QR CodeQR Code

اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا قرین مصلحت نہیں

تمام شیعہ تنظیموں میں فعال کردار ادا کرنیوالوں کو اپنے سے زیادہ مخلص اور تشیع کا وفادار سجمھتا ہوں، ڈاکٹر راشد عباس سید

کسی شخصیت کے کسی مخصوص اقدام سے بیزاری کو اس پوری تنظیم کا مخالف سمجھنا انصاف نہیں

9 Sep 2018 00:58

آئی ایس او پاکستان کے سابق مرکزی صدر اور معروف دانشور کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم میں پاکستان کی ملی جدوجہد میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے، مجلس وحدت مسلمین کے دستور اور آئین میں قائد کا لفظ استعمال کرنے سے گریز اور تاحیات قیادت کے فلسفے سے پرہیز نہایت مثبت نکات ہیں۔ البتہ تنظیمی اداروں بالخصوص شوریٰ عالی کے کردار کو فعال سے فعال تر بنانیکی اشد ضرورت ہے۔ فیصلہ ساز اداروں میں انتظامی اداروں کی ضرروت سے زیادہ موجودگی تنظیموں میں جمود کا باعث بنتی ہے اور محاسبہ کا منصفانہ عمل رک جاتا ہے، جسکے نتیجے میں آمرانہ اقدامات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسکا منطقی نتیجہ کارکناں کی بے بسی اور عوام کی دوری کیصورت میں سامنے آتا ہے۔ مجھے ایم ڈبلیو ایم کی بعض دستوری اور آئینی شقوں پر اشکال و اعتراض ہے، لیکن اس اعتراض کو مجلس کی مخالفت سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔


ڈاکٹر راشد عباس سید کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ معروف دانشور ہیں، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان معروف سابق صدر، تحریک جعفریہ پاکستان کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات، جنہیں لکھنے اور بولنے پر ملکہ حاصل ہے۔ ان کی ہر تحریر اور تقریر کو ان کے حامی اور ناقد انتہائی حساسیت پڑھتے اور سنتے ہیں۔ قومی اور سیاسی حالات پر مکمل عبور اور اس حوالے سے سند سمجھے جاتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں، اسکے ساتھ ساتھ اپنے اوپر ہونیوالی تنقید کو بھی انتہائی خون سردی سے سنتے اور پھر اسکا استدلال اور قاطعیت کیساتھ جواب دینے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام ٹائمز پر انکی مشہد مقدس میں شہید قائد علامہ عارف الحسینی کی 30ویں برسی کی مناسبت سے ہونیوالے "فرزند امام" سیمینار میں کی گئی ایک تقریر پبلش ہوئی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "قائد شہید علامہ عارف الحسینی کا حقیقی وارث قم اور مشہد کا حوزہ علمیہ ہے۔" انکی اس تقریر پر اسلام ٹائمز کے صفحات پر ان حامی اور ناقدین نے کھل کر اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا اور بعض سوالات بھی اٹھائے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے ان محترم قارئین کی آراء کا احترام کرتے ہوئے، انہیں سوالات کی شکل میں ڈاکٹر راشد عباس سید صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور ان سے ان سوالات کے جوابات چاہے۔ اسلام ٹائمز کے ان سوالات کو دیکھ کر ابتدائی طور پر انہوں نے جس ردعمل کا اظیار کیا، پہلے اسے ملاحظہ فرما لیں، آگے چل کر انکا انٹرویو بھی قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز کے سوالات پر ڈاکٹر آر اے سید کا ابتدائی ردعمل:
اس سے پہلے کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں ان سوالات کا جواب دوں، میری آپ سے گزارش ہے کہ جس طرح آپ میری ایک تقریر میں بیان کئے گئے موقف پر میرا محاسبہ اور سوالات کر رہے ہیں، امید ہے اگر کوئی قومی رہنما یا دانشور اپنی تقاریر اور بیانات نیز تجزیوں میں مبالغہ آمیز بیانات جاری کرے اور حقائق کو تروڑ مروڑ کر بیان کرے یا اپنی شکست اور ناکامی کو چھپانے کے لئے عوام اور کارکنان کی توجہ ہٹانے کے لئے بے بنیاد دعوے اور مبالغہ آمیز کارکردگی بیان کرے تو اسے بھی اسلام ٹائمز والے مجبور کریں گے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دیں اور اسے تنقید، اعتراض، مایوسی پھیلانے یا کسی اور بہانے سے سوالات کے جواب دینے سے فرار نہیں ہونے دیں گے۔ میری اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے یہ بھی گزارش ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر فورم منعقد کریں اور مختلف مواقف کے حامیوں کو ایک میز کے گرد بٹھا کر ان کو موقف بیان کرنے کا موقع دیں، تاکہ متنازعہ موضوع پر سب کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں، تاکہ سنی سنائی باتوں کے نتیجے میں کم سے کم غلط فہمیاں جنم لیں، مثبت اور تعمیری تنقید اور عملی بحث و مباحثہ اہل علم کا خاصہ رہا ہے اور مہذب دنیا میں اس کو ہمیشہ سرایا گیا ہے۔ قومی تنظمیون کے رہنمائون کے لئے فارسی میں مسئولین کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، لہٰذا وہ اپنے آپ کو سوالات و جوابات سے مستثنٰی نہ سمجھیں۔
 
اسلام ٹائمز: شہید علامہ عارف الحسینی کا حقیقی وارث قم اور مشہد کا حوزہ علمیہ ہے، اس سے آپکی دقیقاً مراد کیا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
آپ نے میری تقریر سے جو پہلا سوال اٹھایا ہے، میں اس سوال پر حیران و پریشان ہوں، کیونکہ اسکا مفہوم اتنا واضح ہے کہ توضیح و تفصیل کی ضرورت نہیں۔ میری بات کی ایک دلیل یہ ہے کہ کسی عالم دین یا صاحب علم یا دوسرے لفظوں میں کسی فرزند حوزہ نے اس پر کوئی اعتراض یا استفسار نہیں کیا ہے، البتہ کارکنان، تنظ٘یمی جیالوں یا میری ذات سے اختلاف کرنے والوں نے اس پر اعتراض کیا ہے، جو انکا حق ہے۔ حوزہ علمیہ کو وارث قرار دینے کی اصطلاح سمجھنے کے لئے حوزہ علمیہ کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ کے افکار و نظریات کا مطالعہ ضروری ہے۔ رہبر انقلاب نے حوزہ علمیہ کے لئے "مادر انقلاب و نظام اسلامی" کی تعبیر استعمال کی ہے۔ اس طرح حجتہ الاسلام سید حسن نصراللہ و شہید مظلوم عارف حسین الحسینی جیسی شخصیات کے لئے فرزندہ حوزہ کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں، میں بھی اسی حوزہ علمیہ کو شہید عارف الحسینی کا حقیقی وارث قرار دیتا ہوں، جسے رہبر انقلاب اسلامی، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی ماں قرار دیتے ہیں۔ حوزہ علمیہ یعنی تشیع کا مرکز، محمد و آل محمد کی تعلیمات کی تفسیر و تشریح کا مرکز، شہید قائد کی مادر علمی اور عالم اسلام کی امید کا مرکز، تشیع اور عالم اسلام کے متنازعہ مسائل کا فصل الخطاب۔

اسلام ٹائمز: اس دعوے یا تاثر کی بنیاد کیا ہے کہ شہید قائد علامہ عارف الحسینی کی فکر کو صرف آپ اور آپکے ہم خیال دوستوں نے ہی صحیح طور پر سمجھا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
میں نے اپنی تقریر یا عمل سے کہیں بھی یہ نہیں کہا ہے کہ میں اور میرے ہم خیال دوست ہی شہید قائد کی فکر کو صحیح درک کرتے یا سجمھتے ہیں، میں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ شہید قائد کے بارے میں مختلف اور متضاد سیاسی تفسیریں اور تشریحیں سامنے آرہی ہیں، میرے جیسے غیر حوزوی اور عوام کس کو حقیقی اور خالص فکر حسینی سمجھیں۔ ہمیں تو شروع سے یہ سمجھایا گیا تھا کہ علمی مسائل میں علماء سے رجوع کریں، اب جب علماء میں فکر شہید پر 180 ایک سو اسی درجے کا اختلاف ہے تو مجھے علماء کے اساتذہ اور مادر علمی سے رجوع کرنا ہی منظقی نظر آتا ہے۔ اگر میں اور میرے دوست کسی نتیجے پر پہنچ چکے ہوتے تو حوزہ علمیہ کو وارث قرار دیکر اس کی طرف رجوع کرنے کی خواہش کا اظہار نہ کرتے۔

اسلام ٹائمز: نظام ولایت فقیہ کا نفاذ، دینی جماعتوں کیساتھ الحاق یا دیگر سیکولر جماعتوں کیساتھ اتحاد، اگر یہ تینوں موارد شہید قائد کی فکر سے متصادم ہیں تو پھر پاکستان کی رائج سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے شہید کی صحیح سیاسی فکر کیا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
اسی سوال کا جواب تلاش کرنے اور شہید کی صحیح سیاسی فکر کی تلاش میں تو میں نے حوزہ علمیہ کی طرف رجوع کرنے کی تجویز دی ہے، البتہ یہ وہ سوال ہے جو جواب طلب ہے اور اگر لاکھوں میں کہنا مبالغہ ہے تو ہزاروں افراد جو ہم سے رابطے میں رہتے ہیں، مختلف انداز سے یہ سوال اٹھاتے ہیں، کیونکہ تینوں قائدین اپنے آپ کو شہید کے خط کا پیروکار قرار دیتے ہیں، ہم نے تو اس خط کے حوالے سے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: اگر شہید کی فکر کو بنیاد بنا کر اہل تشیع کی فعال مذہبی جماعتوں کا آپریشن اسی طرح جاری رہا تو پھر اپنے من پسند فرشتے کہاں سے لائینگے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
کیا متنازعہ مسائل کے حل کے لئے حوزہ علمیہ کی طرف رجوع کرنا فعال مذہبی جماعتوں کا آپریشن ہے، یہ اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے تو خوف آرہا ہے کہ ہم تنظیم پرستی بلکہ شخصیت پرستی کے چکر میں کل ولایت فقیہ کے بارے میں بحث مباحثہ کو بھی کہیں مذہبی جماعتوں کا آپریشن قرار نہ دیں۔ میں نے اپنی تقریر میں حوزہ علمیہ کے علاوہ اگر کسی فرد یا افراد کا نام پیش کیا ہوتا تو من پسند فرشتوں والی پھبتی یا طنز صحیح ہوتا۔ میں نے تو تشیع کے سب سے اعلٰی اور مستند انسٹی ٹیوٹ یعنی حوزہ علمیہ کا نام لیا ہے۔ فرزندان حوزہ اور علماء کو تو ایک یونیورسٹی یا دانشگاہی فرد کے اس روحانیت پسند اور حوزہ علمیہ دوست تجویز یا اقدام کی تائید یا تعریف کرنی چاہیئے تھی۔

اسلام ٹائمز: آپ خود العارف اکیڈمی کے سربراہ ہیں، آپ اور آپکے ہم خیال افراد باقی اہل تشیع جماعتوں کو رد کر رہے ہیں، کیا مستقبل قریب یا بعید میں آپکی قیادت میں کوئی نئی جماعت تشکیل پانے جا رہی ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
دیکھیں حقیقی باصلاحیت شخصیات اور حقیقی نظریاتی تنظمیں معاشرے سے خود بخود جنم لیتی ہیں، مصنوعی طریقے سے بنائی جانے والی شخصیات اور تنظمیں بہت جلد اپنا رنگ کھو دیتی ہیں۔ ہم بھی کسی مصنوعی شخصیت اور مصنوعی ادارے کی تشکیل کے حامی نہیں ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی جب کسی نئے ادارے کی اشد ضرورت ہوئی اور شہید عارف حسینی جیسی کوئی قابل شخصیت منظرعام پر آئی تو کوئی اسے روک نہیں سکے گا اور نہ ہی اس طرح کی شخصیات اور اداروں کو کمزور اور مصنوعی بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ العارف اکیڈمی بنانے کا دور دور تک اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ العارف اکیڈمی کے دو بنیادی اہداف ہیں، شہید عارف حسین الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی یاد کو زندہ رکھنا نیز ان دو شہداء کی حقیقی فکر سے آگاہ علماء اور دانشور حضرات کے لئے ایک علمی پلیٹ فارم فراہم کرنا، جہاں وہ شہید عارف الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے افکار و نظریات کا تحلیلی اور تجزیاتی جائزہ نیز زمان و مکان کے تناظر میں اس کی تشریح کرکے میڈیا، متعلقہ افراد اور اداروں تک پہنچا سکیں، نئی جماعت کی تشکیل پر تو یہی کہہ سکتا ہوں:
خواب است و خیال است و محال است و جنوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے بارے میں تو تاثر یہ ہے کہ یہ آپ اور آپکے ہم فکر افراد نے ملکر بنائی تھی، ایم ڈبلیو ایم کیساتھ موجودہ اختلافات کی وجوہات کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
جی ہاں یہ تاثر نہیں بلکہ حقیقیت ہے، ہمارے ہم فکر دوستوں نے اس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ مجلس وحدت کے محدود چند جذباتی دوست میری تنقید کو مخالفت ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، ان کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں، لیکن ان دوستوں کے بعض قریبی ساتھی جس طرح کے اندیشوں اور میرے جیسے مجلس کے حامیوں کے بارے میں ان کے منفی رویوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں، وہ قابل تشویش ہیں۔ حامی کو مخالف بنانے میں دیر نہیں لگتی، سوشل میڈیا کے اس آلودہ دور میں مجلس جیسی تنظیم کو تعمیری تنقید کی اشد ضرورت ہے۔ مثبت اور تعمیری تنقید کے بغیر ادارے کمزور ہو جاتے ہیں اور شخصیات اتنی مضبوط ہو جاتی ہیں کہ پوری کی پوری تنظیم کنیز، لونڈی اور غلام کے درجے پر آجاتی ہے اور باصلاحیت اراکین اس طرح کے ماحول میں گھٹن اور حبس کا شکار ہو کر یا تو تنظیم سے الگ ہو جاتے ہیں یا ان کی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔

ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، باصلاحیت، مخلص، نڈر، بے باک، قیادت کی غلط پالیسیون پر خاموشی اختیار نہ کرنے والے کارکناں اور ممبران ہی تنظیموں کی رگوں میں تازہ خون بن کر دوڑتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم میں پاکستان کی ملی جدوجہد میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے، مجلس وحدت مسلمین کے دستور اور آئین میں قائد کا لفظ استعمال کرنے سے گریز اور تاحیات قیادت کے فلسفے سے پرہیز نہایت مثبت نکات ہیں۔ البتہ تنظیمی اداروں بالخصوص شوریٰ عالی کے کردار کو فعال سے فعال تر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ فیصلہ ساز اداروں میں انتظامی اداروں کی ضرروت سے زیادہ موجودگی تنظیموں میں جمود کا باعث بنتی ہے اور محاسبہ کا منصفانہ عمل رک جاتا ہے، جس کے نتیجے میں آمرانہ اقدامات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسکا منطقی نتیجہ کارکناں کی بے بسی اور عوام کی دوری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مجھے ایم ڈبلیو ایم کی بعض دستوری اور آئینی شقوں پر اشکال و اعتراض ہے، لیکن اس اعتراض کو مجلس کی مخالفت سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ مجھے موقع ملا تو میں ان اعتراضات کو متعلقہ اداروں تک پہنجائوں گا۔ مجلس وحدت مسلمین تو ایک طرف، میں پاکستان میں تشیع کی بہتری کے لئے مصروف عمل کسی بھی تنظییم کا مخالف نہیں ہوں۔ تاہم ان تنظیموں کے بعض مواقف اور اقدامات پر جہاں مناسب سمجھتا ہوں اعتراض اٹھاتا ہوں، میں تمام شیعہ تنظیموں میں فعال کردار ادا کرنے والوں کو اپنے سے زیادہ مخلص اور تشیع کا وفادار سجمھتا ہوں، کسی شخصیت کے کسی مخصوص اقدام سے بیزاری کو اس پوری تنظیم کا مخالف سمجھنا انصاف نہیں۔

اسلام ٹائمز: جب بھی کوئی شیعہ مذہبی جماعت جڑ پکڑنے لگتی ہے تو پھر آپ ہی کیوں خم ٹھونک کر اسکی مخالفت میں سامنے آجاتے ہیں۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
اس سوال کا جواب گذشتہ سوال کے جواب میں موجود ہے۔ تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت ختم ہو جاتی ہے یا تنظمیوں کے کرتا دھرتا کسی اندورنی خوف کی بدولت انجانے اندیشوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا خدا ںخواستہ غلط فہمی کی بنیاد پر مفادات میں ٹکرائو محسوس کرتے ہیں تو تعمیری تنقید کو بھی مخالفت کا رنگ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ نظریاتی تنظیموں میں ایسا ماحول زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے وسیع میدان موجود ہے، اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا قرین مصلحت نہیں۔

 اسلام ٹائمز: آپکا یہ دعویٰ کہ شہید کے ورثاء ہونیکی مدعی جماعتیں شہید کے خط پر نہیں ہیں، اس دعوے کی بنیاد کیا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
میں نے تو کسی کی تائید کی ہے نہ ہی تردید۔ میں نے تو شہید کے فکری وارث کی طرف نشاندہی کی ہے اور معصومانہ سوال اٹھایا ہے کہ تین متضاد تفسیروں، تشریحوں اور تعبیروں میں جو صحیح ہے، حوزہ علمیہ اس کی تائید کرے، تاکہ شہید حیسنی کے پیرو دو دل ہونے کی بجائے مکمل اطمینان، اعتماد اور دل جمعی سے اس خط اور راستے پر عمل پیرا ہو سکیں۔ واللہ اعلم بالثواب


خبر کا کوڈ: 748928

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/748928/تمام-شیعہ-تنظیموں-میں-فعال-کردار-ادا-کرنیوالوں-کو-اپنے-سے-زیادہ-مخلص-اور-تشیع-کا-وفادار-سجمھتا-ہوں-ڈاکٹر-راشد-عباس-سید

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org