QR CodeQR Code

ایران کا سرکاری میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ

31 May 2016 04:15

اسلام ٹائمز: کیا ضرورت اس بات کی نہیں تھی کہ ہر سال پروفیشنل صحافیوں میں سے کسی ایک یا دو کو ان کاموں کے لئے ایران بلا کر تعینات کیا جاتا۔ اس طرح وہ تازہ ترین معلومات کے ساتھ وہاں وارد ہوتا اور اس کی معلومات اور تجربئے سے ناظرین مستفید ہوتے۔ علمائے کرام کو اگر دین سے متعلق پروگراموں میں ترجیح دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا۔ پھر یہ کہ یہ افراد اپنے علاقوں سے دین کا علم لے کر اپنے علاقوں میں واپسی کے لئے ایران گئے تھے، پس ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہاں جو خلا پیدا ہوا، اس کو پر کون کرے گا؟ اور اس خلا کو پیدا کرنے کا اصل ذمے دار کون ہے؟ حالانکہ احمدی نژاد کی صدارت میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلامی کردار کی مضبوطی اور سادہ زیستی کے لئے سر پر عمامے کا ہونا ضروری نہیں۔


تحریر: عرفان علی

مغربی ذرائع ابلاغ نے ایرانی پارلیمانی انتخابات کی کوریج میں جتنی تیزی دکھائی دی تھی، اب وہ اس سے زیادہ تیزی سے ایران میں منعقد ہونے والے دو الیکشن کی کوریج میں خود کو خاموشی پر مجبور پاتے ہیں۔ ان کے قلم، کمپیوٹر، ویب سائٹ پر اس حوالے سے مردنی چھائی ہوئی ہے۔ ایرانی پارلیمانی الیکشن کے بارے میں دو مقالے تحریر کئے، ان میں مغربی ذرائع ابلاغ کی خیانت آمیز کوریج اور ان کے منفی اور حقائق کے برعکس زاویہ نگاہ کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔ یہ ان کی دروغ گوئی تھی کہ ایران کے پارلیمانی الیکشن میں اصلاح پسندوں کا پینل جیت چکا۔ اب ایرانی پارلیمنٹ یعنی مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور ایرانی سینیٹ یعنی مجلس خبرگان (ماہرین کی اسمبلی) کے سربراہ (چیئرمین) کے لئے ووٹنگ ہوئی تو دنیا پر یہ حقیقت خود بخود واضح ہوگئی کہ اصلاح طلبان کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی اور ان دونوں الیکشن میں اصول پسند پینل کے حمایت یافتہ امیدوار جیت گئے۔ مجلس خبرگان میں تو صورتحال یہ تھی کہ اعتدال پسند و اصلاح پسندوں کے طاقتور ترین رہنما ہاشمی رفسنجانی صاحب کو امیدوار بننے کی بھی جرات نہیں ہوئی حالانکہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر انہوں نے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرست جاری کی تھی۔ آیت اللہ جنتی کے مقابلے میں انہیں کوئی امیدوار ہی دستیاب نہیں تھا اور آیت اللہ احمد جنتی 51 ووٹ لے کر مجلس خبرگان کے بورڈ کے سربراہ (یعنی چیئرمین) بن گئے۔ آیت اللہ ابراہیم امینی اور آیت اللہ محمود شاھرودی نے ان کے مقابلے میں علی الترتیب 21 اور 13 ووٹ حاصل کئے۔

پارلیمنٹ میں اسپیکر کے عہدے کے لئے ووٹنگ ہوئی تو 290 کی پارلیمنٹ میں 281 اراکین اسمبلی موجود تھے۔ 173 نے ڈاکٹر علی لاریجانی کے حق میں اور 103 نے ڈاکٹر محمد عارف کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے۔ پانچ ووٹ ضایع ہوگئے۔ اس طرح غالب اکثریت کے ساتھ لاریجانی ایک اور مرتبہ اسپیکر کے عہدے پر منتخب ہوگئے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اعتدال پسند یا اصلاح طلبان میں سے بھی بعض اراکین نے ان کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے۔ بہرحال یہ بات دنیا کے سامنے آشکار ہوئی کہ باوجود اس حقیقت کے کہ اصولگرایان کی تعداد پہلے کی نسبت کم ہے لیکن اس مرتبہ بھی پارلیمنٹ میں ان کا اور کے ہم فکر افراد کا پلڑہ بھاری ہے اور ان کی اس عددی برتری کا پہلا ثبوت اسپیکر کا الیکشن ہے۔ ایرانی الیکشن کے بارے میں ماضی میں لکھ چکا ہوں کہ ’’مائیکرو سطح پر جائزہ لیں تو صدر حسن روحانی اعتدال گرا ہیں۔ یہ اصطلاح سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے نظریاتی رجحان کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ پہلی مرتبہ ان کے نظریئے کو اعتدال گرائی (یعنی اعتدال پسندی) کہا گیا۔ حسن روحانی بھی اسی رجحان کے حامی ہیں۔ اصلاح طلبان کی اصطلاح صدر محمد خاتمی کے دور حکومت میں سامنے آئی اور اصولگرایان کی اصطلاح محمود احمدی نژاد کے دورصدارت میں۔ ابھی یہ تینوں اصطلاحیں ایرانی پارلیمانی سیاست میں زیر استعمال ہیں۔ اب اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت ایسے اراکین پر مشتمل ہے کہ جو موجودہ حکومت کے ناقدین ہیں، یعنی ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔‘‘

مغربی ذرائع کو ایران سے ان کے مطلب کی خبر نہیں ملی بلکہ ایرانیوں نے ایسے افراد کو منتخب کر لیا کہ جنہیں مغربی ذرائع ابلاغ تندرو، قدامت پسند اور اسی طرح کے خود ساختہ القابات سے شناخت کرکے مغربی رائے عامہ کو ایران کے سیاسی نظام اور سیاستدانوں سے متنفر کرنے کی سازشوں میں امریکہ اور صہیونی حکومت کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ حالانکہ ایران کے یہ سیاستدان ایران کی استکبار دشمن اسلامی انقلابی شناخت پر سختی سے کاربند رہنے کی تاکید کرتے ہیں اور یہی موقف امریکی اتحاد کی نظر میں ان کا جرم ہے۔ لیکن صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور اس میں معروضی حقائق کو خبر اور تبصروں کی شکل میں پیش کرنا ایک دیانتدار صحافی کے لازمی فرائض میں شامل ہے۔ لیکن ایران کی کوریج کے وقت مغربی ذرایع ابلاغ صحافتی اقدار کی بجائے امریکہ کی سامراجی و صہونی اقدار کو مقدم رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے توسط سے دنیا کو جو خبر یا تجزیہ حاصل ہوتا ہے، اس کی بنیاد پر ایران کے معروضی حقائق دنیا تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔

دوسری طرف ایرانی حکومتی نظام یا ابلاغیاتی اداروں میں بعض نااہل افراد کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بھی ایران اس پروپیگنڈا جنگ میں دنیا تک ایران سے متعلق حقائق کی بروقت ترسیل نہیں ہوپاتی۔ یوں دنیا کے بہت سے اچھے لوگ بھی مغربی ذرایع ابلاغ کے بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ایران مخالف پروپیگنڈا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایران کے حکومتی و ریاستی نظام کو ان خامیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اردو ذرائع ابلاغ کی بعض خامیوں کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا، لیکن تاحال اس پر بھی کوئی خاص مثبت ردعمل اور اصلاح دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں پروپیگنڈا کے لئے مغربی ذرائع ابلاغ کی موثر زبان انگریزی ہے۔ پاکستان، ہندستان جیسے ممالک میں اردو زبان میں پروپیگنڈا موثر ہوتا ہے۔ وائس آف امریکہ اور بی بی سی اردو اپنا پروگرام دوسروے نیوز چینل سے نشر کرواتا ہے۔ ایران کا کوئی پروگرام اس طرح نشر نہیں ہوتا۔ سحر اردو ٹی وی یا پریس ٹی وی بہت حد تک خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن سحر اردو ٹی وی مکمل طور پر خبروں اور تبصروں کا چینل نہیں ہے۔ پریس ٹی وی کی نسبت اس کا حالات حاضرہ اور خبروں کا وقت بہت کم ہے۔

پھر یہ کہ ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے صدا و سیما جمہوری اسلامی ایران میں الگ سے بھی انگریزی نشریات کا سحر چینل ہے، لیکن اس کی عوام میں پذیرائی کتنی ہے؟ اس پر وہاں کی انتظامیہ کو غور کرنا چاہئے۔ پھر یہ کہ ایران میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے والے افراد کو ان اداروں میں بھرتی کرکے کام چلانے کی جو پالیسی اپنائی جا رہی ہے، وہ کس حد تک خبر اور تبصروں یا حالات حاضرہ کے پروگراموں کے لئے سود مند ثابت ہوئی ہے؟ کیا ضرورت اس بات کی نہیں تھی کہ ہر سال پروفیشنل صحافیوں میں سے کسی ایک یا دو کو ان کاموں کے لئے ایران بلا کر تعینات کیا جاتا۔ اس طرح وہ تازہ ترین معلومات کے ساتھ وہاں وارد ہوتا اور اس کی معلومات اور تجربئے سے ناظرین مستفید ہوتے۔ علمائے کرام کو اگر دین سے متعلق پروگراموں میں ترجیح دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا۔ پھر یہ کہ یہ افراد اپنے علاقوں سے دین کا علم لے کر اپنے علاقوں میں واپسی کے لئے ایران گئے تھے، پس ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہاں جو خلا پیدا ہوا، اس کو پر کون کرے گا؟ اور اس خلا کو پیدا کرنے کا اصل ذمے دار کون ہے؟ حالانکہ احمدی نژاد کی صدارت میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلامی کردار کی مضبوطی اور سادہ زیستی کے لئے سر پر عمامے کا ہونا ضروری نہیں۔

چونکہ موضوع ذرائع ابلاغ سے ہی متعلق ہے تو موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے ان دوستوں سے جو وہاں اردو نشریات میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان سے دست بستہ عرض کر دوں کہ اس فورم کے ماحول کو پاکستان ہندوستان کے تعلقات کی طرح نہ بنا دیں کہ یہ پاکستانی اور وہ ہندستانی یا یہ ہندستانی اور وہ پاکستانی ہوجائیں۔ ایک ٹیم ورک اور مومنانہ کردار کی ضرورت ہے۔ قربتوں کی ضرورت ہے۔ آپ وہاں خود کو بی بی سی، وائس آف امریکہ کا رقیب سمجھیں، ٹیم کے اراکین ایک دوسرے کو حریف نہ بنا بیٹھیں۔ حسن ظن رکھتا ہوں کہ وہاں ایسا ہی آئیڈیل ماحول ہوگا جیسے ہم یہاں اپنے نیوز روم میں دیکھتے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے جھوٹے پروپیگنڈے کے جواب میں ایران سے محبت کرنے والے آپ کے توسط سے حقائق سننے کے منتظر ہیں۔ آپ کی ذہنی سطح کو اتنا بلند ہونا چاہئے کہ آپ ان سارے پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالات حاضرہ کے پروگروام منعقد کریں۔ ایران کے اس نشریاتی ادارے کے نظام میں اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ اگر ان کے اعلٰی حکام تک میری بات پہنچے تو ایک جملے میں یہ کہوں گا کہ آپ اتنے بڑے ادارے کو صرف مترجموں کے ذریعے ہی چلا رہے ہیں اور آپ اسی پر خوش ہیں۔ حالانکہ صرف ترجمے سے دنیا میں کہیں کوئی چینل نہیں چل رہا۔ پھر یہ دیکھیں کہ ایران کی غیر سرکاری نیوز ویب سائٹ آپ سے انتہائی کم بجٹ کے ساتھ آپ سے کئی گنا زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ خدا کرے کہ یہ تجاویز ذمے داروں تک پہنچیں اور مغربی ذرایع ابلاغ کی پروپیگنڈا جنگ کا سدباب کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔


خبر کا کوڈ: 542363

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/542363/ایران-کا-سرکاری-میڈیا-اور-مغربی-ذرائع-ابلاغ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org