0
Friday 15 Jun 2012 18:19

کالعدم سپاہ صحابہ کی بڑھتی سرگرمیاں ہزارہ ڈویژن کے امن کیلئے خطرہ

کالعدم سپاہ صحابہ کی بڑھتی سرگرمیاں ہزارہ ڈویژن کے امن کیلئے خطرہ
صوبہ خیبر پختونخوا کا علاقہ ہزارہ ڈویژن اپنے پرامن ماحول کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم حالیہ چند ماہ کے دوران کالعدم اور فرقہ پرست تنظیم سپاہ صحابہ کی جانب سے اس پرامن علاقہ کا امن بھی سبوتاژ کرنے کی درپردہ کوششیں شروع کر دی گئی ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کسی قسم کا نوٹس نہ لینا اس تنظیم کے کارندوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، کوہستان اور بٹ گرام میں کالعدم سپاہ صحابہ کے تحت تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، جن میں حسب روایت تکفیری نعروں کے علاوہ دیگر مسالک بالخصوص مکتب تشیع کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ انتظامیہ کا ان اجتماعات کے انعقاد میں خلل نہ ڈالنا خاموش حمایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق ضلع ہری پور میں کالعدم تنظیم کی جانب سے اکثر تقریبات اور جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ میں ہری پور میں مختلف واقعات کے دوران اہل تشیع کے تین افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا تھا، اس کے علاوہ ایبٹ آباد میں بھی کالعدم سپاہ صحابہ کے پروگرامز تواتر کے ساتھ منعقد ہو رہے ہیں، جبکہ شہر میں مختلف مقامات پر وال چاکنگ بھی کی گئی ہے، کچھ عرصہ قبل سپاہ صحابہ پارا چنار کی جانب سے ایبٹ آباد شہر میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا تھا، اس جلسہ میں کالعدم تنظیم کے ان دہشتگردوں نے بھی شرکت کی تھی جو سرزمین پارا چنار کے بے گناہ بچوں اور خواتین سمیت پرامن شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔
 
ایبٹ آباد کی انتظامیہ نے ان دہشتگرد عناصر کو نہ ایبٹ آباد میں داخل ہونے سے روکا اور نہ ہی فرقہ پرستی پر مبنی اس جلسہ پر پابندی عائد کی گئی۔ اس اجتماع میں بھی غلیظ نعرہ بازی اور تقاریر کی گئیں۔ ایبٹ آباد میں یہی کالعدم جماعت اہل سنت (بریلوی) مسلک سے تعلق رکھنے والے  شہریوں کی کئی مساجد پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کرچکی ہے، بعض اوقات تو انتظامیہ کی جانب سے تھوڑی بہت مداخلت کی گئی، تاہم اکثر سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا، ایبٹ آباد کے مختلف امن پسند حلقے سپاہ صحابہ کی ان سرگرمیوں سے تحفظات اور خدشات کا شکار ہیں، تاہم خوف کے باعث اس اہم ایشو پر بات کرنے سے گریزاں بھی نظر آتے ہیں۔
 
مختلف سنجیدہ حلقوں نے اسلام ٹائمز کے ساتھ بات چیت میں کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں کے حوالے سے کھل کر بات کی، تاہم ساتھ ہی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست بھی کی۔ مذکورہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ہم کسی صورت سپاہ صحابہ کی ان کارروائیوں سے خوش نہیں ہیں، تاہم جب ہم انتظامیہ سے بات کرتے ہیں تو وہ ہمیں براہ راست مقدمہ درج کرنے یا شخصیات کی نشاندہی کرنے کا کہتی ہے، جو ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔

علاوہ ازیں ہزارہ ڈویژن کے ضلع مانسہرہ میں بھی ایس ایس پی کی سرگرمیاں انتہائی فعال نظر آتی ہیں، جابجا وال چاکنگ، متعلقہ انتظامیہ کی خاموشی اور جانبداری کو واضح کر رہی ہے، مانسہرہ میں کالعدم جماعت نے مختلف یونٹس تشکیل دیکر اپنی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جن میں امیر معاویہ یونٹ شنکیاری، خالد بن ولید یونٹ، علی مرتضٰی یونٹ وغیرہ شامل ہیں، اس کے علاوہ ضلع کے مختلف علاقوں میں اعظم طارق اور حق نواز جھنگوی کے نام سے شدت پسندی پر مبنی وال چاکنگ بھی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال 12ربیع الاوال کو جشن میلاد النبی (ص) کے جلوس پر کالعدم تنظیم کے دہشتگردوں کی فائرنگ سے سنی تحریک کے 2 کارکن شہید اور کئی زخمی ہو گئے تھے، جس کے بعد سنی تحریک کے زیراہتمام مانسہرہ میں بھرپور احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

