جبکہ ڈاکٹر حسین عسکری ماہر اور طالبان کے انسٹرکٹر ہیں، جو انہیں دہشت گردی کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ ان کی طالبان میں تھوڑی بہت قدر ہے۔

حکومت کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ اس لئے بھی کیا جا رہا ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب نے "ہدایات" دی ہیں کہ اپنے بچے ہیں ہاتھ "ہولا" رکھا جائے۔ اس کے علاوہ طالبان کے مزاج سے واقف حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مذاکراتی ڈرامہ محض وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں۔ اس عرصے کے دوران طالبان کو اپنے ہیڈ کوارٹرز دوسری جگہ منتقل کرنے کا موقع مل جائے گا، کیونکہ پاک فوج نے ان کے موجودہ ٹھکانوں کے نقشے حاصل کر لئے تھے اور پاک فوج کی جانب سے کارروائی کی صورت میں انہیں آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ طالبان کی قیادت نے صرف اپنے ٹھکانے تبدیل کرنے اور اچھے انداز میں تیاری کرنے کے لئے حکومت سے وقت مانگا ہے۔ طالبان اس وقت بیک وقت امریکہ اور بھارت سے ہدایات لے رہے ہیں اور ان کے منہ کو ڈالروں کی چاٹ لگ چکی ہے۔ انہیں پاکستان کے امن و امان سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی ملکی سالمیت کی کوئی فکر۔

طالبان ایک طرف تو مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں، دوسری جانب دہشت گردی کی وارداتوں کے لئے بھی تیاریاں جاری ہیں۔ اسلام آباد سے چار دہشت گرد پکڑے گئے، اسی طرح لاہور میں بھی حملوں کی اطلاعات کے بعد جیلوں کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایلیٹ فورس کے اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جبکہ دیگر سرکاری و مذہبی املاک کی سکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔ پنجاب کے حکمران اور وزیراعظم بھلے لاہور میں بغیر پروٹول کے پھرتے دکھائی دیتے ہیں، جو امن کی جانب اشارہ ضرور ہے لیکن ان عوام کا کیا بنے گا، جو طالبان کے رحم و کرم پر ہیں اور انہیں طالبان جب چاہتے ہیں نشانہ بنا دیتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہ کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی، لیکن اگر کوئی خود ساختہ خوش فہمی میں متبلا ہے تو رہے۔
خبر کا کوڈ : 366688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش