QR CodeQR Code

فلسطین کے حالات پر ایک تازہ نظر

11 Dec 2016 17:41

اسلام ٹائمز: محمود عباس نے حماس سے قربتوں کا آغاز کر دیا ہے۔ الفتح کانگریس کے افتتاحی سیشن میں حماس کے وفد نے شرکت بھی کی تھی۔ محمود عباس نے اپنے خطاب میں خالد مشعال کے مثبت پیغام پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ فلسطین کے قانون ساز ادارے (قومی اسمبلی) کے حماسی رکن احمد حاج علی نے کہا کہ وہ خالد مشعال کی نیابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حماس نے اس کانگریس میں شرکت کرکے درحقیقت اس آمادگی کا اظہار کیا ہے، جو فلسطینیوں کی قومی مفاہمت، فلسطین کی بہتری کے فیصلوں اور مطلوب قومی مفاہمت کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ الفتح سمیت سارے فلسطینی گروہوں سے مفاہمت کے خواہشمند ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک آزادی فلسطین میں حماس اور الفتح دونوں رکن کے طور پر شامل ہیں۔


تحریر: عرفان علی

فلسطین کے مغربی کنارے نامی چھوٹے سے علاقے پر حکمران جماعت الفتح کی ساتویں کانگریس تقریباً چھ سال بعد منعقد ہوئی، جس میں اس جماعت کی مرکزی کمیٹی کے 18 اور انقلابی کمیٹی کے 80 اراکین کا انتخاب عمل میں آیا۔ فلسطینی خبر رساں ادارے وکالۃ الانباء فلسطینیہ مستقلہ  ”سما الاخباریہ“  نے 4 دسمبر 2016ء کو مرکزی کمیٹی کے انتخابات کے نتائج کی خبر نشر کی۔ اس کے مطابق (جعلی ریاست) اسرائیل کی جیل میں قید مروان ال برغوثی کے حق میں سب سے زیادہ  938 ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ جبریل رجوب جو ماضی میں فلسطینی سکیورٹی کے انچارج رہ چکے ہیں، ان کے حق میں 936 ووٹ ڈالے گئے۔ محمد اشتیہ 798 ووٹ، حسین الشیخ 791، محمود العالول 745، توفیق الطیراوی 745، صائب عریقات 672، الحاج اسماعیل 665، جمال محیسن655، احمد حلس 645، ناصر القدوہ 645، محمد المدنی 610، صبری صیدم 583، عزام الاحمد 549، عباس زکی 543، روحی فتوح 488، دلال سلامۃ 477 اور سمیر الرفاعی 645 ووٹ حاصل کرکے مرکزی اراکین کی حیثیت سے منتخب ہوچکے ہیں۔

محمود عباس الفتح کے بدستور قائد رہیں گے۔ یاسر عرفات کی رحلت کے بعد سے وہ فلسطینی انتظامیہ کے صدر تھے۔ 2009ء میں ان کہ صدارت کی سرکاری میعاد ختم ہوچکی، لیکن وہ بدستور صدر بھی ہیں اور اپنی جماعت کے قائد بھی۔ ان کے لئے خطرہ بننے والے غزہ کے محمد دحلان اور ان کی سکیورٹی فورسز کو غزہ میں حماس نے جون 2007ء میں نکال باہر کر دیا تھا۔ بعد ازاں 2011ء میں فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے ان پر قتل اور مالی بدعنوانی کے الزامات لگا کر انہیں الفتح سے خارج کر دیا گیا تھا۔ البتہ الفتح میں محمود عباس کے مقابلے میں ان کا گروپ بھی طاقتور سیاسی مخالف کے طور پر موجود رہا تھا۔ 2009ء میں محمد دحلان الفتح میں تھے تو الفتح کے 2000 عہدیداروں نے کانگریس میں شرکت کی تھی، لیکن اس مرتبہ الفتح کانگریس میں 1400 عہدیداران نے شرکت کی۔ فلسطینی مبصرین میں سے بعض کی رائے یہ ہے کہ تعداد کی کمی محمود عباس گروپ کی دانستہ کوشش تھی کہ سیاسی مخالف گروہ کو کانگریس میں شرکت نہ کرنے دی جائے۔

محمد دحلان آج کل متحدہ عرب امارات میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ 3 نومبر 2016ء کو فلسطین کی آئینی عدالت جو محمود عباس نے قائم کی تھی، نے فلسطینی اراکین پارلیمنٹ کو احتساب سے حاصل استثناء کو ختم کر دیا ہے۔ اس پر محمود عباس کے سیاسی مخالف اراکین نے کہا ہے کہ مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے یہ فیصلہ سنایا گیا ہے اور خاص طور پر اس فیصلے کا اطلاق محمد دحلان پر ہوگا اور شاید اب ان پر مقدمات چلائے جائیں۔ محمود دحلان نے اکتوبر میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک کانفرنس منعقد کی، جس کا عنوان تھا ”فلسطینی کاز کا مستقبل۔“ اس کے علاوہ وہ غزہ کی پٹی میں اپنے حامیوں کے ذریعے سے کبھی کبھار مظاہرے یا اجتماعات منعقد کرواتے رہتے ہیں۔ یورپ اور لبنان میں مقیم فلسطینی مہاجرین کے درمیان بھی ان کے حامی سرگرم ہوچکے ہیں۔ مصر کی ال سیسی حکومت دحلان گروپ کو مستقبل کی فلسطینی قیادت کا اٹوٹ انگ دیکھنا چاہتی ہے۔ دحلان خود صدارت کے امیدوار نہیں بلکہ وہ صہیونیوں کے قیدی مروان البرغوثی کو مستقبل کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ محمود عباس اکیاسی بیاسی سال کے ہوچکے ہیں اور حال ہی میں انہیں دل کا دورہ بھی پڑا تھا۔ اس وقت فلسطینی معاملات میں عرب ممالک کا چار کا ٹولہ زیادہ دلچسپی لے رہا ہے یعنی سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات۔

محمود دحلان کوئی گمنام یا معمولی شخصیت نہیں ہے۔ وائی ریور کانفرنس میں یاسر عرفات کی قیادت میں جو فلسطینی وفد شریک ہوا تھا، اس میں ابو علاء احمد قریع، ابو مازن محمود عباس، صائب عریقات، جبریل رجوب اور محمود دحلان بھی شامل تھے۔ ابو علاء احمد قریع اب الفتح کی مرکزی کمیٹی میں شامل نہیں رہے۔ امریکی سی آئی اے کے تحت صہیونی و فلسطینی مذاکرات میں بھی محمود دحلان ایک اہم اور مرکزی کردار تھے۔ دحلان اور جبریل رجوب دونوں صہیونیوں کی قید میں رہنے کی وجہ سے عبرانی زبان بھی سیکھ چکے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جارج ٹینیٹ نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب At the Center of the Storm کے باب چہارم میں دحلان کے کردار کا مختصر تذکرہ کیا ہے، جبکہ امریکی حکومت کے صہیونی مذاکرات کار ڈینس روس جو 1988ء سے سال 2000ء تک امریکی نمائندہ برائے مشرق وسطٰی تھے، نے اپنی کتاب The Missing Peace:The Inside Story of teh Fight for Middle East Peace میں محمود دحلان کے کردار کا 62 الگ الگ صفحات پر تذکرہ کیا ہے۔

فلسطین کے خبر رساں ادارے سوا نیوز کی 29 اگست 2016ء کی خبر کے مطابق مذکورہ چار عرب ممالک کی جانب سے محمود عباس کو تاکید کی گئی ہے کہ مفاہمت پر توجہ دیں۔ انہوں نے محمود دحلان سے مفاہمت پر زور دیا۔ اس پر محمود عباس خفا ہوگئے۔ 5 ستمبر کو صفا نیوز ایجنسی کی خبر تھی کہ محمود عباس نے چار کے ٹولے کے اعلامیے کے ردعمل میں کہا کہ کوئی انہیں ڈکٹیشن نہ دے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ فلسطینی انتظامیہ کے چینل پر نشر ہونے والے بیان میں انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہوگا کہ سب فلسطینی شناخت پر زور دیں اور سب سے یہ کہیں کہ یہاں وہاں جو خفیہ روابط ہیں، یہ سب بہت ہوچکا۔ اگر کسی کے بیرونی روابط ہیں تو وہ خود ہی منقطع کر دے، ورنہ ہم منقطع کرنا جانتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم فیصلہ ساز انتظامی قوت ہیں، کسی کو بھی ہم پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے کہ ہم سے یہ باتیں کہے۔ ہم فلسطینی بن کر کام کریں اور فلسطین ہم سے یہی چاہتا ہے۔

محمود عباس نے حماس سے قربتوں کا آغاز کر دیا ہے۔ الفتح کانگریس کے افتتاحی سیشن میں حماس کے وفد نے شرکت بھی کی تھی۔ محمود عباس نے اپنے خطاب میں خالد مشعال کے مثبت پیغام پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ فلسطین کے قانون ساز ادارے (قومی اسمبلی) کے حماسی رکن احمد حاج علی نے کہا کہ وہ خالد مشعال کی نیابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حماس نے اس کانگریس میں شرکت کرکے درحقیقت اس آمادگی کا اظہار کیا ہے، جو فلسطینیوں کی قومی مفاہمت، فلسطین کی بہتری کے فیصلوں اور مطلوب قومی مفاہمت کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ الفتح سمیت سارے فلسطینی گروہوں سے مفاہمت کے خواہشمند ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک آزادی فلسطین میں حماس اور الفتح دونوں رکن کے طور پر شامل ہیں۔

اس وقت غزہ کی پٹی کا عملی کنٹرول حماس اور مغربی کنارے کے محدود علاقے کا محدود کنٹرول محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کے پاس ہے، لیکن دونوں کا مینڈیٹ ختم ہوچکا ہے، کیونکہ طویل عرصے سے نہ تو پارلیمنٹ کے الیکشن ہوئے ہیں اور نہ ہی صدارتی الیکشن۔ لہٰذا اس وقت دونوں فریقوں سمیت سارے فلسطینی گروہوں کو ایک نگران عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کرنا چاہیے اور اس کے تحت پارلیمانی اور صدارتی الیکشن منعقد کرواکے فلسطینیوں سے نیا مینڈیٹ لینا چاہیے، تاکہ انہیں عوامی legitimacy حاصل ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سارے فلسطینی گروہوں کو تحریک آزادی فلسطین کو فعال بنانا چاہیے، تاکہ آزادی کی تحریک بغیر تعطل کے جاری رہے۔ فلسطین قومی کانفرنس کا اجلاس بھی طویل عرصے سے نہیں ہوا ہے، اس کے جلد اجلاس کا انعقاد بھی ایک اہم چیلنج ہے۔ یہ ہے فلسطین کی تازہ ترین سیاسی صورتحال، جس پر قارئین کو ایک طویل عرصے کے بعد اپ ڈیٹ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔


خبر کا کوڈ: 590781

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/590781/فلسطین-کے-حالات-پر-ایک-تازہ-نظر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org