3
0
Monday 9 Sep 2013 16:46

شام پر حملے کا امریکی فیصلہ، دنیا تیسری عالمگیر جنگ کے دہانے پر!

شام پر حملے کا امریکی فیصلہ، دنیا تیسری عالمگیر جنگ کے دہانے پر!
تحریر: سید تصور کاظمی

شام کے خلاف امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سعودی عرب کی ایماء پر چھیڑی گئی جنگ میں حسب خواہش نتائج کے حصول میں بری طرح ناکام ہونے، خلاف توقع جنگ کے طول پکڑنے اور صدر بشار الاسد کا بستر گول کرنے کے ہدف کو حاصل نہ کرسکنے کی بناء پر امریکہ اور اس کے اتحادی نہایت سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے دمشق کے مضافات میں 21 اگست کو مبینہ طور پر سویلین آبادی کے خلاف کیمیائی گیس کے حملوں کا جواز پیدا کرکے شامی حکومت کو سبق دینے کی ٹھان لی ہے۔ 31 اگست کو پریس کانفرنس میں صدر امریکہ باراک اوبامہ نے اعلان کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو وہ شام پر ٹارگٹڈ حملے کریں گے، خواہ اس کے لئے ان کے پاس یو این سکیورٹی کونسل کی منظوری ہو یا نہ ہو، البتہ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی حملے کا وقت نہیں بتا سکتے اور حملے کے فیصلے کی توثیق کیلئے امریکی کانگریس سے منظوری لی جائیگی۔

باراک اوبامہ نے کہا کہ دنیا کو بتانا ہوگا کہ امریکہ جو کہتا ہے وہ کرتا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ شام کے خلاف جاری بیرونی جارحیت کا منصوبہ 2010ء میں برطانیہ کی اینٹلی جنس MI-6 نے تیار کیا، جس کا مقصد بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور ان کی جگہ اپنے کسی مہرے کو زمام حکومت حوالے کرنا تھا، تاکہ بشارالاسد کو اسرائیل سے دشمنی اور حزب اللہ کی اعلانیہ حمایت کی سزا دی جاسکے، اس کے علاوہ عالم عرب میں اس آخری حکومت کا خاتمہ کیاجاسکے، جس نے اسرائیل کو نہ تو تسلیم کیا اور نہ ہی اس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ برطانوی سامراجی سازش کا بھانڈہ پہلی مرتبہ سابق فرانسیسی وزیر خارجہ الان دوپان نے مغربی میڈیا میں اس وقت پھوڑا جب انہوں نے انکشاف کیا کہ 2010ء میں جب وہ لندن کے دورے پر تھے، ان کے ہوٹل میں دو افراد ان کے پاس آئے اور انہیں ایک ایسی سازش کا حصہ بننے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، جس کا مقصد باہر سے شام کے اندر بغاوت کرانا تھا، جس کے لئے پیسہ عرب ممالک اور امریکہ سمیت دیگر پوری ممالک نے فراہم کرنا تھا۔

 جس سے عسکریت پسندوں کو شام میں داخل کرکے شورش برپا کرانا تھا، لیکن موصوف کے انکار کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھا سامراج برطانیہ اقتصادی و معاشی بدحالی کی بناء پر اس قدر طاقت نہیں رکھتا کہ خود سے دنیا میں کسی ملک کے خلاف کارروائی کرسکے، لیکن اپنی سرشت کے مطابق سازش اور حیلہ سازی سے اپنی صیہونیت نوازی اور اسرائیل کی خدمت کا فریضہ سرانجام دینا چاہتا ہے۔ ویسے بھی اسرائیل کا قیام بھی اعلان بالفور کے نتیجے میں برطانیہ ہی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ عربوں اور فلسطینیوں کی زمینوں سے بیدخلی اور وہاں دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسانے کا منصوبہ بھی برطانیہ ہی کا تھا، اب اسرائیل کے خلاف آخری رکاوٹ کا خاتمہ کرکے اپنے شیطانی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔

یو این سکیورٹی کونسل کے دو اہم ارکان روس اور چین کی جانب سے شام کے خلاف اقوام متحدہ کی چھتری تلے جارحیت کے منصوبے کو ناکام بنانے اور مسئلے کا حل مذاکرات سے ڈھونڈنے پر زور دینے کی بدولت امریکہ اور برطانیہ نے شامی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جواز ڈھونڈ لیا ہے، لیکن غیر جانبدار دنیا امریکہ کے اس عذرلنگ کو تسلیم کرنے کیلئے اس لئے بھی تیار نہیں کہ ابھی اقوام متحدہ کے ماہرین شام سے تحقیقات کرکے واپس لوٹی ہیں اور اس کی رپورٹ آنے میں بقول سکریٹری جنرل بانکی مون تین ہفتے لگ سکتے ہیں، لیکن امریکہ اور اس کے شام مخالف اتحادیوں کو بہت جلدی ہے، وہ شام پر حملہ کرکے وہاں کے عوام کو جمہوریت کا تحفہ دینا چاہتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے افغانستان، عراق اور لیبیا کے عوام کو دیا ہے۔
 
اگر بالفرض دمشق میں عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے اور مبینہ طورپر 1600 مرد، خواتین اور بچے جان بحق ہوئے، لیکن امریکی کروز اور ہاک میزائلوں کے حملوں میں جو جانی ایتلاف ہوگا اس کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو احساس ہے؟ کیا اس جارحیت میں جو انسان مارے جائیں گے وہ شام کی شہری اور سب سے بڑھ کر انسان نہیں؟ کیا ان کے انسانی حقوق نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ صدر باراک اوبامہ کی اس جنگی جنون کے خلاف امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ برطانوی جنگجو وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو اپنے جنگی جنون میں اس وقت منہ کی کھانی پڑی، جب برطانوی پارلیمنٹ نے اکثریت رائے سے شام پر حملے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ یہی حالت فرانس کی ہے، جہاں یہ مسئلہ جلد پارلیمنٹ میں پیش ہوگا اور وہاں بھی نقشہ برطانیہ سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یو این سکیورٹی کونسل، آزاد اقوام کا ضمیر اور آزاد شام پر جارحیت کے خلاف یک آواز ہے تو پھر باراک اوبامہ ڈیوڈ کیمرون، فرانسوا اولنڈ سمیت دیگر جنگی جنون میں مبتلا حکمران آخر اپنے طور پر ہی دنیا کو ایک ایسی جنگ میں کیوں دھکیلنا چاہتے ہیں، جس کے نتائج صرف خطے پر ہی نہیں، بلکہ عالمی امن کیلئے نہایت تباہ کن ثابت ہونگے۔ روس، چین، ایران سمیت دنیا کے دیگر ممالک اس حوالے سے امریکہ کو خبردار کرتے رہے ہیں، کیونکہ شام، روس اور ایران کا قریب ترین اتحادی ملک ہے اور خطے میں روس اور ایران کو نظرانداز کرنا اس لئے ہی ممکن نہیں کہ بحیرہ روم اور خلیج فارس میں ہی روس اور ایران کی مضبوط بحری اڈے اور جہاز موجود ہیں، اگر امریکہ نے ان تمام خطرات اور عالمی قواعد کو نظرانداز کرکے کوئی تنہا ہی مہم جوئی پر نکل کھڑا ہوا تو یہ اس کیلئے ایسی کھائی ثابت ہوگی، جس سے نکلنا تو کجا اس کے ساتھ خطے کے دیگر ممالک کا حشر نشر ہوگا کیونکہ تیل کے ذخائر اور تیل کی نقل و حمل کا نظام سنگین خطرات کی زد میں آئے گا، تو آدھی دنیا تیل کی عدم دستیابی اور اس سے پیدا ہونے والے تباہ اثرات سے خودبخود ڈھیر ہوگا، لہٰذا باراک اوبامہ اور ان کی جنگی مشن کے آپریٹروں کو شام پر حملے کی غلطی سے باز رہنا چاہئے، ورنہ یہ شاید ان کی آخری غلطی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 300162
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Well writen article.truely depicted picture of the issue.
Sajjad Hussain Kamil Journalist Reseacher
Columist councile of Pakistan
United Kingdom
Mashallah Tasawar bhai, very nicely argued
United Kingdom
.Keep it up Tasawwar Bhai
منتخب
ہماری پیشکش