0
Friday 23 Nov 2012 12:50

یوٹرن اور صراطِ مستقیم

یوٹرن اور صراطِ مستقیم
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com 
 
غزہ گزشتہ آٹھ دنوں میں خون میں نہا گیا، کشمیر میں مسلسل شہ رگِ مسلم خنجرِ ہنود سے کٹ رہی ہے، افغانستان کے مسلمانوں کی آئندہ کئی نسلیں بھی اب سکھ چین کا سانس نہیں لے سکیں گی، شام اور بحرین میں ہر روز، روزِ عاشور اور ہر شہر "کربلا" ہے۔ علاوہ ازیں حرمت والے مہینے "ماہِ محرم الحرام" میں راولپنڈی، کراچی اور کوئٹہ میں متعدد مقامات پر نواسہ رسول حضرت امام حسین (ع) سے منسوب جلوسوں میں بم دھماکے کرکے کلمہ گو مسلمانوں کے گوشت کے چیتھڑے ہوا میں اڑائے گئے۔۔۔ کیا اس ظلم کی چکی میں مسلسل پسنے والے انسانوں کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔۔۔؟ 

اگر ان مرنے والوں کا قصور مسلمان ہونا ہی ہے تو پھر مسلمانوں کو اتنا تو سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس دنیا میں مسلمان ہونا جرم بن گیا ہے جبکہ کافر، یہودی، عیسائی، مجوسی اور ہندو وغیرہ ہونا کوئی جرم نہیں۔ نعوذ باللہ، کیا اسلام قصور وار ہے۔؟ اسلام کا ایسا کونسا قصور ہے کہ اسلام ہر دور میں مظلوم اور ہر محاذ پر بے دفاع ہی رہے؟؟؟ اور اسی طرح اس دنیا میں بسنے والے ان اربوں انسانوں کا کیا قصور ہے جو دینِ اسلام کے معارف سے آشنا ہی نہیں، یا آشنا تو ہونا چاہتے ہیں لیکن معارف اسلام کو ان تک پہنچانے کا کوئی انتظام اور بندوبست نہیں۔ 

جب ہم تاریخ اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ماضی میں بین الاقوامی سطح پر مسلمان ہونا جرم نہیں تھا، لیکن موجودہ دور میں مسلمان ہونے کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اس صدی میں باقاعدہ منصوبے کے تحت مسلمانوں میں فرقہ واریت کے بیج بوتی رہیں، فرقہ واریت کا ناسور اسلام کی جڑیں چاٹتا رہا، مسلمانوں پر ثقافتی یلغار کی گئی، مسلمانوں میں دہشت گردی کو باقاعدہ طور پر پروان چڑھایا گیا، افغانستان اور کشمیر میں ہونے والے جہاد کے منصوبے ماسکو اور واشنگٹن کے گرد گھومتے رہے، مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر قرآن مجید کی آیات پڑھ پڑھ کر ان کے گلے کاٹے جاتے رہے، نام نہاد مجاہدین نے زندہ انسانوں کو ہاتھ پاوں باندھ کر دریا میں پھینکا، لیکن کسی نے اسلام کا دفاع نہیں کیا۔۔۔ 

افسوس صد افسوس کہ اگر اس طرح کسی فرقے کی شان میں کسی سے کوئی گستاخی ہوجاتی تو اناً فاناً کتابوں کے انبار لگا دیئے جاتے، فتووں کی بارش کی جاتی، ریلیوں کا تانتا لگ جاتا، بیانات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا۔۔ لیکن یہاں اصل اسلام کو مسخ کیا جاتا رہا، بے گناہ انسانوں کو قتل کیا جاتا رہا، دہشت گردی کو جہاد کہہ کر مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا رہا، نہتے انسانوں کے گلے کاٹتے ہوئے قرآن مجید پڑھ کر کلامِ خدا کی توہین کی جاتی رہی، لیکن اسلام کی مدد کے لئے کسی مفتی نے فتویٰ نہیں دیا اور کسی علامہ کی زبان نہیں کھلی۔ 

ہمارے درمیان اب بھی ایسے بے شعور لوگ بھی موجود ہیں کہ جو اسلام کو مار کر اپنے اپنے فرقوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے اپنے فرقوں کی بالادستی کے لئے دوسرے فرقوں کو قتل کرنے اور مارنے کے لئے لشکر، سپاہیں اور تنظیمیں بناتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ یہ سب کچھ ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ دشمنوں نے ہم میں ملی شعور کو ختم کرکے فرقہ وارانہ بتوں کی پرستش کی عادت ڈال دی ہے۔ 

ہمیں فرقہ واریت کی لت پڑھ چکی ہے۔ اگر کہیں پر فرقہ وارانہ مسئلہ ہو تو ہم کمر کس کر میدان میں اتر جاتے ہیں اور اگر "عین ِاسلام" کی بات ہو اور ہمیں حق اور سچ کہنا پڑ جائے تو پھر ہماری زبان خشک ہو جاتی ہے اور ہم "یوٹرن" لے لیتے ہیں۔ ہمیں فرقہ واریت کے چکر میں "یوٹرن" لینے کے بجائے "صراطِ مستقیم" پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر مسلمان فرقوں کے بجائے اسلام کا دفاع شروع کر دیں تو بلاشبہ دنیا کا ہر مسلمان محفوظ، مضبوط اور توانا ہو جائے گا اور دنیا کے ہر انسان تک دین اسلام کی تعلیمات کو پہنچانے میں مدد ملے گی۔
خبر کا کوڈ : 214525
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش