QR CodeQR Code

انصافین حکومت فلسطین پالیسی پر یو ٹرن کے موڈ میں؟

30 Nov 2018 14:42

اسلام ٹائمز: عمران خان اور انکی انصافین حکومت کو سابق وزیراعظم نواز شریف بہت برے لگتے ہیں، لیکن سعودی محبت میں عمران حکومت نواز حکومت سے بہت زیادہ آگے جاچکی ہے، اسی طرح خدشہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت سعودی اور اماراتی محبت میں پاکستان کی عادلانہ و اصولی فلسطین پالیسی سے بھی یو ٹرن لے سکتی ہے۔ اسی لئے ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ جب متحدہ عرب امارات ایک ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا، تب بھی پاکستان پورے فلسطین کو عرب ریاست قرار دیتا تھا، حتیٰ کہ جب پاکستان قائم نہیں ہوا تھا، تب بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی یہی تھی۔ یہ نکتہ عرض کرنیکا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی فلسطین پالیسی کا سعودی عرب سمیت کسی بھی مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


تحریر: عرفان علی

وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے اتحادیوں کی شرکت کے ساتھ اپنی پانچ سالہ حکومت کے پہلے 100 
روز مکمل کر لئے ہیں۔ ان کی سو روزہ کارکردگی پر یوں تو خارجہ پالیسی میں عدم توازن پر بھی جائز اعتراض وارد ہوتا ہے، لیکن پاکستانیوں کے لئے اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات سرزمین قدس کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہیں، جو اس حکومت کے دور میں باخبر افراد سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ حکمران جماعت کی خاتون رکن اسمبلی عائشہ حدید نے اسرائیل کے حق میں راہ ہموار کرنے کے لئے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بھی بنی اسرائیل قرار دے کر قومی اسمبلی میں انتہائی غیر منطقی تقریر کی۔ لیکن جب پاکستانیوں نے شدید ردعمل اور احتجاج کیا تو اسکے بعد موصوفہ نے لولی لنگڑی تاویلیں کیں۔ جعلی ریاست اسرائیل سے ایک طیارے کا براستہ اردن پاکستان پہنچنا، جس کے بارے میں اطلاعات یہ تھیں کہ اس میں کوئی اہم اسرائیلی شخصیت سوار تھی اور انصافین ایم این اے کی تقریر، یہ دو خبریں ایسی تھیں کہ جن کا تعلق موجودہ حکومت سے ہے۔

اسکے علاوہ ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب نے بھی کسی ٹی وی ٹاک شو میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں گفتگو کی۔ پھر سب سے زیادہ اہم اور دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ 29 نومبر کو جب فلسطینیوں سے یکجہتی کا عالمی دن منایا جا رہا تھا تو پاکستان کے نیوز چینلز پر انصافین حکومت کے وزیر خارجہ کی کشمیریوں کے حق میں کہی گئیں باتوں کو نشر کیا جا رہا تھا حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ملت شریف پاکستان ہر سال 5 فروری کو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے یوم کشمیر مناتی ہے، اسی لئے عالمی یوم فلسطین پر اس بیان کی ٹائمنگ بھی معنی خیز ہے۔ بات یہیں نہیں ختم ہو جاتی بلکہ سو روزہ کارکردگی کو عوام تک پہنچانے کے لئے چالیس ارب روپے مالیت کے اشتہارات ذرایع ابلاغ کو جاری کئے جاتے ہیں تو اس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کو دوستوں میں شمار کیا جاتا ہے، ان سے متعلق خبروں کے تراشے اس اشتہار کی زینت بنائے جاتے ہیں جبکہ امریکہ کے حوالے سے عمران خان کا یہ بیان کہ امریکہ کا کوئی ناجائز مطالبہ نہیں مانیں گے اور بھارت کے بارے میں بھی پرامید بیان کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے گا، یہ سب کچھ سو روزہ کارکردگی کے اشتہار میں کامیابی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے یو ٹرن کے دفاع میں جو تاریخی بیان دیا، اس نے ہر بااصول پاکستانی کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ نہیں معلوم کہ ریاست مدینہ یا جناح کے پاکستان کی طرف جانے والے راستے پر سفر پر بھی یو ٹرن لے لیں اور اسے بھی عظیم قائدین کا طرہ امتیاز قرار دیں۔

انہی خدشات کے پیش نظر دو تین نکات پاکستان کی فلسطین پالیسی کے حوالے سے بھی موجودہ حکومت تک پہنچنے چاہئیں۔ اس حوالے سے صدر مملکت، وزیراعظم اور قومی و صوبائی قانون ساز اداروں کو فلسطین دوست پاکستانیوں کی طرف سے خطوط لکھے جا رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے رکن قومی اسمبلی عائشہ حدید کی تو یہ نکتہ نسل پرست غاصب اسرائیلیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اولاد ابراھیم یعنی عربوں کو انکے اجداد کی اس سرزمین پر رہنے کا حق تسلیم کیا جائے کہ جس سرزمین سے نسل پرست یہودیوں نے انہیں بے دخل کیا تھا۔ میری مراد صرف فلسطینی عرب ہیں نہ کہ دوسرے خطوں کے فرزندان زمین عرب۔ آج فلسطینی عربوں کی وسیع تعداد لبنان، شام سمیت دوسرے ممالک میں پناہ گزینوں کی حیثیت میں زندگی گذار رہے ہیں بلکہ دو تین نسلیں تو ایسے فلسطینیوں کی ہیں، جو ان پناہ گزینوں کی اولادیں ہیں، جو پیدا ہی کیمپوں میں ہوئی ہیں۔

یہ پاکستان کے اراکین قومی اسمبلی یا پاکستانیوں کے سمجھانے کی بجائے خود عائشہ حدید کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، مسلمانوں اور عربوں کی نسل کشی کروائی جا رہی ہے اور ایسا کرنے اور کروانے والوں میں فلسطین کا غاصب اسرائیل اور اسکا سرپرست امریکہ ہی نہیں بلکہ وہ دو عرب ممالک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت بھی انکے اتحادی ہیں کہ جن کی خدمت میں عائشہ حدید کی انصافین حکومت نے کشکول رکھ دیا ہے۔ فلسطین پر غیر فلسطینی یہودیوں کو کس قانون اور اخلاقیات کے تحت حق حاصل ہے۔ وہ انہی ملکوں میں رہیں جہاں کے وہ شہری تھے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ فلسطینی عرب تو پناہ گزین بن کر رہیں اور غیر فلسطینی یہودی امریکہ، یورپ، افریقہ یا کسی بھی براعظم کے کسی بھی ملک سے اٹھ کر مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) میں لاکر آباد کر دیئے جائیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ریاست مدینہ نے یہودیوں کے ساتھ اگر ایگریمنٹ کئے تھے تو وہ یہودی وہیں کے باسی تھے۔ البتہ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ان یہودی قبائل نے ریاست مدینہ کے بانی آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی بھی کی تھی، وہ فریب کار بھی تھے، معاہدوں پر عمل نہیں ہوتا تو وہ ختم ہو جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ نے بھی عادلانہ امن کے قیام کے لئے جنگیں لڑیں تھیں اور انہی میں سے ایک غزوہ خیبر بھی تھا۔ قرآن شریف میں جو سورہ حشر کی آیات سمیت جو دوسری سورتوں میں یہودیوں کے حوالے سے آیات ہیں، انکی تفسیر اور خیبر سمیت دیگر جنگوں کا احوال موجودہ وفاقی وزیر مذہبی امور خود اپنی حکومت کے کارپردازوں کے سامنے بیان کریں، تاکہ اس طرح کی جاہلانہ و غیر منطقی تقریروں سے مستقبل میں بچا جا سکے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بانی پاکستان بابائے قوم محمد علی جناح جنہیں عمران خان اور انکی انصافین حکومت بھی قائد اعظم مانتی ہے، انہوں نے فلسطین پر یہودی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ علامہ اقبال کی رحلت جعلی ریاست کے قیام سے بہت پہلے ہوگئی تھی، لیکن وہ بھی واضح کہہ چکے تھے کہ خاک فلسطین پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں ہے، ورنہ اسپین پر بھی مسلمانوں کا حق تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے تو اس وقت بھی خبردار کیا تھا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔

پاکستان کی بانی جماعت اور بانیان پاکستان کا موقف تاریخ میں محفوظ ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے ہی ہمارے اجداد نے فلسطین پالیسی وضع کر لی تھی، جو عادلانہ اصولوں پر مبنی، مدلل اور منطقی تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی وہی پالیسی برقرار رہی۔ ہم پاکستانی ہیں اور ہماری فلسطین پالیسی کا تعلق نہ تو سعودی عرب سے ہے اور نہ ہی مصر یا متحدہ عرب امارات سمیت کسی بھی دوسرے ملک سے۔ چوتھا نکتہ جسے ترتیب کے حساب سے پہلا نکتہ سمجھا جائے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل قانونی و اخلاقی لحاظ سے ایک جعلی ریاست ہے، جو نسل پرستی کی بنیاد پر غیر ملکی یہودیوں پر مشتمل اقلیت نے ہگانہ، ارگون جیسے یہودی نسل پرست دہشت گرد گروہوں اور لینڈ مافیا کے ذریعے اکثریتی آبادی کے فلسطین پر قبضہ کرکے قائم کی تھی۔ یہ ریاست غیر قانونی ہے، نسل پرست ہے، دہشت گرد ہے اور غیر جمہوری ہے۔ جمہوریت ہو تو مقامی فلسطینی عرب اس سرزمین کی اکثریت ہیں جبکہ یہودی غیر مقامی ہیں، یعنی یہ فلسطین کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لئے سامراجی سازش کے تحت یہاں آباد کئے گئے تھے۔ یہ تاریخ ہے، اسے سمجھے بغیر بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی نہیں سمجھی جاسکتی۔
 
عمران خان اور انکی انصافین حکومت کو سابق وزیراعظم نواز شریف بہت برے لگتے ہیں، لیکن سعودی محبت میں عمران حکومت نواز حکومت سے بہت زیادہ آگے جاچکی ہے، اسی طرح خدشہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت سعودی اور اماراتی محبت میں پاکستان کی عادلانہ و اصولی فلسطین پالیسی سے بھی یو ٹرن لے سکتی ہے۔ اسی لئے ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ جب متحدہ عرب امارات ایک ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا، تب بھی پاکستان پورے فلسطین کو عرب ریاست قرار دیتا تھا، حتیٰ کہ جب پاکستان قائم نہیں ہوا تھا، تب بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی یہی تھی۔ یہ نکتہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی فلسطین پالیسی کا سعودی عرب سمیت کسی بھی مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان کی فلسطین پالیسی کے حوالے سے ماضی میں کابینہ نے ایک تبدیلی منظور کی تھی۔ اس کے تحت طے کیا جا چکا ہے کہ جب سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا تو ہم بھی کر لیں گے، یعنی پاکستان سعودی عرب کی تقلید کرے گا۔

اگر عمران خان کی انصافین حکومت کا تبدیلی کا نعرہ سچا ہے تو انہیں سابق کابینہ کے اس اجلاس کے جو منٹس (اجلاس کے سرکاری ریکارڈ) کا از سرنو جائزہ لے کر نیا فیصلہ کرنا چاہیئے کہ پاکستان کی فلسطین پالیسی سعودی عرب سمیت کسی ملک سے نتھی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت سمیت ہر وہ پاکستانی جو اسرائیل سے تعلقات میں پاکستان کا فائدہ ڈھونڈ رہا ہے، اس کے سامنے ایسی کونسی مثال موجود ہے، جس سے ثابت ہوسکے کہ کسی بھی مسلمان یا عرب ملک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فائدہ ہوا ہے؟ کیا سعودی بادشاہت، اماراتی شیوخ یا مصری ڈکٹیٹر، انکی دنیا میں اوقات کیا ہے؟ یہ ممالک بھی مقروض ہیں، یہ ہم سے زیادہ امریکی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں۔ ان میں سے کونسا ملک ہے، جو بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کو خوش رکھ سکتا ہے؟ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اتنے زیادہ اچھے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر بھی لے، تب بھی پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ایک ٹکے کا فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اسرائیل تو چھوڑیں، پاکستان نے تو اس دنیا کی سب سے بڑی مادی طاقت امریکہ و برطانیہ کے لئے اس خطے میں سب کچھ کرکے دیکھ لیا، سیٹو، سینٹو، نان نیٹو اتحادی، موسٹ الائیڈ ایلائی، یہ سب تمغے لے کر بھی کشمیر کے ایشو پر آپ اکیلے ہیں، 1965ء، 1971ء کی جنگیں پاکستان کو لڑنا پڑیں اور لگ پتہ گیا کہ اسرائیل کو فلسطین پر مسلط کرنے والوں کی نظر میں آپکی حیثیت اور اور اوقات کیا ہے؟ انصافین حکومت یاد رکھے کہ ریاست مدینہ اور جناح کے پاکستان دونوں کی فلسطین پالیسی میں اسرائیل نام کے سرطان کی کوئی گنجائش نہیں ہے!


خبر کا کوڈ: 764135

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/764135/انصافین-حکومت-فلسطین-پالیسی-پر-یو-ٹرن-کے-موڈ-میں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org