ہزارہ ڈویژن میں شامل ضلع کوہستان جہاں رواں سال درندہ صفت دہشتگردوں نے انسانیت کو شرما دینے والے ایک واقعہ میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے 18 افراد کو بس سے اتار کر شہید کر دیا تھا، میں کالعدم تنظیم کی سرگرمیاں اور فعالیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، تکفیری گروہوں نے کوہستان میں سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں بھی چلاس طرز پر اس قسم کا غلیظ پروپیگنڈا بھر دیا ہے کہ کوہستان کے دور دراز پہاڑوں پر رہنے والے اکثر لوگ اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ ضلع کوہستان میں شرح خواندگی صوبہ خیبر پختونخوا میں سب سے کم ہے، اور یہ علاقہ کافی پسماندہ شمار کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر فرقہ پرست گروہ اپنی اسلام دشمن سوچ عام لوگوں پر تھوپنے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔

کوہستان میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے 18 اہل تشیع کے قتل عام کے باوجود اس علاقہ میں فرقہ پرست دہشتگردوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی، کوہستان میں اس کالعدم تنظیم کے علاوہ شدت پسند طالبان کی موجودگی کی اطلاعات بھی اکثر میڈیا میں آتی رہی ہیں، سوات میں قیام امن کیلئے ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد کئی دہشتگرد قریبی قبائلی علاقہ باجوڑ کے علاوہ شانگلہ کے راستے کوہستان میں داخل ہوئے تھے، جس پر مقامی امن پسند عوام نے شدید تشویش کا اظہا رکیا تھا، ذرائع نے بٹگرام کے علاقہ میں بھی شدت پسند تکفیری گروہ کی موجودگی اور فعالیت کی تصدیق کی ہے۔ واضح رہے کہ کوہستان اور بٹگرام کے علاقے پشتون آبادی پر مشتمل ہیں، اور یہاں لوگ مذہب سے لگائو رکھتے ہیں۔

فرقہ پرست گروہ انہی نکات کو مدنظر رکھ کر ان علاقوں میں اپنے آپ کو مذہبی تنظیم کے طور پر پیش کرنے میں سرگرم ہے، تاکہ سادہ لوح عوام کی حمایت حاصل کرنے کے بعد اپنے اصل ایجنڈے (مسلمانوں کو تقسیم کرنا اور بے گناہوں کو قتل کرنا) کی طرف آئے، مشاہدہ میں آیا ہے کہ ملک کے ایسے مقامات جہاں اہل تشیع تعداد کے اعتبار سے کم ہوں، وہاں کالعدم سپاہ صحابہ اپنا امیج بہتر بنانے کی کوششیں کرتی ہے اور پھر اپنے مخصوص ناپاک عزائم کی تکمیل کی کوششیں شروع کر دیتی ہے۔
 
کالعدم تنظیم کی اسی قسم کی سرگرمیاں ہزارہ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں کافی عرصہ سے جاری ہیں، اور کالعدم جماعت ہونے کی باوجود نہ تو اس کے جلسوں کو روکا جا رہا ہے اور نہ ہی اس جماعت کے رہنمائوں کی سرگرمیوں پر کسی قسم کی نظر رکھی جا رہی ہے، اگر صورتحال اسی طرح رہی تو خیبر پختونخوا صوبے کا یہ وہ واحد خطہ جہاں امن قائم ہے، بدامنی کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ سمیت صوبائی حکومت کو اپنی آئینی و قانونی فرض ادا کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اگر یہ فرقہ پرست تنظیم اس علاقہ میں بھی اپنی مزموم کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ ہزارہ ڈویژن سمیت صوبہ بھر کے امن کیلئے خطرہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 171481
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش