0
Wednesday 12 Nov 2014 10:59

نواز لیگ میں گروپ بندیاں

نواز لیگ میں گروپ بندیاں
     

            باخبر ذرائع کے مطابق حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 15ارکان پارلیمنٹ کا ایک بلاک سامنے آ سکتا ہے جو وزیراعظم نوازشریف کے لیے ایک نیا سیاسی چیلنج ہو گا جو بظاہر عمران خان اور طاہرالقادری کی سربراہی میں احتجاج کے ابتدائی حملوں سے بچ نکلے ہیں۔ پارٹی کے ساتھ پہلااختلاف رائے اس وقت سامنے آیا جب شریف بردران کے ایک اہم ساتھی سینیٹر ذوالفقار کھوسہ وزیراعظم اور ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ اپنے اختلافات کے حوالے سے کھل کر سامنے آئے۔ ذوالفقار کھوسہ اور ان کے بیٹے دوست محمد کھوسہ اس وقت ناراض گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ دوست کھوسہ نے جو 2009ء میں مختصر مدت کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے، کھل کرمسلم لیگ (ن) کی قیادت پر تنقید کی۔ حکمران جماعت کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم 4 ارکان قومی اسمبلی بھی پارٹی کے اندر بڑا پریشر گروپ بنانے کے لیے بھرپور سرگرم عمل ہیں۔ سابق وزیرمملکت امور خارجہ عبدالرحمن کانجو، سابق وزیر مملکت امور خارجہ صاحبزادہ نذیر سلطان، نجف علی اور رکن قومی اسمبلی رشیدخان اس گروپ کاحصہ ہیں۔ 

ذرائع نے بتایا ہے کہ اس گروپ کااجلاس 10نومبر کو پارلیمنٹ لاجز میں ہوا۔ جس میں مستقبل کی حکمت عملی بنانے پر غور کیا گیا۔ ناراض ارکان میں سید غوث علی شاہ بھی شریف برادران کے لیے پریشانی کا باعث ہیں جو مسلم لیگ (ن) سندھ کے سابق صدر اور صدارتی منصب کے مضبوط امیدوار تھے۔ وہ پارٹی میں ناراض گروپ کا حصہ ہیں جو وزیراعظم نوازشریف کے خلاف جماعت میں گروپ بنانے کی کوشش میں ہے۔ 

وزیراعظم نوازشریف نے اس ماہ کے شروع میں صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے صاحبزادہ نذیرسلطان سے ملاقات بھی کی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ناراض گروپ کی حمایت نہ کریں تاہم وزیراعظم کی یقین دہانیوں اور وعدوں کے باوجود ملاقات کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلیے وزیراعظم نوازشریف نے اب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور پنجاب کے وزیر محنت و انسانی وسائل راجہ اشفاق سرور کو یہ ذمے داری سونپی ہے کہ وہ ناراض ارکان سے ملاقات کریں اور ان کی شکایات کے فوری ازالے کے لیے کوششیں شروع کریں۔ 

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اور پارلیمانی سیاست میں اس طرح کا چھوٹا ناراض گروپ پریشانی کا باعث نہیں بن سکتا لیکن وزیراعظم نواز شریف سمجھتے ہیں کہ پارٹی معاملات میں کسی قسم کی کمزوری ان قوتوں کے لیے تقویت کا باعث بن سکتی ہے جو انہیں اقتدار سے ہٹانے کی کوششیں کر رہی ہیں اور یہ کمزوری عمران خان جیسے حزب اختلاف کے رہنماؤں کاحوصلہ بڑھائے گی۔
خبر کا کوڈ : 419120
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش