0
Monday 9 Sep 2013 12:50

خوف کے سہارے قائم امریکی سلطنت کی پریشانی

خوف کے سہارے قائم امریکی سلطنت کی پریشانی
تحریر: ثاقب اکبر  

عالمی امریکی سلطنت دنیا میں خوف پیدا کرکے قائم کی گئی ہے اور اسی کے سہارے قائم رہ سکتی ہے۔ تصادم اور خوف کی فضا میں فوجی اور سیاسی مداخلت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اسی فضا میں اسلحہ بھی بکتا ہے جس کا سب سے بڑا بیوپاری امریکہ ہے۔ اسلحہ بیچنے کے لیے ضروری ہے کہ اقوام، مذاہب اور مسالک آپس میں لڑیں یا جنگ کی تیاری کی حالت رہیں۔ امریکہ امن قائم کرنے کے بہانے یا کسی سرکش کو سزا دینے کے نام پر، یا انسانی حقوق کی پامالی روکنے کے عنوان سے یا کسی مظلوم کو نجات دلانے کے نام سے دخیل ہوجاتا ہے، لیکن شام کے معاملے میں اچانک گومگو کی ایسی کیفیت پیدا ہوگئی، جس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ 

شام ایک عرصے سے امریکہ کے نشانے پر ہے، لیکن امریکہ نے شام میں تبدیلی یا حکومت کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے کے لیے جتنی کوششیں کیں وہ پے درپے ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں۔ 2011ء سے مسلح مداخلت کاروں کی مدد سے جس تبدیلی کے لیے پیسہ، اسلحہ، تربیت اور پراپیگنڈے کا سلسلہ جاری ہے وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس بھاری اور سب سے بڑی انوسٹمنٹ کی ناکامی امریکہ کے لیے ناقابل برداشت دکھائی دے رہی ہے۔ جب سے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف القاعدہ اور دیگر گروہوں کی کارروائیاں جاری ہیں، اس وقت سے امریکہ اس آپشن پر کام کر رہا ہے کہ اگر یہ مسلح مداخلت کار ناکام ہونے لگے یا انھیں بڑے پیمانے پر خارجی فوجی مدد کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے کوئی جواز ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ 

شامی فوج کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ امریکہ کی نظر میں ایک ایسا قابل ذکر جواز بن سکتا ہے جسے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر ایک عرصے سے شور مچایا جا رہا ہے۔ پہلے پہل یہ کہا گیا کہ شامی فوج کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں، ان کے استعمال کا شدید خطرہ ہے۔ شامی حکومت بھی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ امریکہ اس بہانے کے درپے ہے، لہٰذا گذشتہ دو برس سے شامی حکومت اور اقوام متحدہ میں اس کے مستقل نمائندے مسلسل اس بات پر زور دیتے چلے آرہے ہیں کہ وہ ہرگز کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کریں گے اور نہ ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔
 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شامی فوج کو علم ہے کہ امریکہ کسی عذرلنگ کی تلاش میں ہے اور دوسری طرف اسے تخریب کار گروہوں کے خلاف مسلسل کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں اور اب میدان میں اس کا پلڑا بھاری ہے تو اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرے۔
رہی بات امریکی صدر اور وزیر خارجہ کی جن کا یہ کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ شامی فوج نے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں تو ان کے کہنے پر کون اعتبار کرے جب کہ سب کو مندرجہ ذیل حقائق کا علم ہے:
(1) سابق امریکی صدر، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، سی آئی اے کے سربراہ اور دیگر امریکی عہدیدار بارہا کہتے رہے ہیں کہ صدام حکومت کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، اس لیے اس کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ بعدازاں سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ عراق کو بری طرح تباہ کر دیا گیا۔ ایک ملین سے زیادہ انسان امریکی حملے کی وجہ سے قتل ہوگئے اور بعد میں امریکہ نے اعتراف کرلیا کہ عراق کے اندر سے ایسے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ کیا تباہی پھیلانے والے نام نہاد ہتھیار ہوتے بھی تو وہ اتنی تباہی پھیلا سکتے تھے جتنی امریکہ نے جھوٹ بول کر اور عالم انسانیت کو دھوکہ دے کر پھیلائی؟
 
(2) یہی امریکہ ہے جس نے سابق عراقی ڈکٹیٹر کو کیمیائی ہتھیار فراہم کئے اور اس نے آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے دوران میں انھیں بے دردی سے استعمال کیا۔ ساری دنیا اس امر کی شاہد ہے کہ بعد میں امریکی فوج کی موجودگی میں عراقی عدالت میں صدام کا یہ جرم ثابت بھی ہوگیا۔
(3) امریکہ اور اس کے اتحادی مسلسل شام میں حکومت کے خلاف نبردآزما گروہوں کی اسلحے اور پیسے کے ذریعے سے مدد کر رہے ہیں اور شامی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکی خواہش اور کوشش دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ایسے میں امریکہ تو خود اس جنگ کا ایک فریق ہے، وہ کسی مسئلے میں ’’قاضی‘‘ اور قاضی کے فیصلے کے اجراء کے لیے ’’پولیس مین‘‘ کیسے بن سکتا ہے۔ ’’قاضی‘‘ تو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ امریکہ تو اس جنگ کا حصے دار ہے، اس کا یہ کہنا کہ اسے یقین ہے کہ شامی فوج نے مخالفین یا اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں، کس طرح سے قابل اعتبار دعویٰ ہوسکتا ہے۔؟
 
(4) ایک طرف امریکہ ہے اور دوسری طرف دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جو امریکی دعوے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ روس اور چین ہی نہیں یورپی یونین میں بہت سے امریکی اتحادیوں نے بھی امریکی دعوے کو قبول نہیں کیا۔
(5) شامی حکومت کے خلاف سرگرم گروہوں کو سعودی عرب کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی کی خبریں عام ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے میں بعض اہم کمانڈروں کے بیانات بھی سامنے آچکے ہیں۔
(6) خود شامی حکومت نے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو دعوت دے کر شام میں اسی لیے بلایا تھا، تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ حکومت مخالف جنگجوؤں نے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ اگر شامی فوج نے یہ ہتھیار استعمال کیے ہوتے تو وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو اس مسئلے کی تحقیق کی دعوت کیوں دیتی۔؟
 
(7) دنیا کا کوئی قانون امریکہ سمیت کسی ریاست کو اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ اگر کسی ملک میں ایسا کوئی واقعہ ہو، یعنی ممنوعہ اسلحہ عوام کے خلاف استعمال کیا جائے تو وہ اپنی افواج لے کر اس ملک پر چڑھ دوڑے یا اس کے لیے اپنی فضائیہ استعمال کرے، ایسے میں اقوام متحدہ اور دنیا کی دیگر اقوام کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکی صدر اور دیگر امریکی عہدیداروں کا یہ کہنا کہ وہ اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر بھی شام پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں، امریکہ کی جارحانہ، سفاکانہ اور استعماری ذہنیت کا عکاس ہے۔
(8) امریکی صدر نے امریکی کانگریس سے حملے کی اجازت کے لیے جو رجوع کررکھا ہے، اس کی حیثیت نمائشی ہے۔ امریکی صدر کو آئینی طور پر اختیار ہے کہ وہ جنگ کا فیصلہ کرے۔ لہٰذا کانگریس کی طرف رجوع کرنے کے پیچھے دیگر وجوہات ہیں، جنھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
 
ہماری رائے میں امریکہ 28 اگست 2013ء کو شام پر حملے کے لیے پوری طرح تیار تھا اور حملے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ حملہ 29 اگست کو کیا جانا تھا لیکن اچانک صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ اس کی بنیادی وجہ شامی حکومت اور علاقے میں اس کی حامی قوتوں کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ اگر شام پر حملہ ہوا تو اس کا جواب تل ابیب میں دیا جائے گا۔ اسرائیل کے لیے شدید خطرہ پیدا ہوگیا۔ اسرائیل کے بہت سے شہری اچانک ملک چھوڑنے لگے اور بہت سے ملک چھوڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ امکانی حملوں کے پیش نظر عوام نے بڑی تعداد میں چہروں پر پہننے والے ماسک خریدنے شروع کر دیئے۔ ان کی مانگ اتنی بڑھی کہ ماسک کم پڑگئے۔ 

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ روسی دھمکیوں کی وجہ سے امریکہ نے شام پر حملے کا فیصلہ تبدیل یا ملتوی کر دیا۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہوسکتی ہے لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ روس حملے کی صورت میں عملی طور پر امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوتا۔ اصل وجہ اسرائیل کے لیے ممکنہ طور پر پیش آمدہ خطرات تھے۔ امکانی طور پر خود اسرائیل ہی کی درخواست پر برطانیہ اور امریکہ کو ایک طرح کی پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ پارلیمنٹ یا کانگریس کی طرف مسائل کو ریفر کرنا درحقیقت نئے فیصلوں کے لیے وقت حاصل کرنے کے لیے ہے اور جب تک اسرائیل کی حفاظت کے بارے میں یقین حاصل نہ ہو جائے امریکہ شام کے خلاف کوئی فوجی اقدام نہیں کرے گا۔ شام کے خلاف محدود پیمانے پر فضائی حملوں کی بات اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
 
دوسری طرف امریکہ کے لیے یہ بظاہر پسپائی ایک بہت تشویش ناک امر ہے، چونکہ امریکی فیصلہ ساز اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اگر اتنے واضح اعلانات کے باوجود امریکہ شام کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کرتا تو امریکی رعب و داب متاثر ہوگا اور کمزور قوموں پر سے امریکی خوف و دہشت کم ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوگیا تو خطے کی صورت حال ہی نہیں، باقی دنیا کی صورت حال بھی تبدیل ہو نے لگے گی۔ پہلے ہی بعض ملکوں کا امریکی سلطنت کے سامنے سر نہ جھکانا دیگر قوموں کو جرأت پر ابھارنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ہے امریکی سلطنت کی وہ پریشانی جو اسے کوئی غلط قدم اٹھانے پر اکسا سکتی ہے، لیکن اس غلط قدم کے نتائج امریکی پشیمانی ہی کا باعث ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 300061
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش