0
Friday 7 Nov 2014 12:41

برطانیہ کے دورے پر محمود خان اچکزئی کا خصوصی خطاب

برطانیہ کے دورے پر محمود خان اچکزئی کا خصوصی خطاب
رپورٹ: این ایچ حیدری

آکسفورڈ یونیورسٹی لندن کیجانب سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ محمود خان اچکزئی نے اپنے دورے کے موقع پر منعقدہ تقریب میں یونیورسٹی انتظامیہ، پروفیسرز اور طالبعلموں سے خصوصی خطاب اور ملاقاتیں کی۔ آکسفورڈ اسٹوڈنٹس یونین سے خطاب کے موقع پر محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ میں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرسکوں۔ یہ اکیسویں صدی ہے، میرے بچے اپنی زبان میں نہیں پڑھ سکتے۔ حالانکہ اللہ نے ہر قوم کو اپنی مقدس کتابیں اس قوم کی زبانوں میں دی۔ بابائے قوم نے ڈھاکہ میں بنگالیوں پر اردو مسلط کرنے کی کوشش کی، جو انہوں نے نہیں مانی۔ طلباء نے بنگلہ زبان کے حق میں مظاہرے کئے، جن پر گولیاں چلائی گئیں اور طلباء کو شہید کیا گیا۔ جو میرے خیال میں بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا پتھر بن گیا۔ میرے دادا افغانستان میں پیدا ہوئے جبکہ میرا باپ ہندوستان میں اور میں پاکستان میں پیدا ہونے والا ان کا پہلا بچہ تھا۔ افغان، ہندوستانی اور پاکستانی بننے کے لئے ہمیں گھر یا گاوں تبدیل نہیں کرنا پڑا۔ احمد شاہ ابدالی کی سلطنت (1772ء) میں ہمارا گھر افغانستان کا حصہ تھا اور ہمارے اباء و اجداد نے افغان لشکروں کی قیادت کی۔ پانی پت کی لڑائی میں افغان لشکر نے نیٹومرہٹہ فوج کو شکست دی۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے اور پلاسی میں سراج الدولہ کی شکست سے حالات بدل گئے۔

مختصراً یہ کہ کوئٹہ کو افغانستان سے الگ کرکے بلوچستان ایجنسی کا حصہ بنایا گیا۔ پھر باری باری پشین، لورالائی، ژوب، سبی اور کئی افغان علاقوں کو افغانستان سے کاٹ دیا گیا اور برٹش بلوچستان کا غیر منطقی اور غلط نام دیا گیا۔ برطانوی مصنف اولف کیرو لکھتا ہے کہ یہ سارے لوگ افغان ہیں، پشتون ہیں تو بلوچستان کا نام غلط نامی ہے۔ انگریز یعنی آپ لوگوں نے ہمارے وطن کو تقسیم کیا۔ پھر ہم پر ہر طرح کا جبر کیا۔ میں نے اپنے والد کو پوری زندگی میں تین مرتبہ دیکھا ہے۔ باقی وہ جیلوں میں اسیری کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی زمین پر غیروں کے تسلط کے خلاف تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ان تمام سیاسی قائدین پر سرخ لکیر کھینچی گئی، جنہوں نے انگریز سے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی تھی اور وہ سب پاکستان نہیں چاہتے تھے۔ سیالکوٹ کے علامہ اقبال بھی اشعار پڑھتے تھے، (سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا) محمد علی جناح بھی آئینی ضمانت مانگ رہے تھے تو پاکستان اس پر تھونپا گیا۔ لاہور کی قرارداد میں بھی ایک ریاست کی نہیں بلکہ خودمختار ریاستوں کی بات کی گئی تھی۔ لوگوں کو ہندوستان میں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ آج میں یہاں لندن میں ایک نائی کے دوکان پر بال بنوانے گیا۔ دوکان کا مالک رامو لالا بنگلور کا ہندوستانی تھا۔ اس کے ساتھ دو جوان کام کر رہے تھے، ایک کا نام عمران تھا وہ لاہور کا تھا اور دوسرے کا نام مظہر تھا، وہ کوٹلی کشمیر کا تھا۔ وہ سب خوش تھے کسی کو کوئی تکلیف نہیں تھی۔

حاضرین اس کے بعد ہم پر مصیبت کے پہاڑ توڑے گئے۔ بے انصافیاں شروع ہوئی، میرے والد کو بم مار کر شہید کیا گیا۔ ہمیں جلی ہوئی لاش ملی۔ اس کے بعد بھی ہم نے جمہوریت کا دامن نہیں چھوڑا۔ محمد علی جناح نے اپنے قلم سے پشتونوں کی منتخب حکومت برطرف کی۔ جس کی قیادت باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کر رہے تھے اور ڈاکٹر خان صاحب و باچا خان کو صعوبتیں دیں۔ لیکن جب ڈاکٹر خان صاحب نے ان کی بات مان لی تو اسے ون یونٹ میں مغربی پاکستان کا وزیراعلٰی بنایا گیا۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شامل ہونے سے انکار کیا تو راتوں رات ساری مسلم لیگ ان کی پارٹی میں شامل ہوگئی۔ میں زندگی میں آج پہلی مرتبہ اعتراف کرتا ہوں، کیونکہ یہاں پر روح بولتی ہے۔ ہاں میں آج اعتراف کرتا ہوں کہ 6 مارچ 1977ء کو مجھے بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ نے بلایا اور کہا کہ آپکے والد میرے دوست تھے۔ 7 مارچ 1977ء کو قومی اسمبلی کے جو انتخابات ہو رہے ہیں، ہمیں اسلام آباد سے سخت احکامات موصول ہوئے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کو کسی صورت بھی جیتنے نہیں دینا ہے۔ یحیٰی بختیار کو ہر صورت میں جتوانا ہے۔ 7 مارچ کو میں نے 25000 سے زائد ووٹ لیئے، ایک آزاد امیدوار نے 8000 اور یحیٰی بختیار نے بھی 8000 ووٹ لئے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد یحیٰی بختیار کو کامیاب قرار دیا گیا۔ میرا خیال تھا بلکہ خوش فہمی تھی کہ آکسفورڈ کا گریجویٹ یحیٰی بختیار زندگی کے کسی موڑ پر سچائی دنیا کو بتائے گا کہ محمود جیت گیا تھا اور اسے ہرایا گیا۔ لیکن آکسفورڈ کے اس گریجویٹ کو یہ توفیق آج تک نہیں ہوئی۔ پھر ضیائی مارشل لاء میں ہماری پارٹی نے ہر صورت میں مارشل لاء کی مخالفت اور جمھوریت کی بحالی کا فیصلہ کیا۔

7 اکتوبر 1983ء کو دن دیہاڑے ایک پرامن جلوس پر سیدھی گولیاں ماری گئی۔ میرے چار ساتھی شہید ہوئے۔ سب کو سینے پر گولیاں ماری گئی تھی۔ دنیا کے مہذب لوگ اپنے لوگوں کو سینے پر گولیاں نہیں مارتے۔ بہت ہی کشیدہ حالات میں ٹانگوں پر گولیاں چلانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ مجھے ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا اور ہماری پارٹی نے فیصلہ کیا کہ کسی صورت گرفتاری نہیں دینی ہے۔ میں 5 سال تک انڈر گراونڈ رہا، میں نے اس دوران شادی کی اور میرے تین بچے ہیں۔ یہ ضیاءالحق کے مارشل لاء کا ہمارے لئے تحفہ تھا۔ میری بات کے تین پہلو ہیں۔ میں پشتون ہوں، میں مسلمان ہوں اور میں پاکستان میں رہتا ہوں۔ سب سے پہلے میں پشتون ہوں، افغان ہوں۔ میری اپنی روایات ہیں۔ دنیا کو میرے بارے میں گمراہ کیا گیا ہے کہ میں دہشتگرد ہوں۔ میں یہ بات سختی سے مسترد کرتا ہوں کہ ہم نہ کبھی پہلے دہشتگرد، فرقہ پرست یا بنیاد پرست تھے نہ آج ہیں۔ یہاں بیٹھے تاریخ دان کسی بھی کتاب کا حوالہ نہیں دے سکتے، جس میں پشتون افغان کو دہشتگرد یا فرقہ پرست کہا گیا ہو۔ ہر کوئی دہشتگردی کی اپنی ایک تھیوری بنا چکا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب روسی افغانستان میں داخل ہوئے تو برطانیہ، امریکہ، جاپان، عرب اور حتٰی چین بھی مقدس جنگ کے نام پر ایک ہوگئے۔ جتنا پیسہ اور اسلحہ مقدس جنگ کیلئے لایا گیا، وہ آئی ایس آئی کے ہاتھوں تقسیم کیا گیا۔

ہاں ان سب چیزوں کی نگرانی آئی ایس آئی کو دی گئی۔ ایمن الظواہری  مصر کی جیل میں پھانسی کا منتظر تھا۔ اس پر انور سادات کے قتل کا کیس تھا، جس میں اسے سزاء سنائی گئی تھی، لیکن اس کو بھی رہا کرکے مقدس جنگ کے لئے لایا گیا۔ پاکستان کے کرنل امام نے پاکستان کے ایک ٹیلیویژن پر خود اعتراف کیا کہ پاکستان نے 90 ہزار لوگوں کو خطرناک جنگی تربیت دی۔ افغانستان میں داخل کرایا، لیکن جب روسی ایک طرف سے نکل گئے تو امریکہ بہادر اور اس کے مقدس جنگ کے ساتھی زخمی اور بکھرے ہوئے افغانستان کو لاوارث چھوڑ کر دوسری طرف سے نکل گئے۔ یہ آپ سب کے ذمے قرض ہے کہ افغانستان کو آپ نے برباد کیا ہے اور اسی بربادی کے نتیجے میں دہشتگردی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔ پھر جب تورا بورا پر بمباری ہوئی تو جہاں آگ لگ جائے، وہاں سے بھاگنا اور پڑوس میں چھپنا ہر ذی روح کا حق ہے، لیکن ان لوگوں کو وزیرستان سے لیکر باجوڑ میں کس نے اتنا طاقتور بنایا۔؟ انہوں نے بہادر جنگجو پشتونوں کو زیر کرلیا۔ ایک باہر کا مسافر کسی کی مدد کے بغیر کسی پشتون کے گھر پر قبضہ نہیں کرسکتا۔

ہم مسلمان ہیں، ہم سب بی بی حواء اور حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ہم قرآن سمیت سب خداوندی کتابوں کے ماننے والے ہیں۔ ہم اس قسم کے مسلمان ہیں جو ایک انسان کے بے گناہ قتل کو ساری انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔ ایک انسان کی زندگی بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کے برابر سمجھتے ہیں۔ ہم کسی انسان سے اس کے رنگ، نسل، زبان، مذہب یا علاقے کی بنیاد پر اپنی دوستی یا دشمنی کا فیصلہ نہیں کرتے۔ ہم قران پاک، تورات، زبور اور انجیل کو مقدس سمجھتے ہیں۔ تیسری بات پاکستان کی ہے۔ ہم پاکستان کو پشتونوں، بلوچوں، سرائیکیوں، سندھیوں اور پنجابیوں کی ایک فیڈریشن سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے وسائل پر اپنے اختیار کی بات کرتے ہیں۔ ہم ایک قومی وحدت، جس میں خیبر پشتونخوا، برٹش افغانستان، اٹک اور میانوالی سمیت تمام پشتون علاقے شامل ہوں، پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم کسی کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن جو ہمارا ہے، اس کو متحد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم جو اپنے لئے مانگتے ہیں وہ بلوچ، سندھی اور سرائیکی کے لئے بھی مانگتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں کسی ڈکٹیٹر کو نہ پہلے کبھی تسلیم کیا ہے اور نہ آئندہ کریں گے۔ میرے باپ نے اسی جمھوریت پسندی کے جرم میں 20 سال سے زیادہ پاکستانی جیلوں میں گزارے ہیں۔ ہم جمھوریت پر یقین رکھتے ہیں، ہم پاکستان میں آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے لئے ہمارے کارکنوں نے قربانیاں دیں ہیں۔ ہم پاکستان کی سول سوسائٹی، جوڈیشری اور پارلمینٹ کو پہلی مرتبہ مضبوط دیکھ رہے ہیں۔ ہم ہر اس قوت کے ساتھ ہیں جو پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کے ساتھ ہے۔
خبر کا کوڈ : 418347
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش