0
Sunday 6 Jan 2019 14:04

نام کی تبدیلی کیساتھ گلگت بلتستان میں ایک اور آرڈر نافذ کرنیکی تیاریاں

نام کی تبدیلی کیساتھ گلگت بلتستان میں ایک اور آرڈر نافذ کرنیکی تیاریاں
رپورٹ: لیاقت تمنائی

گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ یا آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ کی عوام کی امیدیں دم توڑنے لگیں، وفاقی حکومت نے ایک بار پھر صدارتی آرڈر جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا، تاہم اس بار آرڈر کی بجائے اب ''ریفارمز'' آئے گا، گلگت بلتستان ریفارمز 2018ء کا مجوزہ ڈرافٹ منظر عام پر آگیا۔ اسلام ٹائمز کو موصول دستاویز کے مطابق جی بی آرڈر 2018ء کا نام تبدیل کرکے اب ''گلگت بلتستان گورننس ریفارمز 2018ء'' رکھ دیا گیا ہے، جس کے مجوزہ ڈرافٹ میں جی بی آرڈر اور نئے ریفارمز کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ گورننس ریفارمز کی تمہید میں وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں عبوری صوبہ کا درجہ دیتے ہوئے آئین میں دی گئی تمام مراعات دینا چاہتی ہے، لیکن اس کیلئے آئین پاکستان میں باقاعدہ ترمیم کی ضرورت ہے، جس کیلئے دوتہائی اکثریت چاہیئے، یہ عمل کافی وقت طلب ہے، تب تک کیلئے وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کے مساوی برابر حقوق دینا چاہتی ہے۔

نئی ریفارمز بھی ایک صدارتی آرڈر ہوگا، جو کہ صدر پاکستان جاری کریگا، تاہم مجوزہ ڈرافٹ میں سرتاج عزیز کمیٹی اور گنڈاپور کمیٹی کی سفارشات کا کہیں ذکر نہیں، یہ بھی واضح نہیں کہ یہی مجوزہ ڈرافٹ فائنل ہونے کی صورت میں کس طرح آئینی تحفظ حاصل ہوگا، نئی گورننس ریفارمز میں ترمیم کا اختیار کس کے پاس ہوگا؟ مجوزہ ریفارمز میں گورننس آرڈر 2009ء کو تقریباً بحال کر دیا گیا ہے، جس کے تحت اب اسمبلی کا نام قانون ساز اسمبلی ہوگا، جبکہ جی بی آرڈر 2018ء میں نام گلگت بلتستان اسمبلی رکھا گیا تھا۔ شہری کی تعریف صرف گلگت بلتستان کے شہری ہی ہوگی، سٹیزن شپ ایکٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ سزاؤں میں کمی یا معافی کا اختیار صدر پاکستان سے چیئرمین کونسل (وزیراعظم) کو دیدیا گیا ہے۔ نئی ریفارمز میں سرکاری ملازمتوں میں وفاق کا کوٹہ بڑھا دیا گیا ہے، جس کے تحت گریڈ 17 کی اسامیوں میں وفاق کا کوٹہ 25 فیصد، گریڈ 18 میں 40، گریڈ 19 میں 50، گریڈ 20 میں 60 اور گریڈ 21 کی اسامیوں میں 65 فیصد ہوگا۔

آرڈر 2018ء میں گلگت گلگت بلتستان کا کوٹہ بڑھایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ فارمولا وفاق اور آئینی صوبوں کے درمیان ہے جبکہ گلگت بلتستان آئینی صوبہ نہیں ہے، مجوزہ ڈرافٹ میں چیف کورٹ اور سپریم ایپلٹ کورٹ میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار بھی تبدیل کر دیا گیا ہے، ایپلٹ کورٹ ججز کیلئے عمر کی بالائی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، ان کی تقرری تین سال کیلئے ہوگی، تاہم وفاقی حکومت مدت ملازمت میں مزید توسیع بھی کرسکتی ہے۔ نئی مجوزہ ریفارمز کے تحت گورننس آرڈر 2009ء کے مطابق ہی نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، اسمبلی کی مدت پوری ہونے یا تحلیل ہونے کی صورت میں چیئرمین کونسل (وزیراعظم) آرٹیکل 60 کے تحت نگران کابینہ کا تقرر وزیراعلیٰ، اپوزیشن لیڈر اور وزیر امور کشمیر کی مشاورت سے کرے گا، اگر یہ تینوں کسی ایک نام پر متفق نہ ہوں تو چیئرمین کونسل اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نگران کابینہ کا تقرر کرے گا۔

گلگت بلتستان گذشتہ ستر سالوں سے کبھی مسئلہ کشمیر اور کبھی نامعلوم قومی مفادات کے نام پر فٹ بال بنتا آرہا ہے، حالیہ کچھ عرصہ میں اصلاحات کی تھوڑی بہت امیدیں پیدا ہوئی تھیں، پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت نے سرتاج عزیز کمیٹی کے ذریعے جامع سفارشات تیار کیں، جس میں گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے تصفیہ تک عبوری آئینی صوبہ بنانے، پارلیمنٹ میں نمائندگی اور تمام آئینی اداروں میں نمائندگی کی تجویز دی گئی تھی، اس کمیٹی میں وزارت خارجہ، داخلہ، وزارت دفاع، آئی ایس آئی، ایم آئی کے حکام شامل تھے۔ کمیٹی نے تین سال تک تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد سفارشات تیار کیں، لیکن عملدرآمد کے عین موقع پر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یوٹرن لیا گیا۔ بعد میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ایک کمیٹی بنائی، جس نے ایک اور ذیلی کمیٹی بنائی، سب کمیٹی نے اپنی سفارشات میں بھی سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا، اس مطالبے کو بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا۔
 
 موجودہ مجوزہ ڈرافٹ اگر فائنل ہو جاتا ہے تو گلگت بلتستان میں گورننس آرڈر 2009ء مکمل طور پر بحال ہو جائے گا، چند تبدیلیوں کے ساتھ نئے آرڈر یعنی ریفارمز کو مصالحہ دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجوزہ ریفارمز میں وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ آئینی صوبہ بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہے، اس لیے وقت چاہیئے۔ سوال یہ ہے آئینی صوبہ بنانے کیلئے حکومت پارلیمنٹ میں بل پیش کیوں نہیں کرتی؟ ہوسکتا ہے دیگر وفاقی پارٹیاں گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی حمایت کریں؟ جب حکومت نے معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیا تو قبل ازوقت توجیہات کیوں پیش کی جا رہی ہیں۔؟
 
گلگت بلتستان کے عوام کا ایک اور اہم مطالبہ سپریم کورٹ کا دائرہ کار جی بی تک بڑھانے کا تھا، مجوزہ ریفارمز میں اس کے بارے میں بھی کوئی ذکر نہیں؟ قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ دیگر اداروں کی طرح ایک آئینی ادارہ ہے، دیگر آئینی ادارے گلگت بلتستان میں آسکتے ہیں تو سپریم کورٹ کیوں نہیں؟ مثلاً ایف پی ایس سی، آڈیٹر جنرل، نیب سپریم کورٹ کی طرح ہی آئینی ادارے ہیں، جب یہ گلگت بلتستان میں آسکتے ہیں تو سپریم کورٹ کا دائرہ کار بڑھانے میں کیا حرج ہے۔ گلگت بلتستان میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے عوام کو شدید تشویش ہے، کیونکہ ماضی میں یہاں پر انتظامی آرڈر کے ذریعے ججوں کا تقرر ہوتا رہا ہے۔ کونسل یا وزرارت امور کشمیر کا پسندیدہ شخص ہی سپریم ایپلٹ کورٹ کا جج بن سکتا ہے، ایک انتظامی آرڈر کے تحت وجود میں آنے والی عدالت کس طرح آزاد ہوسکتی ہے؟

اسی لئے صوبے کے وکلاء کا مطالبہ تھا کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جائے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ کا دائرہ کار بھی بڑھایا جائے، جب گلگت بلتستان میں سپریم کورٹ کا سرکٹ بینچ قائم ہوگا تو عوام کو آزاد اور اعلیٰ ترین عدلیہ تک رسائی ملے گی، گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی ممکن ہوگی۔ اس مطالبہ کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں منگل کو آئینی حیثیت کیس کی سماعت ہو رہی ہے، جس میں وفاقی حکومت انہی مجوزہ ریفارمز کو پیش کرے گی، یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک گلگت بلتستان کیلئے کس طرح کا سیٹ اپ یا ریفارمز تجویز کرتی ہے۔ گویا گلگت بلتستان کی قسمت اس وقت سپریم کورٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 770588
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش