1
Sunday 28 Apr 2024 20:30

طلبہ احتجاجی تحریک نے امریکی خارجہ پالیسی کی بحرانی صورتحال عیاں کر دی ہے، پروفیسر کولمبیا یونیورسٹی

طلبہ احتجاجی تحریک نے امریکی خارجہ پالیسی کی بحرانی صورتحال عیاں کر دی ہے، پروفیسر کولمبیا یونیورسٹی
اسلام ٹائمز۔ امریکی یونیورسٹیوں میں مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں اور غاصب صیہونی رژیم کی بربریت اور جنگی جرائم کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ احتجاجی تحریک کے بارے میں مختلف تجزیے اور آراء سامنے آ رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک تجزیہ معروف امریکی جریدے فارن پالیسی میں سامنے آیا ہے جس کے مصنف کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہوارڈ ڈبلیو فرنچ ہیں۔ وہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ یونیورسٹی طلبہ نے اپنے احتجاج کے دوران مختلف قسم کے مطالبات پیش کئے ہیں جو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے سے شروع ہوتے ہیں لیکن ان کے اہداف صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مطالبہ تمام امریکی یونیورسٹیوں کی جانب سے اسرائیل میں جاری سرمایہ کاری ختم کر کے امریکی اور اسرائیلی مرکز میں رابطہ منقطع کر دینا ہے۔ ہوارڈ ڈبلیو فرنچ لکھتے ہیں کہ جو چیز حالیہ عظیم طلبہ احتجاجی تحریک کے آغاز کا باعث بنی ہے وہ غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ اور انسان سوز مظالم ہیں۔ اس کے علاوہ احتجاج کرنے والے یونیورسٹی طلبہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مبنی امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بھی شدید اعتراض کر رہے ہیں جبکہ ان میں کسی قسم کی یہود دشمنی یا یہودیوں سے نفرت نہیں پائی جاتی۔
 
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہوارڈ ڈبلیو فرنچ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آج امریکی یونیورسٹیوں میں جو کچھ انجام پا رہا ہے وہ امریکی حکام کے دعووں کے برعکس صرف یونیورسٹی کی حد تک بحران نہیں ہے بلکہ درحقیقت ایک سیاسی بحران ہے جو امریکہ کی خارجہ پالیسیوں اور اسرائیل کے ساتھ اس کے گہرے اور قریبی تعلقات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں رونما ہونے والی عظیم طلبہ احتجاجی تحریک، جس کا آغاز کولمبیا یونیورسٹی سے ہوا ہے، ہر گز یہود دشمنی پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ اور غیر منطقی شدت پسندی ہے۔ پروفیسر ہوارڈ ڈبلیو فرنچ نے کہا کہ امریکہ کے کچھ مشہور سیاست دان احتجاج کرنے والے طلبہ پر یہودیوں کے خلاف منافرت پھیلانے کا الزام عائد کر رہے ہیں لیکن ہم جس حقیقت کا امریکی یونیورسٹیوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں وہ اس کے برعکس ہیں۔ احتجاج کرنے والے طلبہ نے حتی اپنے احتجاج کیلئے قوانین وضع کر رکھے ہیں اور وہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ ان قوانین میں صفائی کا خیال رکھنا اور دوسروں کی پرائیویسی کا احترام اور مخالفین سے الجھنے سے گریز کرنا شامل ہیں۔
 
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہوارڈ ڈبلیو فرنچ نے کہا: "اب یہ سوال پوچھنے کا وقت آن پہنچا ہے کہ اگر وہ صورتحال جو اس وقت غزہ میں ہے دنیا کے کسی دوسرے حصے میں ہوتی اور یہی طلبہ احتجاجی تحریک جو آج امریکی یونیورسٹیوں میں شروع ہوئی ہے کسی اور ملک میں شروع ہوتی اور احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف اس طرح طاقت کا بے جا استعمال کیا جاتا تو امریکی حکام کا ردعمل کیا ہوتا؟ ایسی صورتحال میں امریکی حکام کے ردعمل کے بارے میں بہت آسانی سے جو اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر غزہ میں رونما ہونے والے انسان سوز مظالم نیز امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال دنیا کے کسی بھی اور حصے میں ہوتا تو امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان اس کی شدید مذمت کرتے اور اسی طرح امریکی ذرائع ابلاغ میں شدید انداز میں اس کے خلاف مقالے شائع کئے جاتے اور "ڈیموکریسی کی حمایت" میں اونچے اونچے نعرے لگائے جاتے۔"
خبر کا کوڈ : 1131774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش