QR CodeQR Code

امریکی صدارتی الیکشن کے بعد کی دنیا

10 Nov 2016 05:32

اسلام ٹائمز: خارجہ پالیسی میں بھی ٹرمپ ایک ناتجربہ کار آدمی ہیں۔ جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتین یاہو نے ٹرمپ کو اسرائیل کا سچا دوست قرار دیا ہے۔ سعودی بادشاہ سلمان نے مبارکباد دے کر امید ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ کی صدارت میں مشرق وسطٰی میں امن و استحکام آئے گا۔ ان کے بیان کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم مشرق وسطٰی اور دنیا بھر میں امنیت اور استحکام کے لئے آپ کے مشن میں کامیابی کے خواہاں ہیں۔ یعنی یہاں ناجائز صہیونی ریاست اور سعودی بادشاہ کا موقف ملتا جلتا ہے۔ لیکن حماس نے ٹرمپ کی کامیابی پر منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ برطانیہ کے بیروت میں مقیم نامور صحافی رابرٹ فسک کا تبصرہ جاندار ہے اور یہی بات میں 4 نومبر کو سحر اردو ٹی وی چینل کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں بیان کرچکا ہوں کہ ہیلری اور ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی اسرائیل کے حامی و طرفدار ہیں، دونوں ہی مصر میں آمر سیسی اور سعودی عرب و قطر و دیگر ریاستوں میں بادشاہوں کو دوست اور اتحادی کہتے ہیں اور دونوں ہی دہشتگرد دہشتگرد کا رٹا لگاتے ہیں، لیکن شام میں انہی کو ماڈریٹ کا نام دے کر گلے لگاتے ہیں، یہی بات اب رابرٹ فسک نے لکھی ہے۔


تحریر: عرفان علی

امریکا کے صدارتی الیکشن پر اس کے سب سے بڑے اتحادی ملک برطانیہ کے روزنامہ ڈیلی ٹیلیگراف (9نومبر) کی خبر کا پہلا جملہ یہ تھا کہ جب آج برطانیہ جاگا تو ڈونالڈ ٹرمپ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا اگلا صدر منتخب ہوچکا تھا اور دنیا کا ردعمل صدمے اور عدم یقین پر مبنی تھا۔ دنیا کے سیاسی قائدین اور جگ مشہور شخصیات مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کے اظہار میں متحد ہوچکے تھے۔ امریکا میں متعین فرانسیسی سفیر جیراڈ اراؤڈ نے ٹویٹ پیغام میں مایوسی اور تباہ ہوتے ہوئے عالمی نظام کی بات کی، لیکن تھوڑی دیر بعد اس ٹویٹ پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا۔ ان کے فرانسیسی ٹویٹ کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ بریکزٹ اور اس الیکشن کے بعد اب ہر چیز ممکن ہے۔ یہ ایک دنیا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے (دھڑام سے) گر رہی ہے۔ چکر۔(یعنی چکرا گیا ہوں!)۔ امریکی و یورپی اخبارات و جرائد میں بھی صدمہ، سانحہ، دھچکہ اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی پر مبنی سرخیوں کے ساتھ ٹرمپ کی جیت اور ہیلری کلنٹن کی شکست کی خبریں، تجزیے و تبصرے شایع ہوئے ہیں۔ یہ ہے امریکی صدارتی الیکشن کے بعد کی دنیا کی تازہ ترین صورتحال۔ 10 نومبر علی الصبح جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تب تک امریکا و برطانیہ کے ذرایع ابلاغ میں صدارتی الیکشن کے نتائج یہ ہیں کہ الیکٹورل کالج کے کل 538 ووٹوں میں سے ٹرمپ کے انتخاب کنندگان کو 279 ووٹ مل چکے ہیں جبکہ ہیلری کلنٹن کے انتخاب کنندگان کو 228 ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ابھی 31 ووٹوں کا اعلان باقی ہے لیکن پاکستان کے نیوز چینل نیوز ون نے مزید دس ووٹ ٹرمپ کے حق میں نشر کر دیئے ہیں۔

99% ووٹوں کی گنتی کے بعد ووٹرز کے ووٹ کی اکثریت ہیلری کو حاصل ہے۔ افسردہ ہیلری نے دردناک شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس کے اثرات سے باہر آنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کے الفاظ میں وہ نتیجہ تو نہیں آیا جو انہوں نے چاہا تھا لیکن وہ ٹرمپ کو اگلا صدر تسلیم کرتی ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کو فون کرکے مبارکباد بھی دی۔ ٹرمپ اور صدر اوبامہ کی بھی فون پر بات چیت ہوئی اور جمعرات 10 نومبر کو کسی وقت ان کی ملاقات طے پائی ہے۔ 435 کے ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو 239 اراکین پر مشتمل اکثریت حاصل ہوئی ہے، جبکہ ہیلری کی ڈیموکریٹک پارٹی کے 193 اراکین منتخب ہوچکے ہیں۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک کو ایک زیادہ نشست ملنے کے باوجود 47 اراکین ہیں جبکہ ری پبلکن ماضی کی نسبت ایک نشست گنوانے کے باوجود 51 سینیٹرز کی جماعت ہے۔ یعنی امریکا کے بائی کیمرل قانون ساز ادارے (کانگریس کے ایوان زیریں اور ایوان بالا) میں ٹرمپ کی جماعت کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ 10 نومبر کو علی الصبح نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہیلری کے حق میں پانچ کروڑ ستانوے لاکھ چورانوے ہزار نو سو چالیس یعنی 47.7% ووٹرز نے ووٹ ڈالے جبکہ ٹرمپ کے حق میں پانچ کروڑ پچانوے لاکھ اٹھاسی ہزار چار سو چھتیس ووٹرز یعنی 47.5% ووٹرز نے ووٹ ڈالے۔ امریکا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 20 کروڑ ہے جبکہ ایسے امریکی جن کی عمر انہیں ووٹر بننے کا اہل قرار دیتی ہے یہ سب کل ملاکر چوبیس کروڑ دس لاکھ افراد بنتی ہے۔ امریکیوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ پوری دنیا میں ووٹرز ٹرن آؤٹ کے بارے میں خبریں دیتے ہیں، لیکن امریکی الیکشن میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑی مشکل سے ہی اور بہت ہی کم خبرنگاران بیان کرتے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اہل ووٹرز کے نصف نے یعنی پچاس فیصد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کئے ہیں۔

ایک تو یہ پچاس فیصد کا مینڈیٹ تھا اور اس پچاس فیصد میں سے بھی زیادہ ووٹرز ہیلری کے حق میں تھے، یعنی پوائنٹ دو فیصد زیادہ ووٹرز۔ اس طرح امریکا کے پیچیدہ انتخابی نظام کے تحت کم عوامی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ایک اور مرتبہ جیت چکا ہے، جس طرح جارج بش جونیئر نے الیکشن جیتا تھا۔ حالانکہ الگور کے حق میں ساڑھے پانچ لاکھ زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے افریقی نژاد امریکی امیدوار باراک اوبامہ کے حق میں غیر سفید فام اور نوجوان امریکیوں نے کھل کر ووٹ ڈالے اور 2008ء میں انہیں الیکٹورل کالج کے 365 ووٹ ملے جبکہ 2012ء میں انہیں 332 ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران دونوں امیدوار ایک دوسرے کو نااہل و نالائق قرار دیتے رہے۔ ہیلری نے ٹرمپ کی رائے کو ڈاگ وسل قرار دیا اور خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ پر بھی ان پر شدید تنقید کی۔ نیویڈا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک مائنارٹی لیڈر سینیٹر ہیری ریڈ جو اب ریٹائر ہوچکے ہیں، انہوں نے ستمبر میں میڈیا سے اپیل کی کہ ٹرمپ کو نسل پرست لکھا جائے۔ ایک اور بیان میں کہا کہ ٹرمپ انسان نما جونک ہے، جو امریکا کا خون چوس کر اسے خشک کردے گا۔ ان کے مطابق ٹرمپ کو متوسط طبقے کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ وہ تو گولف ریزورٹ پر بیٹھ کر اپنی دولت پر قہقہے لگاتے ہیں، انہیں کیا معلوم کہ ملازم پیشہ امریکی تباہ حال ہیں۔ یہ امریکا کے اندر ان کے خلاف رائے تھی۔ حتیٰ کہ خود ری پبلکن پارٹی کے بعض سرکردہ افراد ان سے راضی نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ جیت گئے۔ 1946ء میں پیدا ہونے والے ٹرمپ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کے بہت بڑے کھلاڑی ہیں۔ امریکا میں انہیں ایک کامیاب اور بہت بڑی کاروباری شخصیت اور بلڈنگ ڈیولپر سمجھا جاتا ہے۔ وہ امریکی میڈیا پر ریالٹی شو کرتے رہے ہیں۔

اس کے باوجود بڑے یورپی ممالک پریشان ہیں۔ ٹرمپ کی جیت پر جرمنی کی خاتون وزیر دفاع ارسولا وون ڈیر لیئین نے براڈ کاسٹر اے آر ڈی سے گفتگو میں کہا کہ یہ بہت بڑا جھٹکا (و صدمہ) ہے اور ٹرمپ سے پوچھا ہے کہ وہ نیٹو اتحاد کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرے۔ کیوبا نے پانچ روزہ فوجی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے کہ دشمن کے ممکنہ اقدامات سے نمٹنے کے لئے ملک گیر مشقیں کی جائیں گی۔ خاتون برطانوی وزیر اعظم نے مثبت بیان دیا کہ امریکا سے تعلقات کو مزید مستحکم بنائیں گی، لیکن ایک برطانوی کالم نگار کی رائے یہ ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ایک نئی دنیا اور خارجہ پالیسی پیدا ہو رہی ہے اور برطانیہ کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ فرانس کی نیشنل فرنٹ کے لیڈر نے بھی مبارکباد دی ہے، جبکہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ امریکا سے تعلقات کو مکمل سطح تک بحال کریں گے، کیونکہ ٹرمپ نے بھی ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ پیوٹن، سوویت یونین کی کے جی بی کے آدمی تھے، شاید ان کا بیان امریکا کی اس پالیسی کا جواب ہو، جو سوویت یونین کے سقوط کے لئے گورباچوف کے دور حکومت میں وضع کی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ پیوٹن کو ٹرمپ میں امریکا کا گورباچوف نظر آرہا ہو!

پریشان ممالک شاید مغربی امریکی ریاستوں میں ہونے والے عوامی احتجاج پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ جہاں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، ٹرمپ کے پتلے اور دیگر اشیاء جلاکر اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ برطانوی روزنامہ انڈی پینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق کیلی فورنیا، اوریگون اور ریاست واشنگٹن میں بھرپور عوامی مظاہرے ہوئے۔ لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بھی شاگردوں نے احتجاج کیا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ ہیلری کلنٹن نے یہ کہا کہ امریکا ان سب کی سوچ سے کہیں زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ منقسم ہوچکا ہے، انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکا کے مفاد میں مل کر کام کرنے کی پیشکش بھی کی۔ شاید وہ اس طرح مستقبل میں بھی کلنٹن فاؤنڈیشن کے لئے چندے کے نام پر مختلف ممالک سے رقوم لے کر حکمران اداروں میں ان کے حق میں فیصلے کروانے کی کمیشن کا کام جاری رکھنا چاہتی ہیں، جس طرح بھارت سے نیوکلیئر ڈیل، سعودی عرب سے اسلحہ ڈیل و دیگر ممالک کے لئے انہوں نے کلنٹن فاؤنڈیشن کے چندے کے نام پر کمیشن وصول کی تھی اور جس کی تفصیلات امریکا میں کتاب بعنوان ’’کلنٹن کیش‘‘ میں بیان کی گئی ہیں۔

امریکی الیکشن میں داخلی ایشوز اسقاط حمل، ٹیکس، نوکریاں، امن و امان، امیگریشن، آزاد تجارت کے معاہدے، سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری، لابسٹوں کے لئے نئے قواعد و ضوابط اور مہاجرین کو قبول کرنا یا نہ کرنا تھے۔ داخلی مسائل اور خاص طور پر اقتصادی مسائل کے بارے میں انڈی پینڈنٹ کے بانیان میں سے ایک 79 سالہ نامور اقتصادی امور کے ماہر صحافی سر آندریاس وھٹم اسمتھ  (CBE)  نے بہت ہی اہم اور چشم کشا تجزیہ پیش کیا ہے کہ الیکشن سے پہلے ٹرمپ نے اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے چین کو کرنسی  manipulator قرار دینا، شمالی امریکا آزاد تجارت کے معاہدے NAFTA سے امریکا کا اخراج اور میکسیکو سے آنے والی درآمدات پر 35% ٹیکس (tariff) لاگو کرنا بیان کیا تھا۔ اس کے ساتھ 2 کروڑ 40 لاکھ امریکیوں کو اوبامہ کیئر کے تحت حاصل ہیلتھ انشورنس سے محروم کرنا اور 20 لاکھ تارکین وطن کو امریکا میں غیر قانونی و کریمنل کہہ کر ملک بدر کرنا بھی ان کے اعلانات میں شامل تھا۔ ان کی اقتصادی ترجیحات سے امریکی ڈالر کی قدر و قیمت مالیاتی منڈیوں میں کم ہو جانے کے واضح امکانات ہیں۔ مختلف شعبوں میں جو حکومتی خرچے سے چل رہے ہیں، جیسا کہ سوشل سکیورٹی، ریٹائرمنٹ پلان، صحت کے شعبے میں حکومتی پروگرام وغیرہ سے دستبرداری سے عوام ردعمل پر مجبور ہوگی، ٹیکسوں میں کٹوتی سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوگا۔

اگر امریکا میں مالیاتی نظام شفاف نہیں ہوگا تو غیر ملکی سرمایہ کاری جو ڈالرز میں ہے یا جو امریکی بونڈز کی صورت میں کی جا رہی ہے، یہ بھی متاثر ہوں گی۔ اگر اس طرح ڈالر کی قدر و قیمت کم ہوگئی تو امریکا میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا اور اوسط درجے کے وہ شہری جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے، اس تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں تو طویل عرصے تک بغیر اضافے کے جوں کی توں رہیں گی اور افراط زر اور تنخواہوں میں عدم اضافہ یہ مل کر اس امریکی ملازم پیشہ فرد کی قوت خرید میں بہت زیادہ کمی کا سبب بنیں گے۔ اس طرح غریب امریکی غریب تر ہوتا جائے گا۔ امیگریشن کے ایشو پر 70% امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم ہونے والے تارکین وطن کی اکثریت کو یہ چانس ضرور دیا جائے کہ وہ امریکی قانونی شہری بننے کے لئے درخواست دیں۔ تارکین وطن کے امریکا میں داخلے کو روکنے کے لئے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے بارے میں بھی امریکی عوام کی اکثریت نے مخالفت میں رائے دی ہے۔ اگر ٹرمپ مذکورہ بالا نقصانات اور مخالفتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر مقبول فیصلے کریں گے تو عوام جلد ہی حساب کتاب شروع کردے گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا میں ہنگامہ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جھگڑالو مشیروں کے گھیرے میں ہیں اور خود اپنے خاندان کے افراد سے بھی بہت کم مشاورت کرتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے امریکیوں کے داخلی اتحاد پر زور دیا ہے، مگر ہیلتھ انشورنش اور سوشل سکیورٹی سے عوام کو محروم کرنے کے بعد یہ داخلی اتحاد کیسے پیدا ہوسکے گا؟

خارجہ پالیسی میں بھی ٹرمپ ایک ناتجربہ کار آدمی ہیں۔ جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتین یاہو نے ٹرمپ کو اسرائیل کا سچا دوست قرار دیا ہے۔ سعودی بادشاہ سلمان نے مبارکباد دے کر امید ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ کی صدارت میں مشرق وسطٰی میں امن و استحکام آئے گا۔ ان کے بیان کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم مشرق وسطٰی اور دنیا بھر میں امنیت اور استحکام کے لئے آپ کے مشن میں کامیابی کے خواہاں ہیں۔ یعنی یہاں ناجائز صہیونی ریاست اور سعودی بادشاہ کا موقف ملتا جلتا ہے۔ لیکن حماس نے ٹرمپ کی کامیابی پر منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ برطانیہ کے بیروت میں مقیم نامور صحافی رابرٹ فسک کا تبصرہ جاندار ہے اور یہی بات میں 4 نومبر کو سحر اردو ٹی وی چینل کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں بیان کرچکا ہوں کہ ہیلری اور ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی اسرائیل کے حامی و طرفدار ہیں، دونوں ہی مصر میں آمر سیسی اور سعودی عرب و قطر و دیگر ریاستوں میں بادشاہوں کو دوست اور اتحادی کہتے ہیں اور دونوں ہی دہشتگرد دہشتگرد کا رٹا لگاتے ہیں، لیکن شام میں انہی کو ماڈریٹ کا نام دے کر گلے لگاتے ہیں، یہی بات اب رابرٹ فسک نے لکھی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ٹائمز اور سی بی ایس کے ایگزٹ پولز میں اسی فیصد امریکیوں نے امریکا کے پورے سیاسی نظام سے نفرت و لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ بظاہر امریکا دنیا کی واحد مادی سپر طاقت ہے لیکن یہ ساڑھے انیس کھرب ڈالر کا مقروض ایسا ملک ہے، جس کا سالانہ بجٹ خسارہ 503 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ٹرمپ امریکا کا گوربا چوف ثابت ہوتا ہے یا چارلس ڈیگال۔ اللہ کے ایک ولی نے بش جونیئر کی صدارت کے دور میں کہا تھا کہ امریکا سات سروں والا اژدھا ہے، جس کے پانچ سر کچلے جاچکے ہیں۔ مطلب یہ کہ باقی دو سر کچلے جانے تھے۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ چھٹا باراک اوبامہ تھا اور ساتواں سر ٹرمپ ہے کیونکہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ ساتواں امریکی صدر آیا ہے اور اللہ کے اس ولی کا نام ہے آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای! (نوٹ: امریکا کے صدارتی الیکشن پر ماضی میں بھی لکھتا رہا ہوں۔ امریکی صدارتی الیکشن کا ابتدائی مرحلہ اسلام ٹائمز پر 16 جون 2016ء کو اپلوڈ کیا گیا تھا، نئے قارئین اس مقالے کا مطالعہ بھی کرلیں کہ اس وقت میں نے کیا تجزیہ پیش کیا تھا۔)


خبر کا کوڈ: 582565

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/582565/امریکی-صدارتی-الیکشن-کے-بعد-کی-دنیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org