16
3
Sunday 9 Sep 2018 00:58
اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا قرین مصلحت نہیں

تمام شیعہ تنظیموں میں فعال کردار ادا کرنیوالوں کو اپنے سے زیادہ مخلص اور تشیع کا وفادار سجمھتا ہوں، ڈاکٹر راشد عباس سید

کسی شخصیت کے کسی مخصوص اقدام سے بیزاری کو اس پوری تنظیم کا مخالف سمجھنا انصاف نہیں
تمام شیعہ تنظیموں میں فعال کردار ادا کرنیوالوں کو اپنے سے زیادہ مخلص اور تشیع کا وفادار سجمھتا ہوں، ڈاکٹر راشد عباس سید
ڈاکٹر راشد عباس سید کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ معروف دانشور ہیں، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان معروف سابق صدر، تحریک جعفریہ پاکستان کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات، جنہیں لکھنے اور بولنے پر ملکہ حاصل ہے۔ ان کی ہر تحریر اور تقریر کو ان کے حامی اور ناقد انتہائی حساسیت پڑھتے اور سنتے ہیں۔ قومی اور سیاسی حالات پر مکمل عبور اور اس حوالے سے سند سمجھے جاتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں، اسکے ساتھ ساتھ اپنے اوپر ہونیوالی تنقید کو بھی انتہائی خون سردی سے سنتے اور پھر اسکا استدلال اور قاطعیت کیساتھ جواب دینے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کچھ عرصہ پہلے اسلام ٹائمز پر انکی مشہد مقدس میں شہید قائد علامہ عارف الحسینی کی 30ویں برسی کی مناسبت سے ہونیوالے "فرزند امام" سیمینار میں کی گئی ایک تقریر پبلش ہوئی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "قائد شہید علامہ عارف الحسینی کا حقیقی وارث قم اور مشہد کا حوزہ علمیہ ہے۔" انکی اس تقریر پر اسلام ٹائمز کے صفحات پر ان حامی اور ناقدین نے کھل کر اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا اور بعض سوالات بھی اٹھائے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے ان محترم قارئین کی آراء کا احترام کرتے ہوئے، انہیں سوالات کی شکل میں ڈاکٹر راشد عباس سید صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور ان سے ان سوالات کے جوابات چاہے۔ اسلام ٹائمز کے ان سوالات کو دیکھ کر ابتدائی طور پر انہوں نے جس ردعمل کا اظیار کیا، پہلے اسے ملاحظہ فرما لیں، آگے چل کر انکا انٹرویو بھی قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز کے سوالات پر ڈاکٹر آر اے سید کا ابتدائی ردعمل:
اس سے پہلے کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں ان سوالات کا جواب دوں، میری آپ سے گزارش ہے کہ جس طرح آپ میری ایک تقریر میں بیان کئے گئے موقف پر میرا محاسبہ اور سوالات کر رہے ہیں، امید ہے اگر کوئی قومی رہنما یا دانشور اپنی تقاریر اور بیانات نیز تجزیوں میں مبالغہ آمیز بیانات جاری کرے اور حقائق کو تروڑ مروڑ کر بیان کرے یا اپنی شکست اور ناکامی کو چھپانے کے لئے عوام اور کارکنان کی توجہ ہٹانے کے لئے بے بنیاد دعوے اور مبالغہ آمیز کارکردگی بیان کرے تو اسے بھی اسلام ٹائمز والے مجبور کریں گے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دیں اور اسے تنقید، اعتراض، مایوسی پھیلانے یا کسی اور بہانے سے سوالات کے جواب دینے سے فرار نہیں ہونے دیں گے۔ میری اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے یہ بھی گزارش ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر فورم منعقد کریں اور مختلف مواقف کے حامیوں کو ایک میز کے گرد بٹھا کر ان کو موقف بیان کرنے کا موقع دیں، تاکہ متنازعہ موضوع پر سب کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں، تاکہ سنی سنائی باتوں کے نتیجے میں کم سے کم غلط فہمیاں جنم لیں، مثبت اور تعمیری تنقید اور عملی بحث و مباحثہ اہل علم کا خاصہ رہا ہے اور مہذب دنیا میں اس کو ہمیشہ سرایا گیا ہے۔ قومی تنظمیون کے رہنمائون کے لئے فارسی میں مسئولین کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، لہٰذا وہ اپنے آپ کو سوالات و جوابات سے مستثنٰی نہ سمجھیں۔
 
اسلام ٹائمز: شہید علامہ عارف الحسینی کا حقیقی وارث قم اور مشہد کا حوزہ علمیہ ہے، اس سے آپکی دقیقاً مراد کیا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
آپ نے میری تقریر سے جو پہلا سوال اٹھایا ہے، میں اس سوال پر حیران و پریشان ہوں، کیونکہ اسکا مفہوم اتنا واضح ہے کہ توضیح و تفصیل کی ضرورت نہیں۔ میری بات کی ایک دلیل یہ ہے کہ کسی عالم دین یا صاحب علم یا دوسرے لفظوں میں کسی فرزند حوزہ نے اس پر کوئی اعتراض یا استفسار نہیں کیا ہے، البتہ کارکنان، تنظ٘یمی جیالوں یا میری ذات سے اختلاف کرنے والوں نے اس پر اعتراض کیا ہے، جو انکا حق ہے۔ حوزہ علمیہ کو وارث قرار دینے کی اصطلاح سمجھنے کے لئے حوزہ علمیہ کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ کے افکار و نظریات کا مطالعہ ضروری ہے۔ رہبر انقلاب نے حوزہ علمیہ کے لئے "مادر انقلاب و نظام اسلامی" کی تعبیر استعمال کی ہے۔ اس طرح حجتہ الاسلام سید حسن نصراللہ و شہید مظلوم عارف حسین الحسینی جیسی شخصیات کے لئے فرزندہ حوزہ کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں، میں بھی اسی حوزہ علمیہ کو شہید عارف الحسینی کا حقیقی وارث قرار دیتا ہوں، جسے رہبر انقلاب اسلامی، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی ماں قرار دیتے ہیں۔ حوزہ علمیہ یعنی تشیع کا مرکز، محمد و آل محمد کی تعلیمات کی تفسیر و تشریح کا مرکز، شہید قائد کی مادر علمی اور عالم اسلام کی امید کا مرکز، تشیع اور عالم اسلام کے متنازعہ مسائل کا فصل الخطاب۔

اسلام ٹائمز: اس دعوے یا تاثر کی بنیاد کیا ہے کہ شہید قائد علامہ عارف الحسینی کی فکر کو صرف آپ اور آپکے ہم خیال دوستوں نے ہی صحیح طور پر سمجھا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
میں نے اپنی تقریر یا عمل سے کہیں بھی یہ نہیں کہا ہے کہ میں اور میرے ہم خیال دوست ہی شہید قائد کی فکر کو صحیح درک کرتے یا سجمھتے ہیں، میں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ شہید قائد کے بارے میں مختلف اور متضاد سیاسی تفسیریں اور تشریحیں سامنے آرہی ہیں، میرے جیسے غیر حوزوی اور عوام کس کو حقیقی اور خالص فکر حسینی سمجھیں۔ ہمیں تو شروع سے یہ سمجھایا گیا تھا کہ علمی مسائل میں علماء سے رجوع کریں، اب جب علماء میں فکر شہید پر 180 ایک سو اسی درجے کا اختلاف ہے تو مجھے علماء کے اساتذہ اور مادر علمی سے رجوع کرنا ہی منظقی نظر آتا ہے۔ اگر میں اور میرے دوست کسی نتیجے پر پہنچ چکے ہوتے تو حوزہ علمیہ کو وارث قرار دیکر اس کی طرف رجوع کرنے کی خواہش کا اظہار نہ کرتے۔

اسلام ٹائمز: نظام ولایت فقیہ کا نفاذ، دینی جماعتوں کیساتھ الحاق یا دیگر سیکولر جماعتوں کیساتھ اتحاد، اگر یہ تینوں موارد شہید قائد کی فکر سے متصادم ہیں تو پھر پاکستان کی رائج سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے شہید کی صحیح سیاسی فکر کیا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
اسی سوال کا جواب تلاش کرنے اور شہید کی صحیح سیاسی فکر کی تلاش میں تو میں نے حوزہ علمیہ کی طرف رجوع کرنے کی تجویز دی ہے، البتہ یہ وہ سوال ہے جو جواب طلب ہے اور اگر لاکھوں میں کہنا مبالغہ ہے تو ہزاروں افراد جو ہم سے رابطے میں رہتے ہیں، مختلف انداز سے یہ سوال اٹھاتے ہیں، کیونکہ تینوں قائدین اپنے آپ کو شہید کے خط کا پیروکار قرار دیتے ہیں، ہم نے تو اس خط کے حوالے سے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: اگر شہید کی فکر کو بنیاد بنا کر اہل تشیع کی فعال مذہبی جماعتوں کا آپریشن اسی طرح جاری رہا تو پھر اپنے من پسند فرشتے کہاں سے لائینگے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
کیا متنازعہ مسائل کے حل کے لئے حوزہ علمیہ کی طرف رجوع کرنا فعال مذہبی جماعتوں کا آپریشن ہے، یہ اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے تو خوف آرہا ہے کہ ہم تنظیم پرستی بلکہ شخصیت پرستی کے چکر میں کل ولایت فقیہ کے بارے میں بحث مباحثہ کو بھی کہیں مذہبی جماعتوں کا آپریشن قرار نہ دیں۔ میں نے اپنی تقریر میں حوزہ علمیہ کے علاوہ اگر کسی فرد یا افراد کا نام پیش کیا ہوتا تو من پسند فرشتوں والی پھبتی یا طنز صحیح ہوتا۔ میں نے تو تشیع کے سب سے اعلٰی اور مستند انسٹی ٹیوٹ یعنی حوزہ علمیہ کا نام لیا ہے۔ فرزندان حوزہ اور علماء کو تو ایک یونیورسٹی یا دانشگاہی فرد کے اس روحانیت پسند اور حوزہ علمیہ دوست تجویز یا اقدام کی تائید یا تعریف کرنی چاہیئے تھی۔

اسلام ٹائمز: آپ خود العارف اکیڈمی کے سربراہ ہیں، آپ اور آپکے ہم خیال افراد باقی اہل تشیع جماعتوں کو رد کر رہے ہیں، کیا مستقبل قریب یا بعید میں آپکی قیادت میں کوئی نئی جماعت تشکیل پانے جا رہی ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
دیکھیں حقیقی باصلاحیت شخصیات اور حقیقی نظریاتی تنظمیں معاشرے سے خود بخود جنم لیتی ہیں، مصنوعی طریقے سے بنائی جانے والی شخصیات اور تنظمیں بہت جلد اپنا رنگ کھو دیتی ہیں۔ ہم بھی کسی مصنوعی شخصیت اور مصنوعی ادارے کی تشکیل کے حامی نہیں ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی جب کسی نئے ادارے کی اشد ضرورت ہوئی اور شہید عارف حسینی جیسی کوئی قابل شخصیت منظرعام پر آئی تو کوئی اسے روک نہیں سکے گا اور نہ ہی اس طرح کی شخصیات اور اداروں کو کمزور اور مصنوعی بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ العارف اکیڈمی بنانے کا دور دور تک اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ العارف اکیڈمی کے دو بنیادی اہداف ہیں، شہید عارف حسین الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی یاد کو زندہ رکھنا نیز ان دو شہداء کی حقیقی فکر سے آگاہ علماء اور دانشور حضرات کے لئے ایک علمی پلیٹ فارم فراہم کرنا، جہاں وہ شہید عارف الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے افکار و نظریات کا تحلیلی اور تجزیاتی جائزہ نیز زمان و مکان کے تناظر میں اس کی تشریح کرکے میڈیا، متعلقہ افراد اور اداروں تک پہنچا سکیں، نئی جماعت کی تشکیل پر تو یہی کہہ سکتا ہوں:
خواب است و خیال است و محال است و جنوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے بارے میں تو تاثر یہ ہے کہ یہ آپ اور آپکے ہم فکر افراد نے ملکر بنائی تھی، ایم ڈبلیو ایم کیساتھ موجودہ اختلافات کی وجوہات کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
جی ہاں یہ تاثر نہیں بلکہ حقیقیت ہے، ہمارے ہم فکر دوستوں نے اس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ مجلس وحدت کے محدود چند جذباتی دوست میری تنقید کو مخالفت ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، ان کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں، لیکن ان دوستوں کے بعض قریبی ساتھی جس طرح کے اندیشوں اور میرے جیسے مجلس کے حامیوں کے بارے میں ان کے منفی رویوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں، وہ قابل تشویش ہیں۔ حامی کو مخالف بنانے میں دیر نہیں لگتی، سوشل میڈیا کے اس آلودہ دور میں مجلس جیسی تنظیم کو تعمیری تنقید کی اشد ضرورت ہے۔ مثبت اور تعمیری تنقید کے بغیر ادارے کمزور ہو جاتے ہیں اور شخصیات اتنی مضبوط ہو جاتی ہیں کہ پوری کی پوری تنظیم کنیز، لونڈی اور غلام کے درجے پر آجاتی ہے اور باصلاحیت اراکین اس طرح کے ماحول میں گھٹن اور حبس کا شکار ہو کر یا تو تنظیم سے الگ ہو جاتے ہیں یا ان کی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔

ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، باصلاحیت، مخلص، نڈر، بے باک، قیادت کی غلط پالیسیون پر خاموشی اختیار نہ کرنے والے کارکناں اور ممبران ہی تنظیموں کی رگوں میں تازہ خون بن کر دوڑتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم میں پاکستان کی ملی جدوجہد میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے، مجلس وحدت مسلمین کے دستور اور آئین میں قائد کا لفظ استعمال کرنے سے گریز اور تاحیات قیادت کے فلسفے سے پرہیز نہایت مثبت نکات ہیں۔ البتہ تنظیمی اداروں بالخصوص شوریٰ عالی کے کردار کو فعال سے فعال تر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ فیصلہ ساز اداروں میں انتظامی اداروں کی ضرروت سے زیادہ موجودگی تنظیموں میں جمود کا باعث بنتی ہے اور محاسبہ کا منصفانہ عمل رک جاتا ہے، جس کے نتیجے میں آمرانہ اقدامات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسکا منطقی نتیجہ کارکناں کی بے بسی اور عوام کی دوری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مجھے ایم ڈبلیو ایم کی بعض دستوری اور آئینی شقوں پر اشکال و اعتراض ہے، لیکن اس اعتراض کو مجلس کی مخالفت سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔ مجھے موقع ملا تو میں ان اعتراضات کو متعلقہ اداروں تک پہنجائوں گا۔ مجلس وحدت مسلمین تو ایک طرف، میں پاکستان میں تشیع کی بہتری کے لئے مصروف عمل کسی بھی تنظییم کا مخالف نہیں ہوں۔ تاہم ان تنظیموں کے بعض مواقف اور اقدامات پر جہاں مناسب سمجھتا ہوں اعتراض اٹھاتا ہوں، میں تمام شیعہ تنظیموں میں فعال کردار ادا کرنے والوں کو اپنے سے زیادہ مخلص اور تشیع کا وفادار سجمھتا ہوں، کسی شخصیت کے کسی مخصوص اقدام سے بیزاری کو اس پوری تنظیم کا مخالف سمجھنا انصاف نہیں۔

اسلام ٹائمز: جب بھی کوئی شیعہ مذہبی جماعت جڑ پکڑنے لگتی ہے تو پھر آپ ہی کیوں خم ٹھونک کر اسکی مخالفت میں سامنے آجاتے ہیں۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
اس سوال کا جواب گذشتہ سوال کے جواب میں موجود ہے۔ تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت ختم ہو جاتی ہے یا تنظمیوں کے کرتا دھرتا کسی اندورنی خوف کی بدولت انجانے اندیشوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا خدا ںخواستہ غلط فہمی کی بنیاد پر مفادات میں ٹکرائو محسوس کرتے ہیں تو تعمیری تنقید کو بھی مخالفت کا رنگ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ نظریاتی تنظیموں میں ایسا ماحول زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے وسیع میدان موجود ہے، اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا قرین مصلحت نہیں۔

 اسلام ٹائمز: آپکا یہ دعویٰ کہ شہید کے ورثاء ہونیکی مدعی جماعتیں شہید کے خط پر نہیں ہیں، اس دعوے کی بنیاد کیا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد عباس سید:
میں نے تو کسی کی تائید کی ہے نہ ہی تردید۔ میں نے تو شہید کے فکری وارث کی طرف نشاندہی کی ہے اور معصومانہ سوال اٹھایا ہے کہ تین متضاد تفسیروں، تشریحوں اور تعبیروں میں جو صحیح ہے، حوزہ علمیہ اس کی تائید کرے، تاکہ شہید حیسنی کے پیرو دو دل ہونے کی بجائے مکمل اطمینان، اعتماد اور دل جمعی سے اس خط اور راستے پر عمل پیرا ہو سکیں۔ واللہ اعلم بالثواب
خبر کا کوڈ : 748928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سوال اپنی جگه پر باقی ہے که حوزه علمیه مشهد یا قم کی وارثت سے کیا مراد ہے؟!!! حوزه میں زیر تعلیم پاکستانی طلبه کی تائید یا مراجع عظام کی تائید یا ولی فقیه کی تائید مراد ہے؟ اور اس حوالے سے اگر ولی فقیه، مراجع یا دینی مدارس کی تائید مراد ہے تو جس شخص کو ولی فقیه، مدارس دینی کی تائید حاصل ہے، راشد صاحب پچیس سال سے اس کے خلاف عملاً بر سر پیکار ہیں !!! اور اگر حوزه سے مراد مدارس کی عمارتیں اور حجرات مراد هیں تو راشد صاحب سے اس طرح کی بات بعید ہے۔!! البته راشد صاحب کی اس بارے میں کلی گوئی اور امام خامنه کے بیان کا حواله تنظمی حوالے سے دینا قطعاً درست نهیں، کیونکه امام خامنه دوسروں کے لیے حوزه کا ماڈل اور نمونه متعارف کرا رہے ہیں، سید حسن نصر الله کی شکل میں که حوزه سے ایسی تاثیر گزار شخصیات نکلی ہیں اور اسکی مثال آپ علامه سید ساجد علی نقوی، سید جواد نقوی یا خود امام خامنه ای کی بهی آپ دے سکتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ ایک مرجع تقلید اور عالم کی علمی بات کی درست تفسیر کو یا وه خود بیان کرسکتا ہے یا اسکا هم صنف عالم، ایک عام ورکر کے بس کی بات نہیں، اگر ایسے هوتا تو امام صادق کی بات سمجهنے کے لیے علماء کرام زندگی صرف نه کرتے اور نه مدارس دینیه کی تاسیس هوتی، لهذا هر شخص اگر اپنی حدود میں رہے تو اس قسم کے اختلافات جنم هی نه لیں، جب ایک عام طلبه تنظیم یا اسکا ایک تربیت شده فرد خود کو قائد گر سمجهنے لگے تو نتیجه اس سے بهتر نه هوگا.
راشد صاحب کی مثال نیم ملا خطره ایمان اور نیم حکیم خطره جان کی سی ہے، یه بنده خدا ایک مذهبی تنظیم میں فعال رها اور خود کو دینی راهنما سمجهنے لگا اور بالآخر خود کو قائد گر سمجھ کر ایک طلبه تنظیم کو استعمال کرنے لگا، روزانه کی بنیاد پر کبهی تنظیم بنائی تو کبهی نیا قائد!! کبهی سید عابد حسینی تو کبهی فاضل موسوی کو امریکه سے بلوایا تو کبهی سید شاهد نقوی کو قائد بنایا تو اب راجه صاحب کو بنا کر خود هی اس کے خلاف کهڑا هوگیا!!! آرے بنده خدا تنقید برای اصلاح اور تنقید برای تخریب میں زمین آسمان کا فرق ہے، کاش آپ تنقید برای اصلاح کرتے آپ نے تو صرف اور صرف تخریب کا بیڑا اٹھا رکھا ہے!!!
شهید قائد اور دیگر علماء و شهداء کا راسته انبیاء کا راسته ہے اور انبیاء کے وارث علماء هی ہیں اور حوزات بهی علماء پروری کے ناطے انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی وارثت هدایت کی راه اور اسی کی تبلیغ اور اصلاح امور ہے اور جو لوگ اس کے لیے جس حد تک کام کر رہے ہیں، ان کا ساتھ دینا چاهیے۔ ایک جگه بیٹھ کر مفروضات کی بنیاد پر مخالفت برای مخالفت میں زندگی بسر کرنا کون سا خدائی کام ہے اور یه کونسی شهید کی وارثت ہے۔!!!
Pakistan
انٹرویو بہت ہی تشنہ ہے، کئی سوالوں کے جواب گول کر گئے ہیں۔ حوزہ سے مراد عمارت ہے یا رہبریت ہے یا زیر تعلیم طلاب، جو پاکستان کی سیاست اور امور سے بالکل بھی الگ تھلگ، کیونکہ ان کا مقصد ہی تعلیم حاصل کرنا ہے، ابتدا میں ہی واضح کر گئے ہیں کہ ان کے اختلافات کن سے ہیں۔ اختلاف کو اختلاف کی حد تک رکھیں تو بہتر ہے۔ اپنے آپ کو جب انسان عقل کل سمجھتا ہے تو مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ مجلس کے ادارے موجود ہیں ، شوریٰ عالی کے کسی فرد نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ ادارے کے فیصلوں پر کچھ لوگوں کی اجارہ داری ہے، جب کسی فرد نے نہیں کہا تو آپ بھی حسن ظن قائم رکھیں۔ اگر کوئی رائے دینا مقصود ہے تو براہ راست اداروں تک پہنچائیں۔ شکریہ
Iran, Islamic Republic of
ڈاکٹر راشد نقوی صاحب کی باتیں احساس درد و بیان درد و جدوجہد اصلاح کی مصداق ہیں، بعض معلوم الحال احباب خواہ مخواہ بات کی کھال ادھیڑنے میں لگ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شہید کے افکار کے حوالے سے حوزہ علمیہ کا ایڈریس بالکل صحیح دیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو فکر بعنوان تشیع اور دین سیاسی یا سیاست دینی آپ نے تشیع کی نمائندگی میں بیان کرنی ہے اسکو حوزہ علمیہ کی تائید حاصل ہونی چاہیئے، اس بات کے مخاطب وہ عقلمند افراد ہیں جنکو اسکا واضح مفہوم سمجھ آرہا ہے اور جو کند ذھن دوست یا اپنے آپ کو کند ذھن ظاہر کرنے والے دوست پھر پھر یہ سوال دھرا رہے ہیں کہ اس سے مراد حوزہ علمیہ کی دیواریں ہیں یا چھتیں یا ۔ ۔ ۔ تو ان کیلئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ بھائی آپ کی حالت ان افراد کی ہے، جنہوں نے انا مدینہ العلم و علی بابھا کے جواب میں کسی کو علم کے شہر کی دیوار، کسی کو چھت، کسی کو پرنالا قرار دیا۔
واضح سی بات ہے جب حوزہ علمیہ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد تشیع کے مرکز میں موجود مقبول شخصیات کے افکار میں بیان شدہ اسلامی تعلیمات، پھر اب یہ دوست اس کو ڈھونڈنے نہ چل پڑیں کہ کہاں پر پاکستان میں فلانے کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا مسئلہ بیان ہوا ہے، بھائی نظریاتی بنیادیں دیکھنے کیلئے بنیادی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، البتہ اس بات کو ماننا چاہیئے کہ جسطرح دریا سے مچھلی پکڑنا ہر ایک کا کام نہیں ہے، یہ بھی ہر ایک کا کام نہیں ہے۔
Iran, Islamic Republic of
اسلام ٹائمز سے گزارش ہے کہ ایک انٹرویو راجا ناصر عباس جعفری صاحب سے بھی لیا جائے، جس میں کم از کم چند ایک درج ذیل سوال موجود ہوں:
۱؛ جب مجلس وحدت مسلمین بنی تھی تو راجا صاحب نے مختلف جگہوں پر اپنے خطابات میں فرمایا تھا کہ ہم نے قائد کی جگہ بھی خالی رکھی ہے اور ہمارا سیکرٹری جنرل بھی صرف دو مرتبہ انتخاب ہوسکتا ہے، لیکن یہ شق شورایٰ عالی میں تصویب ہونے کے بعد اس کتابچہ سے غائب ہوگئی، جس میں شورایٰ عالی کے مصوبات موجود تھے، اس شق کو غائب کرنے کی حرکت کے پیچھے کون لوگ تھے، ان کے اہداف کیا تھے اور موجودہ قانون میں اس شق کی جگہ کہاں ہے۔؟

۲: مجلس وحدت مسلمین کے قیام میں جس چیز پر اتفاق ہوا تھا اور مجلس وحدت کے بانیان میں شامل شخصیات جناب علمائے کرام سید جواد نقوی، سید حسنین گردیزی، سید مظہر کاظمی، امین شھیدی، سید جواد ہادی، سید حیدر عابدی، سید علی مرتضیٰ زیدی، اور معزز شخصیات جناب راشد نقوی، علی رضا بھٹی، و دیگران اس بات کے گواہ ہیں، وہ یہ تھا کہ سب سے پہلے پاکستان میں تبلیغ کے مسئلہ پر سرمایہ کاری ہوگی اور اس پر زیادہ سے زیادہ فعالیت کی جائے گی، لیکن اس وقت سوائے سیاست کے یہ پارٹی اور کچھ بھی نہیں کر رہی اور کر بھی رہی ہو تو نہ کرنے کے برابر ہے، لہذا اس بارے میں ان کی رائے کیا ہے، ثانیا یہ بھی انکو بتانا چاہیئے کہ مذکورہ شخصیات اور اس کے علاوہ بہت سے اہم افراد جو اس راستے کے آغاز میں ساتھ تھے، ان کو کیوں دور کر دیا گیا ہے؟ اگر یہ بقولہ ریزش (جدا ہونے والے) راہ ہیں تو رویش (نئی پود) راہ کہاں ہے۔؟؟
۳: مجلس وحدت مسلمین کے آغاز میں جن افراد نے مل کر کام شروع کیا، ان کا نکتہ اشتراک شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے راستے کو آگے لے کر جانا تھا، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ اس پارٹی کے تمام پروگراموں سے شہید عارف سمیت ہمارے تمام دینی و مذہبی ہیروز کی تصاویر غائب ہیں، کیا یہ ان کی فکر کو غائب کرنے کا مقدمہ ہے؟ نہیں تو انکی مجبوری کیا ہے۔؟
۴: جس وقت اسی ملک میں سید جواد نقوی اپنے پروگراموں میں امام خمینی علیہ الرحمہ اور امام خامنہ ای حفظہ اللہ کی قد آدم تصاویر لگا کر انقلاب کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں تو مجلس وحدت مسلمین کی بزرگ شخصیات اور دیگر تربیتی اور ثقافتی اداروں کو جو یہ فکر لاحق ہے کہ آئی ایس او کے جوان سید جواد نقوی سے مربوط نہ ہوجائیں، وہ کس طرح یہ امید کرسکتے ہیں جبکہ خود یہ تمام حضرات دینی جماعت کو نیشنلزم اور لبرلزم کی طرف لے کر جا رہی ہے، مجلس وحدت مسلمین کے بزرگان کے پاس کونسی مثبت شے ہے جسکی وجہ سے انقلابی، فکری، نظریاتی جوان ان کی طرف مائل ہو۔؟
Iran, Islamic Republic of
کراچی گروپ محنت کر حسد نہ کر
Iran, Islamic Republic of
شھید کے پیرو کبھی ڈکٹیٹر کے سامنے دم نہیں ھلاتے۔
Iran, Islamic Republic of
شھید کے پیرو فوجی ڈکٹیٹروں سے چار دن کی زندگی نہیں مانگتے بلکہ ولایت کا دفاع کرتے ہوئے شھید ہو جاتے ہیں۔
Iran, Islamic Republic of
اس وقت مجلس پاکستان میں تشیع کی نمائیندگی نہیں بلکہ ایجنسیوں کی نمائندگی کر رہی ہے اور سید علی خامنہ ای کو اپنا ولی فقیہ نہیں بلکہ باجوہ کو ولی فقیہ مان رہی ہے۔
Pakistan
ڈاکٹر صاحب دیکھ لیا، انہی قمیوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے, جو بغیر تحقیق کے الزامات عائد کرتے ہیں،؟ کیا یہ شہید کی فکر کے وارث ہیں۔؟ ان کی زبان چک کر لیں, کہیں سے بھی شہید کی فکر کے داعی لگتے ہیں۔؟ ایمان سے بتائیے گا
سلام
یہ سب کچھ قدرتی مکافات عمل ہے، جس کی زد پر یہ تمام خواص ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تو خود ہی ڈر چکے ہیں کہ اب آئیں بائیں شائیں کی کیفیت ہے۔ ڈر گئے استاد، مان لیں آپ۔ جب آپ نے اوکھلی میں سر دے ہی دیا تھا تو پھر موصلی سے ڈرنا نہیں چاہئے تھا۔ مخلص مومن متدین واقعی ولائی و دینی انقلابی جوانوں کو لگ پتہ گیا ہوگا کہ آپکے آسرے پر کوئی بڑا اور اہم کام کیا ہی نہیں جاسکتا۔ میری درخواست ہے کہ اس ملت پر رحم فرمائیں اور ماضی کے تمام تر ناکام تجربات کی روشنی میں اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے مزید ناکام تجربات سے گریز کریں۔ یہ ساری دو نمبریاں آپکی شراکت داری سے ہی وقوع پذیر ہوئیں اور اب جب مال و منصب لوگوں کی اصلیت کو بے نقاب کر رہا ہے تو آپ اپنا دامن بچانا چاہ رہے ہیں جبکہ معلوم تھا کہ کوئی بھی شخصیت قم کا جگا تھی تو پھر اس کو ملت پر مسلط کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا اور اگر سارے فعال اچھے ہیں تو پھر تو آپکو ساری فعال ہستیوں سے یکساں محبت رکھنی چاہئے تھی، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہ ایک عالم دین جس کو امام خمینی اور انکی رحلت کے بعد رہبر معظم نے پاکستان میں نمایندگی پر فائز کیا، تاحال جو اسی منصب پر فائز ہے، اسکی کردار کشی کی مہم آج بھی آپکے گروپ کی جانب سے خضوع و خشوع کے ساتھ جاری ہے۔ رھبر کی نمایندگی، اہم اداروں میں انکو رکنیت و عہدے دینا، اگر یہ بھی ایویں ئی ہے تو پھر بچتا کیا ہے؟ آپ کے یہ سابقہ ساتھی جن سے آج آپ نالاں دکھائی دیتے ہیں، یا موجودین جو آج بھی آپکے ساتھ ہیں، وہ یہ بتائیں کہ آپ نے ڈاکٹر شہید کی شہادت کے بعد کرائسس کو جنم دینے اور پھر اسکے بعد اسکی مس منیجمنٹ کرنے کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہی کب تھا؟ ڈاکٹر شہید تو کرائسس منیجمنٹ کا ماہر آدمی تھا، اسکی زندگی میں کیوں یہ کرائسس منیج کر لیا گیا؟ اور کیوں انکی شہادت کے بعد ہی یہ مصنوعی کرائسس ایجاد کرکے ایک کے بعد ایک ناکام تجربہ کیا جاتا رہا۔
بہت معذرت کے ساتھ میری نصیحت ہے آپ سبھی سے کہ خدارا اس ملت سے زیادہ اپنی آخرت کی فکر کریں کیونکہ اس ملت کے واقعی متدین، صالح اور انقلابی ولائی جوانوں پر حق مشتبہ کرنے کا سہرا آپ جیسے سرکردہ افراد کے علاوہ اور کسی کے سر پر نہیں سجا۔ آج ڈاکٹر شہید کی بیٹی کو اس تحریک انصاف کی نشست پر بٹھا دیا گیا کہ جو تحریک انصاف کالعدم تکفیری دہشت گرد کے ایک ووٹ کی خاطر اسے بھی ساتھ بٹھا رہی ہے۔ فرق کیا رہ گیا ہے؟ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
ڈاکٹر راشد عباس نقوی صاحب آپکے پیٹ کا درد صرف آپکی ذات ہے، خود محوری ہے اور کچھ نہیں کہ آپکو لفٹ نہیں کروائی جا رہی تو ملت ملت، شہید حسینی شہید حسینی کی گردان شروع کر دی ہے، جوں ہی آپ کو لفٹ شروع تو پھر کہاں کی ملت اور کہاں شہید کے افکار!!! آپ تو ابھی سے وضاحتیں پیش کرکے خود سے صفائیاں اور تشریحات پر آگئے۔ ایک تو آپکا یہ کہنا ہی غیر منطقی ہے کہ حوزہ علمیہ مشہد و قم معیار ہیں۔ کبھی احمد خمینی کا وہ نوحہ پڑھو جو اردو میں اے مکتب مظلوم کے علمدار بابا کے عنوان سے ترجمہ ہوا تھا۔ کبھی منتظری صاحب کو امام خمینی کا لکھا گیا خط پڑھو۔ کبھی شریعتمداری پر بھی غور کرو تو کبھی س م اور اب ص شیرازی کو بھی دیکھ لو، کسی بھی آگاہ انقلابی و ولائی و متدین جوان کو گمراہ نہیں کرسکو گے کہ معیار کیا ہے؟ معیار فقط امام زمانہ عج کے ظہور کی زمینہ سازی کا کام ہے، جو انکی غیبت میں انکے مرکزی نائب کی رہبری میں حرکت کرتے ہوئے کرنی ہے اور معیار غیبت ولی عصر میں انکے مرکزی نائب کی واقعی پیروی ہے۔ میں نہ مانوں والی انا پرستی سے آپ نے اب حوزہ علمیہ کو درمیان میں ڈال دیا جبکہ طول تاریخ میں شیعہ دنیا میں تو خاموش مرجعیت کی اصطلاح بھی رائج رہی ہے۔ بہتر ہے کہ یہ ڈاکٹر شہید کے چاہنے والے صرف اس ایک بات پر ہی غور کر لیں کہ ڈاکٹر شہید کی دختر نیک اختر کا اس جماعت میں ہونا کہ جس نے ایک ووٹ کی خاطر کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے سرغنہ کو ساتھ ملا لیا ہے، کیا اسکے بعد بھی کسی کے غلط ہونے پر کسی اور دلیل کی ضرورت ہے تم لوگوں کو؟؟؟ فاعتبرو یا اولی الالباب!!
m a
Pakistan
انقلاب .......کو بهی امام خمینی سے اپنے آپ کو زیادھ انقلابی سمھجنے والوں نے نقصان پھنچایا، iso کے کچهه دوستوں کی مثال ایسی هے۔۔۔۔۔۔
سید علی حسینی
Germany
ڈاکٹر صاحب.
ھماری قیادتوں کو مالشیوں، خوشآمد کرنے والے اور قیادت کی ھر بات اور عمل پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والوں کی ھی ضرورت رھتی ھے.
جس فرد سے انہیں حریت فکر اور تنقید کی بو محسوس ھوتی ہے، یہ اسے اپنے اور اپنی تنظیم کا دشمن تصور کرنے لگتے ہیں.
مجلس وحدت کے ساتھ بھی یہی ھوا.
جیسے ھی ناپسندیدہ افراد کی کانٹ چھانٹ مکمل ھوئی تو قائد وحدت، تا حیات قیادت، جیسے الفاظ بھی زندہ ھوگیے. منشور سے شقیں بھی غائب ھوگئیں. مالشی اور خوشآمد کرنے والے اوپر آگئے اور کرپشن پر تنقید کرنے والے سرفراز حسینی جیسے لوگ باھر کر دییے گیے.
اگر کسی کو نہیں پتا تو وہ مجلس کی قیادت سے پوچھ لے کے حسینی صاھب کابینہ سے کیوں نکلے.
مجلس کی قیادت پر تنقید کی وجہ سے ڈاکٹر راشد نقوی بھی اسی ردعمل کا سامنا کر رھے ہیں.
ھم اسلام ٹائمز سے گزارش کرتے ہین. راجہ ناصر جفعری صاحب سے بھی اسی حوالے سے سوالات پوچھے جائین.
مجلس اسٹیبلشمنٹ کی غیر مشروط غلامی میں کیوں گئی.؟ مظھر برلاس کا کالم اگر ٹھیک نہیں تھا تو تردید کیوں نہیں کی گئی. ورنہ آپ اس روایت کا ٹھوس ثبوت بھی دیں. تاکہ پوری قوم غلامی پر فخر محسوس کرے.
منشور کی شق دو مرتبہ سیکرٹری جنرل کیوں حذف کی گئی.؟
تربیتی ادارے، اسکاوٹس، شعبہ جوان کی فعالیت کس کے کہنے پر انتھائی کم کر دی گئی.
. موجودہ پی ٹی آہی کی حکومت بننے کے دوران مجلس کی جانب سے انتھائی بلندوبانگ دعویٰ کیے گیے. تکفیریت کو اٹھا کر باھر پھینک دیا. جبکہ معاویہ اعظم آپ کی ھی اتحادی سیٹوں پر بیٹھا ھوتا ھے. آپ کے مزید دعوے کہ ھماری وجہ سے پاکستان اپنی فوج یمن نہیں بھیج سکا، ھماری وجہ سے امریکا مخالف حکومت معرض وجود آئی. ھم نے پاکستان سے آل سعود کو نکال باھر کیا.
جبکہ اگر الیکشن کمشن کی ویب سائیٹ دیکھیں تو آپ کے ووٹ بنک کی قلعی کھل جاتی ھے.
sitara naqvi
Pakistan
راشد نقوی صاحب! بادشاہ گری کے چکروں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ خود کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا جانشین کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو نمائندہ ولی فقیہہ کے خلاف استعمال کرکے قوم کو تقسیم کیا۔ جس نے آپ کےگھڑے ہوئے بتوں فاضل موسوی، شاہد نقوی، جواد ہادی اور عابدالحسینی کو قائد مان کر چھوڑ دیا۔ اگلے تجربات راجہ ناصر عباس اور جواد نقوی کے بھی ہوئے، مگر علامہ ساجد علی نقوی سے منہ موڑنے والے، اب در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان کے پاس صرف شہید قائد اور شہید ڈاکٹر نقوی کی تصویریں رہ گئی ہیں اور وہ انہیں کی پوجا کر رہے ہیں۔ کوئی قیادت ان کے نصیب میں نہیں رہی۔
ھم اسلام ٹائمز سے استدعا کرتے ہیں کہ راجہ ناصر جعفری سے بھی انٹرویو کیا جایے. تاکہ حقایق کی مزید شفاف سازی ھو سکے. اگر راجہ صاب انٹرویو نہیں دیتے تو بھی اسلام ٹایمز اس بارے لوگوں کو آگاہ کرے.
ہماری پیشکش