0
Tuesday 14 Aug 2012 23:26

70 فیصد طالبان رہنماء القاعدہ سے تعلقات کے مخالف ہیں، امریکی جریدہ

70 فیصد طالبان رہنماء القاعدہ سے تعلقات کے مخالف ہیں، امریکی جریدہ
اسلام ٹائمز۔ ایک امریکی جریدے نیوز ویک نے دعویٰ کیا ہے کہ 70 فیصد طالبان رہنماء اور کمانڈرز القاعدہ سے تعلق نہیں چاہتے، طالبان عسکریت پسندوں اور القاعدہ کے درمیان انتہائی کشیدگی ہے، افغان طالبان کی خواہش تھی کہ القاعدہ افغانستان چھوڑ دے، امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ القاعدہ ہے، القاعدہ نے سراج حقانی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر طالبان شوریٰ ان کیخلاف ہوئی تو وہ انہیں کباب بنا دیں گے۔ القاعدہ نے کوئٹہ شوریٰ کو سخت الفاظ میں امریکہ سے مذاکرات ختم کرنے کے دھمکی آمیز خط بھیجے ہیں۔ طالبان القاعدہ کی طویل اور جان لیوا رسائی کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ القاعدہ نے طالبان کیخلاف جہاد کااعلان کر دیا ہے۔ 

امریکی جریدے نیوز ویک کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق طالبان اپنے القاعدہ کی وجہ سے بیمار اور پریشان ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دہشتگرد گروپ کہاں جائے۔ ایک سال قبل طالبان دور حکومت کے وزیر خزانہ آغا خان معتصم کو گولیاں مار کر مردہ حالت میں کراچی کی گلیوں میں پھینک دیا گیا لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے، اپنے قتل کے اقدام کے پیچھے ہاتھ کا الزام معتصم القاعدہ پر نہیں ڈالتے تاہم ان کے حامیوں کی بڑی تعداد کو یقین ہے کہ اس اقدام کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ تھا کیونکہ معتصم چاہتے تھے کہ باغی طالبان القاعدہ سے علیحدہ ہو جائیں اور وہ افغانستان میں ایک سیاسی حل کی تلاش کے خواہش مند تھے۔ 

جریدے کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں معتصم نے کہا تھا کہ وہ خاموش نہیں رہیں گے، بہت سے سینئر طالبان کمانڈرز خونریزی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ افغانستان میں القاعدہ کے ایک سینئر آپریٹو نے ایک رابطہ کار کے ذریعے معتصم کو خبردار کیا کہ وہ امن بات چیت کی باتیں بند کریں اور القاعدہ اور طالبان کے درمیان دیرینہ تعلقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں چھوڑ دیں۔ معتصم نے امریکہ کے ساتھ افغانیوں کی بات چیت کی خواہش کو ترک نہیں کیا لیکن طالبان القاعدہ کی طویل اور جان لیوا رسائی کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ 

نیوز ویک کے مطابق معتصم کا کہنا ہے کہ کسی بھی پرامن حل اور اس معاہدے میں شامل رہنمائوں کیلئے القاعدہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سینئر طالبان رہنمائوں تک اب بھی القاعدہ کی رسائی آسان ہے اور انہیں وہ ڈرا کر یا دوسری صورت میں قائل کرنے میں بھی کافی مضبوط ہیں۔ القاعدہ کا موقف ہے کہ کافروں سے بات چیت نہیں ہونی چاہئے اور طالبان القاعدہ سے تعلق ختم نہ کریں۔ جریدے کے مطابق امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ القاعدہ ہے۔ امریکہ کے دو دیگر مطالبات کو طالبان تسلیم کر سکتے ہیں جن میں طالبان کی طرف سے تشدد کی مذمت اور افغان آئین کو تسلیم کرنا شامل ہے لیکن جب تک ملا عمر کا گروپ القاعدہ سے اپنے تعلق کو ختم نہیں کرتا امریکی انخلاء کے باوجود افغان جنگ جاری رہے گی۔ 

ہیلری کلنٹن نے بھی طالبان سے یہی مطالبہ کیا تھا کہ وہ القاعدہ سے اپنا ناطہ ختم کریں۔ جریدے کے مطابق جس طرح نائن الیون کے بعد ملا عمر سب کچھ کھو بیٹھے تھے وہی صورتحال دوبارہ آج ان کیلئے پیدا ہو چکی ہے۔ ملا عمر کے پیروکاروں کی شدت سے خواہش ہے کہ وہ اس نام نہاد اتحادی سے چھٹکارا حاصل کریں۔ افغان صدر حامد کرزئی کے سینئر مشیر کا کہنا ہے کہ طالبان اب بھی بموں، آئی ای ڈیز بنانے اور خاص طور پر شہروں میں جدید ترین حملوں کی منصوبہ بندی کیلئے تیکنیکی طور پر القاعدہ پر انحصار کرتے ہیں۔ افغان طالبان اسامہ کی ہلاکت کے بعد خوش نہیں رہے۔ ڈرونز حملوں اور امریکی فورسز کے مسلسل تعاقب نے غیر ملکی جنگجوئوں کی تعداد میں کمی کر دی ہے۔ 

جریدے نے غزنی کے طالبان کمانڈر کے حوالے سے لکھا کہ وہ اب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی کی حمایت ختم کرنے والے دیہاتوں پر القاعدہ کے دس عسکریت پسندوں کا گروپ مارٹر گولے برسانے پر انہیں مجبور کرتا۔ بلاتفریق شیلنگ سے مقامی لوگ ہمارے مخالف ہو رہے ہیں۔ طالبان دور کے ایک دوسرے سابق وزیر کے مطابق ستر فیصد طالبان رہنماء اور کمانڈر القاعدہ سے تعلق کے حق میں نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ کو خیرآباد کہنے کا اچھا موقع ہے۔ 

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقے بھی القاعدہ کی دہشت سے محفوظ نہیں۔ قبائلی علاقوں میں کسی بھی پاکستانی یا افغان طالبان کو القاعدہ قتل کر سکتی ہے۔ معتصم کے مطابق ملا عمر القاعدہ سے ناطہ توڑنے کے حق میں ہوں گے۔ اگر ملا عمر نے ایسا کوئی حکم جاری کیا تو کچھ طالبان کمانڈر ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیں گے۔ جس سے طالبان میں پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے۔ طالبان رہنماء کے مطابق طالبان کی القاعدہ سے آہستہ آہستہ دوری ضروری ہے تاہم اس میں وقت لگے گا۔
خبر کا کوڈ : 187560
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش