موجودہ مجوزہ ڈرافٹ اگر فائنل ہو جاتا ہے تو گلگت بلتستان میں گورننس آرڈر 2009ء مکمل طور پر بحال ہو جائے گا، چند تبدیلیوں کے ساتھ نئے آرڈر یعنی ریفارمز کو مصالحہ دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجوزہ ریفارمز میں وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ آئینی صوبہ بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہے، اس لیے وقت چاہیئے۔ سوال یہ ہے آئینی صوبہ بنانے کیلئے حکومت پارلیمنٹ میں بل پیش کیوں نہیں کرتی؟ ہوسکتا ہے دیگر وفاقی پارٹیاں گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی حمایت کریں؟ جب حکومت نے معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیا تو قبل ازوقت توجیہات کیوں پیش کی جا رہی ہیں۔؟
گلگت بلتستان کے عوام کا ایک اور اہم مطالبہ سپریم کورٹ کا دائرہ کار جی بی تک بڑھانے کا تھا، مجوزہ ریفارمز میں اس کے بارے میں بھی کوئی ذکر نہیں؟ قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ دیگر اداروں کی طرح ایک آئینی ادارہ ہے، دیگر آئینی ادارے گلگت بلتستان میں آسکتے ہیں تو سپریم کورٹ کیوں نہیں؟ مثلاً ایف پی ایس سی، آڈیٹر جنرل، نیب سپریم کورٹ کی طرح ہی آئینی ادارے ہیں، جب یہ گلگت بلتستان میں آسکتے ہیں تو سپریم کورٹ کا دائرہ کار بڑھانے میں کیا حرج ہے۔ گلگت بلتستان میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے عوام کو شدید تشویش ہے، کیونکہ ماضی میں یہاں پر انتظامی آرڈر کے ذریعے ججوں کا تقرر ہوتا رہا ہے۔ کونسل یا وزرارت امور کشمیر کا پسندیدہ شخص ہی سپریم ایپلٹ کورٹ کا جج بن سکتا ہے، ایک انتظامی آرڈر کے تحت وجود میں آنے والی عدالت کس طرح آزاد ہوسکتی ہے؟
اسی لئے صوبے کے وکلاء کا مطالبہ تھا کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جائے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ کا دائرہ کار بھی بڑھایا جائے، جب گلگت بلتستان میں سپریم کورٹ کا سرکٹ بینچ قائم ہوگا تو عوام کو آزاد اور اعلیٰ ترین عدلیہ تک رسائی ملے گی، گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی ممکن ہوگی۔ اس مطالبہ کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں منگل کو آئینی حیثیت کیس کی سماعت ہو رہی ہے، جس میں وفاقی حکومت انہی مجوزہ ریفارمز کو پیش کرے گی، یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک گلگت بلتستان کیلئے کس طرح کا سیٹ اپ یا ریفارمز تجویز کرتی ہے۔ گویا گلگت بلتستان کی قسمت اس وقت سپریم کورٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