0
Monday 11 Jun 2012 13:44

مجلس وحدت مسلمین نے ابھی تک انتخابی اتحاد کا فیصلہ نہیں کیا، علی اوسط

مجلس وحدت مسلمین نے ابھی تک انتخابی اتحاد کا فیصلہ نہیں کیا، علی اوسط
سید علی اوسط سندھ میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور تحریک جعفریہ کے بانی رہنماوں میں سے ہیں۔ جو 1977ء سے شیعہ قومیات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے Mass Communication میں کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری حاصل تو کی لیکن صحافت میں آنے کی بجائے کاروبار کو ترجیح دی۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شخصیت سے متاثر علی اوسط ان دنوں مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری سیاسی امور ہیں۔ لگی لپٹی کے بغیر سیدھی بات کرنے کے عادی علی اوسط سے اسلام ٹائمز نے ان کی لاہور آمد کے موقع پر خصوصی انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

 اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کس سطح پر ہے، یہ ایک پریشر گروپ ہے یا سیاسی جماعت۔؟
سید علی اوسط: سیاسی طور پر ہم 25 مارچ 2012ء کو نشتر پارک کراچی میں منعقد ہونے والی قرآن و اہلبیت ع کانفرنس سے میدان میں آچکے ہیں۔ اس جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ابھی ہم اول پوزیشن کا دعویٰ تو نہیں کرتے، لیکن آنے والے دنوں میں انشاءاللہ مجلس وحدت مسلمین بھرپور سیاسی قوت کے طور پر ابھرے گی۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کسی انتخابی اتحاد کا حصہ بنے گی یا اکیلے انتخابات میں حصہ لیں گے۔؟
سید علی اوسط: اس حوالے سے تنظیم کے اندر بحث جاری ہے کہ سیاسی عمل اور انتخابات کے لئے کون سا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے عجلت میں کوئی اعلان نہیں کریں گے۔ کہ کس جماعت کے ساتھ جانا ہے۔ ویسے بھی عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے پہلے سیاسی صف بندی نہیں ہوگی۔ ہم محنت سے رابطہ عوام مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین ماہ سے کراچی، جھنگ، ملتان اور جہلم میں کئے جانے والے اجتماعات میں ہم نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اور قومی سیاسی معاملات بشمول مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، امریکی مداخلت، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور حکمرانوں کی شہ خرچیوں پر اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کیا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: سیاسی انتخابی اتحاد کیلئے کن جماعتوں سے بات چیت جاری ہے۔؟ عمران خان بھی آپ کی مرکزی قیادت سے مل چکے ہیں۔؟
سید علی اوسط: عمران خان مجلس وحدت مسلمین کے قائدین سے اتحاد کیلئے نہیں تبادلہ خیال کے لئے آئے تھے۔ پوری ملاقات میں میں خود شامل تھا، اتحاد کا کوئی لفظ شامل نہیں تھا۔ صرف ملکی صورتحال پر بات چیت ہوئی کہ قومی اور بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کا موقف جان سکیں۔ اتحاد کیلئے کسی بھی جماعت سے بات چیت نہیں چل رہی۔ البتہ مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ضرور ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کی جماعتوں میں سے آپ کی جماعت کس کے زیادہ قریب ہے۔؟
سید علی اوسط: سچ پوچھیں تو کسی جماعت کا موقف بھی ہمارے قریب نہیں ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق مذاکرات بھی کئے جاتے ہیں۔ اور ہم بھی کریں گے، کیونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ جس کے لئے امام خمینی (رہ) کی فکر کی روشنی میں شہید قائد علامہ عارف الحسینی کی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کن انتخابی حلقوں میں امیدوار کھڑے کرنے کی پوزیشن میں ہے، یا کسی کو جتواے یا ہروانے کی پوزیشن میں ہے؟ کیا  اس سلسلے میں کوئی ہوم ورک کیا گیا ہے۔؟
سید علی اوسط: بالکل ہمارا ہوم ورک مکمل ہے۔ جو ہمارے اسلام آباد دفتر میں موجود ہے کہ کن حلقوں میں شیعہ ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے۔ یا جہاں کوشش کریں اور دیگر جماعتوں سے معاملات طے کرلیں۔ positively in ہوں تو وہاں سے سیٹ نکال سکتے ہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے یا اکیلے یہ سب ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ حلقہ بندیوں کے مطابق کن علاقوں میں امیدوار کھڑے کر سکتے ہیں، ہمارے پاس اس کی معلومات موجود ہیں۔ البتہ سردست یہ سب بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ 

اسلام ٹائمز: 6 جولائی 1987ء میں آپ سے پہلے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے شہید قائد علامہ عارف الحسینی سیاسی روڈ میپ کا اعلان کر چکے ہیں۔ پھر علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت میں تحریک جعفریہ پاکستان کے نام سے انتخابات میں حصہ بھی لیا، لیکن کہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔؟
سید علی اوسط: یہ تجربات ہمارے ذہن میں ہیں اور جو لوگ اس عمل میں شامل رہے ہیں۔ ان سے بات چیت ہوئی بھی ہوئی ہے۔ ہم ان کے تجربات کو مدنظر رکھیں گے۔ ان سے گفتگو کر کے ہم اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔ اسی لئے ہم نے ابھی تک حتمی اقدام کا فیصلہ نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے پہلا الیکشن باقاعدہ ایک انتخابی نشان تختی کے تحت لڑا تھا۔ یہ بھی ہماری نظر میں ہے۔ اس لئے انتہائی محتاط طریقے سے فیصلے کر رہے ہیں اور سوچ سمجھ کر انتخابی سیاست میں وارد ہوں گے۔ بے دھڑک الیکشن میں نہیں کودیں گے۔ 

اسلام ٹائمز: کیا آپ خود الیکشن لڑیں گے۔؟
سید علی اوسط: (قہقہہ لگاتے ہوئے) اول تو اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ الیکشن لڑنا ہے یا نہیں۔ اگر ہماری جماعت کے اداروں نے فیصلہ کیا اور مجھے کہا گیا تو الیکشن ضرور لڑوں گا۔ نہ لڑنے والی بات تو نہیں کہہ سکتا۔
خبر کا کوڈ : 169741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش